یہ جو ہم نونیوں کو پٹواری کہتے ہیں‘ ایک حد تک درست ہے لیکن اس اصطلاح میں خیالِ پنہاں نامکمل ہے۔ یہ پٹواریوں کا ملک ہے‘ ہم لوگ سوچ سے عاری ہیں اور اس دھرتی کے ساتھ وہ کررہے ہیں جو آسمانوں سے اُترا ہوا عذاب نہ کر سکے۔ دانشورِ پنجاب سردار عثمان بزدار کی کابینہ میں جو وزیر انڈسٹری تھے میاں اسلم اقبال‘ ایک روز ہوا‘ میں نے اُنہیں فون کیا اور کہا کہ آپ کو کچھ اندازہ ہے کہ پنجاب میں جن چودہ سیمنٹ فیکٹریوں کی آپ نے اجازت دی ہے اس سے کیا تباہی مچے گی؟ شریف انسان ہیں‘ حیران ہو گئے اور کہنے سے کچھ قاصر تھے کیونکہ اُنہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہیں۔ میں نے کہا: میاں صاحب جن علاقوں میں آپ نے فیکٹریاں لگانے کی اجازت دے دی تھی وہ علاقے تو کم از کم دیکھ لیے ہوتے۔
ڈویلپمنٹ ہو یا روزمرہ کی زندگی‘ اُس کیلئے سیمنٹ ناگزیر ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں لیکن کیونکہ سیمنٹ بنانے کا عمل ماحول کو تباہ کرتا ہے اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ دیکھا جائے کہ اتنا ہی سیمنٹ مینوفیکچر کیا جائے جو قومی ضرورت کیلئے کافی ہو۔ پاکستان میں حالت یہ ہے کہ ہم اپنی قومی ضروریات سے زیادہ سیمنٹ بنا رہے ہیں اور پھر وافر سیمنٹ کو ہم ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔ جو اس ایکسپورٹ سے ہمیں ملتا ہے اُس سے کہیں زیادہ زمین‘ پانی اور ماحولیات کی تباہی ہم مول لے رہے ہیں۔ یعنی اس عمل میں کوئی بیلنس نہیں رہا‘ فائدہ تھوڑا ہے اور تباہی زیادہ۔ لیکن سیٹھ لوگ سیمنٹ بنانے سے بے پناہ دولت کما رہے ہیں‘ اس لیے جتنی سیمنٹ پروڈکشن ہو چکی ہے اُس پر راضی نہیں۔ وہ مزید فیکٹریاں لگانے کے چکر میں ہیں تاکہ اور دولت بنائی جائے اور جہاں تک ماحولیات کا تعلق ہے وہ بیشک بھاڑ میں جائے۔ جو تین بڑی فیکٹریاں مشرف دور میں چکوال کے علاقہ چوآسیدن شاہ میں لگائی گئیں اُنہوں نے ایک خوبصورت خطۂ زمین کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ چلیں‘ اُنہوں نے جو بھی تباہی پھیلائی وہ فیکٹریاں اب موجود ہیں اور اُنہیں ہٹانا ناممکن ہے۔ بہرحال مزید فیکٹریاں لگانے کی گنجائش تو اُس علاقے میں نہ تھی۔ لیکن بغیر سوچے تین مزید فیکٹریوں کی اجازت دے دی گئی ہے۔
چوآگنج علی شاہ کا علاقہ دلجبہ پہاڑی سلسلے کے نیچے ہے۔ یہ پہاڑ چکوال اور چوآسیدن شاہ کو تقسیم کرتے ہیں اور ان میں پرانے پھلاہی اور کاہو کے جنگلات ہیں۔ نہایت خوبصورت علاقہ ہے اور پہاڑ ایسے ہیں کہ یہاں نایاب اڑیال بھی پائے جاتے ہیں۔ یورپ‘ امریکہ‘ چین یا روس میں یہ علاقہ ہوتا تو سیاحت کا مقام سمجھا جاتا‘ دنیا بھر کے لوگ یہاں سیر کرنے آتے۔ میں یہ بھی کہہ دوں کہ دلجبہ کے پہاڑ خوبصورتی کے لحاظ سے مارگلہ پہاڑوں سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں۔ اور اب کراچی کے سیٹھوںکا ایک ٹولا ہے جسے اس علاقے میں سیمنٹ پلانٹ لگانے کی اجازت مل گئی ہے۔ ہزاروں ایکڑ کا رقبہ انہیں لیز کیا جا رہا ہے۔ سرکاری جنگلات ہیں جنہیں کسی حد تک لیز سے بچا لیا گیا ہے لیکن جو ذاتی ملکیت میں پہاڑ اور جنگلات ہیں وہ ان سیٹھوں کے حوالے ہو رہے ہیں۔
سیمنٹ تین اجزا سے بنتا ہے: لائم سٹون پتھر‘ مٹی یا جسے انگریزی میں کلے (Clay) کہتے ہیں اور پانی۔ پہاڑوں سے لائم سٹون پتھر نکالا جائے تو وہ زمین تاقیامت بیکار ہو جاتی ہے‘ کسی کام کی نہیں رہتی۔ ایک الیکشن دورے میں مَیں غریبوال سیمنٹ فیکٹری‘ جو کہ قریب ہی ہے‘ کے علاقے میں گیا۔ وہاں میں نے وہ علاقہ دیکھا جہاں سے لائم سٹون برسوں سے نکالا جا رہاہے۔ ایسا لگا کہ اس زمین پر کوئی ایٹمی حملہ ہوا ہے۔ ایسی تباہ حال زمین دیکھ کر انسان کا دل دہل جاتا ہے۔ ان علاقوں میں پانی ویسے ہی کم ہے۔ سیمنٹ فیکٹریاں پانی صرف استعمال نہیں کرتیں‘ پانی کو زمین سے چوس لیتی ہیں۔ پانی کی سطح گر جاتی ہے اور زمین پیاسی ہو جاتی ہے۔ کٹاس راج کے مشہور مندروں کے درمیان جو صدیوں سے تالاب آ رہا تھا‘ اُس کا پانی قریب سیمنٹ فیکٹری لگنے سے ختم ہوتا گیا۔ جب یہ فیکٹریاں اجازت لینے کیلئے فیزیبلٹی رپورٹیں مرتب کرتی ہیں تو ایسی دروغ گوئی سے کام لیتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ ان رپورٹوں میں کہتے ہیں کہ پانی دور سے لایا جائے گا‘ مقامی پانی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ سب جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے کیونکہ جو ٹیوب ویل لگائے جاتے ہیں اُسی زمین سے پانی کھینچتے ہیں۔ چوآ گنج علی شاہ اور دلجبہ کے پہاڑوں میں ویسے ہی پانی کی سطح بہت نیچے ہے۔ یہ فیکٹریاں لگیں گی تو حشربرپا ہو جائے گا۔ سیٹھ تو کراچی میں بیٹھے ہوں گے‘ اُنہیں کیا پروا کہ دِلجبہ کے پہاڑ کیا ہیں‘ علاقہ جھنگڑ کا معنی کیا ہے‘ چوآ گنج علی شاہ کس مقام پر واقع ہے۔
کہنے کو محکمہ ماحولیات ماحولیاتی رپورٹ بناتا ہے۔ کاغذوں کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اصل میں ایسی رپورٹیں بے مقصد ہوتی ہیں۔ ایک اور بات بتا دوں کہ دلجبہ پہاڑوں کے اُس پار بشارت اور آڑہ کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ تھوڑا آگے چلے تو وہاں سے جہلم کے پہاڑوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ میں کتنی بار کہوں کہ یہ کتنا خوبصورت علاقہ ہے؟ یہاں تو فیکٹری لگانے کا کوئی تصوربھی نہیں ہونا چاہیے کجا یہ کہ پہاڑ کے پہاڑ برباد ہوں اور جنگلات کاٹے جائیں۔ اوپر سے ہم بات ماحولیات اور بلین درخت سونامی پروجیکٹوں کی کرتے ہیں جو سب کے سب جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں۔ خانہ پری کیلئے دعوے ہوتے ہیں کہ درخت لگائے جا رہے ہیں اور اصل میں درختوں کی جو تباہی ہمارے ملک میں ہوتی ہے اُس کی نظیر شاید کہیں اور نہ ملے۔
عمران خان کے دورِ اقتدار میں مَیں ایک دفعہ وزیراعظم ہاؤس اُنہیں ملنے گیا اور وہ بھی ڈاکٹر شہبازگل کے اصرار پر۔ اُس سے پہلے جب بھی اجتماعی دعوت آتی تھی میں انکار کرتا تھا۔ اس ملاقات میں گیا تو میرے بیٹھتے ہی خان صاحب نے کرپشن کے خلاف اپنی روایتی تقریر شروع کر دی۔ میں نے سوچا میری ملاقات آدھے گھنٹے سے زیادہ نہ ہوگی اور خان صاحب کی تقریر نے اٹھائیس‘ انتیس منٹ سے پہلے ختم نہیں ہونا لہٰذا قطع کلامی کرتے ہوئے میں نے کہا: دو تین گزارشات ہیں۔ بولے: بتاؤ۔ میں نے کہا: اگر پلاسٹک شاپروں کا استعما ل کوئی ختم کر سکتا ہے تو وہ آپ ہیں۔ بولے: ہم نے تو وہ ختم کر دیا ہے‘ جو کہ سراسر غلط بات تھی لیکن انہوں نے شہباز گل کی طرف دیکھا اور کہا کہ بھائی یہ فیصلہ تو ہو گیا ہے۔ دوسرا میں نے کہا:ہمارے لیے کچھ آسانیاں پیدا کردیں‘ قانون کے اطلاق میں کچھ نرمی ہونی چاہئے۔ خان صاحب نے شہباز گل کی طرف دیکھا اور کہا: ایسا کر دو۔ تیسرا میں نے کہا کہ مزید سیمنٹ فیکٹریاں نہیں لگنی چاہئیں۔ خان صاحب نے کہا: بالکل ٹھیک ہے‘ ہم تو ماحولیات کے حق میں ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تینوں نکات کے بارے میں جو خان صاحب نے کہا وہ حقیقت پر مبنی نہیں تھا۔ یہی اُن کی حکمرانی کا سٹائل تھا کہ باتیں ہوا میں اور عمل درآمدکچھ نہیں۔
یہ چودہ سیمنٹ فیکٹریوں کی اجازت اتنا بڑا فیصلہ تھا کہ وزیراعظم عمران خان کوخود اس کا نوٹس لینا چاہئے تھا۔ لیکن سیٹھوں نے معاملات اُٹھائے اور حکومت پنجاب نے آنکھیں بند کرکے اجازتیں دے دیں اور سابق وزیراعظم پاکستان‘ جو اپنے آپ کو ماحولیات کا پتا نہیں کیا سمجھتے تھے‘ کو یا تو اس بارے کوئی خبر ہی نہ تھی یا اُنہیں اس معاملے کی اہمیت کا ادراک نہ ہوا۔
باتیں ہم اونچی اونچی کرتے ہیں‘ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی۔ لیکن عمل کا عالم یہ ہے کہ بڑے کام تو چھوڑیں معمولی نوعیت کے کام ہم ڈھنگ سے نہیں کر پاتے۔ یہ فیکٹریاں لگیں تو وہاں کی زمین تباہ ہو جائے گی۔ کوئی تو اس معاملے کو دیکھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved