کھڑکی سے آنے والی نم ہوا میرے چہرے کو چھو رہی تھی اور نیند میری آنکھوں میں اترنے لگی تھی۔ بستر پر لیٹا تو طویل سفر کی تھکن اور گہری نیند نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ نجانے کب تک سوتا رہا۔ صہیب نے جگایا تو شام پھیل چکی تھی۔ صہیب اور شعیب مجھے اپنے ساتھ قریبی سٹور No Prills پرلے گئے۔ یہ سٹور ان کے گھر کے قریب ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی‘ یہاں ایک پورا سیکشن حلال فوڈ کا ہے۔ صہیب نے بتایا کہ یہاں کے ہر بڑے سٹور پر حلال فوڈ کا سیکشن موجود ہے۔ مجھے یاد آیا کہ تین دہائیاں پہلے ایسا نہیں تھا۔ ہم حلال گوشت خریدنے کے لیے Ossington میں ایک سٹور پر جایا کرتے تھے۔ سٹور کے مالک کا نام محمد تھا اور اس کا تعلق انڈیا سے تھا۔ سٹور میں گوشت بنانے والا لڑکا پاکستان کے شہر گجرات سے تھا۔ مجھے یاد ہے اس کی ایک انگلی کٹی ہوئی تھی۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا تھا کہ گوشت بناتے ہوئے اس کی انگلی تیز مشین کی زد میں آ کر کٹ گئی تھی۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ اپنے وطن اور اپنے گھروں سے دور کتنے ہی پاکستانی محنت کش بیرونی ممالک میں بے رحم مشینوں کے رحم و کرم پر ہیں۔
لیکن ایک طویل مدت کے بعد کینیڈا آنے پر میں نے دیکھا کہ اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔ اب تو کتنی ہی حلال اشیا دیسی سٹورز کے علاوہ ہر بڑے کینیڈین سٹور پر بھی مل جاتی ہیں۔ تب صرف پیٹابریڈ (Pita Bread) پر گزارہ رہتا تھا لیکن اب تو مختلف اقسام کے نان‘ توے کی روٹی‘ پراٹھے اور پٹھورے‘ سب کچھ دستیاب ہے۔ میں سٹور کے مختلف سیکشن دیکھ رہا تھا کہ صہیب نے سٹور میں ایک شیلف کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ ایک بڑے شیلف پر ایک پاکستانی برانڈ کے مسالا جات کی ساری ورائٹی سجی ہوئی تھی۔ میں نے دیکھا ان میں سے کچھ مسالے ایسے تھے جو پاکستان میں نہیں ملتے لیکن یہاں دستیاب تھے۔ ہم ضروری اشیا خرید کر سٹور سے باہر نکلے تو منظر ہی مختلف تھا۔ تیز بارش برس رہی تھی۔ شاید یہ سال کا وہ مہینہ ہے جب اچانک بارش شروع ہوتی ہے اور پھر فوراً ہی دھوپ نکل آتی ہے۔ آج یہاں کا درجہ حرارت 15ڈگری سینٹی گریڈ ہے جس دن ہم لاہور سے آئے تھے وہاں کا درجہ حرارت 45ڈگری سینٹی گریڈ تھا اور قیامت کی گرمی پڑ رہی تھی۔ لیکن یہاں ہوا میں ایک خوش گوار خنکی تھی۔ اس روز ڈنر کے بعد ہم جلدی سو گئے۔ صہیب نے بتایا کہ یہاں ڈنر سات‘ ساڑھے سات بجے کر لیا جاتا ہے۔ میں نے کہا: بالکل ہمارے گاؤں کی طرح‘ جہاں رات کا کھانا مغرب کی نماز کے بعد کھا لیا جاتا ہے۔ گاؤں میں سب جلدی سوتے اور منہ اندھیرے اٹھ کر اپنے دن کا آغاز کر دیتے ہیں۔
بدھ کے دن صہیب تو اپنے آفس چلا گیا‘ وہ Work from Home کے تحت گھر کے آفس سے کام کرتا ہے۔ میں نے شعیب سے کہا: آج ہم ٹورونٹو کے ڈاؤن ٹاؤن جائیں گے۔ میرا دل اس عمارت کو دیکھنے کے لیے ہمک رہا تھا جہاں ہم چار سال رہے تھے۔ گھر کے قریب ہی گوٹرین (Go Train) کا سٹیشن ہے۔ سٹیشن میں داخل ہو کر ہم نے وہاں نصب کردہ کئی مشینوں میں سے ایک پر اپنا کارڈ Scan کیا‘ شعیب کہنے لگاکہ ٹرین کا اس سٹیشن پر پہنچنے کا وقت 12:15ہے‘ گاڑی آنے میں ابھی چند منٹ باقی تھے۔ ہم سٹیشن کے قریب واقع Lake Ontarioچلے گئے‘ کیا خوب صورت منظر ہے۔ حدِ نظرتک پھیلا ہوا نیلا پانی اور ایک گہری خاموشی۔ دور Pickering شہر کی عمارتیں نظر آ رہی تھیں۔ شعیب نے کہا: ہم بعد میں یہاں زیادہ دیر کے لیے آئیں گے۔ سوا بارہ بجے ٹرین نے آنا تھا۔ ہم 12بج کر تین منٹ پر سٹیشن پر واپس پہنچ گئے۔ ٹرین پورے سوا بارہ بجے سٹیشن پر پہنچ گئی۔ نہ ایک منٹ زیادہ نہ کم۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: یہی وہ خوبی ہے جو ترقی یافتہ اقوام کی پہچان ہے‘ وہ وقت کو بھی دولت کی طرح سمجھتے ہیں اور ایک ایک لمحے کی حفاظت کرتے ہیں۔ ٹرین میں داخل ہو کر ہم اوپر کی منزل پر چلے گئے اور میں اور شعیب آمنے سامنے کھڑکی کے قریب بیٹھ گئے۔ ٹرین میں موبائل فون کو چارج کرنے کے لیے ہر سیٹ کے ساتھ Connection مہیا کیے گئے ہیں۔ ٹرین مختلف سٹیشنوں پر رکتی تو انگریزی اور فرانسیسی میں اعلان کیا جاتا۔ کینیڈا دو بڑے حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک میں فرانسیسی اور دوسرے حصے میں انگریزی بولی جاتی ہے۔ دونوں زبانوں کی یکساں تکریم کی جاتی ہے۔
ہم گھر کے قریب ویسٹ روج (West Rouge)کے سٹیشن سے گو ٹرین (Go Train) پر سوار ہوئے تھے‘ ڈاؤن ٹاؤن ٹورونٹو پہنچنے تکDanforth‘ Scarborough‘ Eglinton‘ Guildwood کے سٹیشن آئے اور گزر گئے۔ ہم Unionکے سٹیشن پر اتر گئے۔ یہ ایک بڑا اور مصروف سٹیشن ہے‘ کیونکہ اس کے ارد گر اہم سیاحتی مراکز مثلاً سی این ٹاور‘ واٹر فرنٹ اور ٹورونٹو آئی لینڈ واقع ہیں۔ سٹیشن کیا ہے‘ مختلف ٹرینوں کا ایک جنکشن ہے۔ وہیں پر یہاں کی انڈر گراؤنڈ ٹرین‘ جسے یہاں سب وے (Sub way) کہتے ہیں‘ کا سٹیشن ہے۔ سب وے کا شمار دنیا کی بہترین انڈر گراؤنڈ ٹرینوں میں ہوتا ہے۔ ہم یہاں سے سب وے پر سوار ہو گئے۔ ہماری اگلی منزل ینگ اور بلور کا سٹیشن تھا۔ ینگ (Yonge) اور بلور (Bloor) کینیڈا کی دو مشہور شاہراہیں ہیں۔ بلور مشرق سے مغرب جبکہ ینگ شمال سے جنوب کی طرف جاتی ہے۔ سب وے چل رہی تھی اور رستے میں وہی مانوس سٹیشن آتے جا رہے تھے۔ Wellesely‘ College‘ Dundas‘ Queen‘ King اور پھر Yonge and Bloor۔ میرے ذہن کے پردے پر پرانے منظر روشن ہو رہے ہیں۔ ہم ینگ اور بلورکے سب وے سٹیشن پر اتر گئے۔ جب میں شعیب کے ہمراہ سب وے سٹیشن کی سیڑھیاں چڑھ کر باہر سڑک پر آیا تو جیسے ماضی کے سب لمحے پلکیں جھپکتے ہوئے میرے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ میرے قدم خود بخود 35چارلس سٹریٹ کی طرف اٹھنے لگے‘ وہی عمارت جو یونیورسٹی آف ٹورونٹو کے طلبہ کی رہائش گاہ تھی اور جہاں میں چار سال رہا تھا۔ کیسی ہوگی وہ عمارت؟ اب وہاں کون لوگ رہتے ہوں گے؟ کیا میں اس کے اندر جا سکوں گا؟ ہم ینگ سٹریٹ سے دائیں ہاتھ مڑے تو میرے سامنے 35چارلس سٹریٹ کی 22منزلہ عمارت کھڑی تھی جس کے ساتھ میری کتنی ہی یادیں وابستہ تھیں۔ چار برسوں پر محیط یادیں۔ میرے قدم تیز ہو گئے۔ اب میں ٹورونٹو کے وسط میں واقع 35چارلس سٹریٹ ویسٹ کے سامنے کھڑا یادوں کی بارش میں بھیگ رہا تھا۔ اس عمارت سے میں پہلی بار اس وقت متعارف ہوا تھا جب میں یہاں دو ماہ کے لیے عارضی طور پر ٹھہرا تھا۔ اس وقت تک میں اکیلا ہی ٹورونٹو میں رہ رہا تھا‘ پھر بچوں کے آنے پرOssington Avenue میں کرائے پر گھر لے لیا تھا۔ اس دوران میں نے یونیورسٹی اکاموڈیشن کے لیے اپلائی کر دیا تھا۔ چند ماہ بعد ہی اطلاع ملی کہ 35 چارلس سٹریٹ میں مجھے اپارٹمنٹ مل گیا ہے۔ اسما اور میں بچوں کے ہمراہ اپنا اپارٹمنٹ دیکھنے گئے تو پتا چلا کہ ہمارا اپارٹمنٹ انیسویں منزل پر ہے اور اپارٹمنٹ کا نمبر 15 ہے۔ یوں ہمارے اپارٹمنٹ کا نمبر 1915 تھا۔ یعنی 19 ویں منزل اور اپارٹمنٹ نمبر 15۔ اسما نے سر اٹھا کر بلند و بالا عمارت کو دیکھا اور تشویش بھرے لہجے میں کہا: یہ اپارٹمنٹ تو بہت بلندی پر ہے‘ اتنی اونچائی پر ہم چار سال کیسے رہیں گے؟(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved