سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کی اچانک موت اور اس پر پیپلز پارٹی کی پراسرار خاموشی جہاں بہت سے سوالات کو جنم دے دیتی ہے وہیں پیپلز پارٹی قیادت کے راز داںاور وزیر داخلہ جیسے اہم منصب پر فائز رہنے والے شخص سے اس کی زندگی کے آخری دور میں اس قدر بے اعتنائی بھی سمجھ سے بالا تر ہے۔ ایسے میں سابق صدر کے انتہائی قریبی سمجھے جانے والے سابق ایس ایس پی رائو انوار کا اچانک یہ انکشاف کہ ''پرویز مشرف کا بے نظیر کے قتل سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں تھا، اور یہ کہ بینظیر بھٹو قتل کیس کی اگر تحقیقات صحیح انداز میں چلائی جاتیں تو کیس آسانی سے حل ہو جاتا‘ تحقیقات کو صحیح انداز میں آگے نہیں بڑھایا گیا‘ چونکہ بہت سی چیزیں چھپائی جا رہی تھیں لہٰذا میں نے جے آئی ٹی پر دستخط سے انکار کردیا تھا‘‘، بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ محترمہ کی شہادت کے بعد حالات میں کیا تبدیلی آئی یہ ایک علیحدہ کہانی ہے جو وقت آنے پر شاید سامنے آ جائے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ برسوں قبل ہی یہ بات سامنے آ گئی تھی کہ آصف علی زرداری صاحب آئندہ انتخابات کے بعد ایک مخلوط حکومت تشکیل دیں گے۔ وہ یہاں تک کہہ چکے تھے کہ اگر پیپلز پارٹی کو عام انتخابات میں دو تہائی اکثریت سے بھی کامیابی ملی تو اس کے باوجود بھی سب جماعتوں کو ساتھ ملا کر ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے گی۔
27 دسمبر 2007ء کی شام لیاقت باغ راولپنڈی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے اب تک مختلف بیانات، تبصروں اور نجی گفتگوئوں میں آصف علی زرداری اور پرویز مشرف جلسہ گاہ میں سکیورٹی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے آئے ہیں لیکن اب رائو انوار کا حالیہ انکشاف کیس اور کسی اور ہی جانب موڑ رہا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعض قریبی حلقے یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ بعض سابقہ تجربات کی بنیاد پر محترمہ کی جانب سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ اگر آئندہ حکومت ملی تو زرداری صاحب کو وزیراعظم ہائوس کے معاملات میں شامل نہیں کیا جائے گا لیکن قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا اور حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ آصف علی زرداری ہی ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی جماعت کے وارث بن گئے۔ 18 برس قبل‘ دسمبر 2004ء کا ہیرالڈ جریدہ دیکھیں تواس کے سرورق پر جناب زرداری کی تصویر کے نیچے لکھا ہوا ملے گا: Pakistan's Favourite Jailbird seeks a role for himself۔ اسی انگریزی جریدے کے صفحہ 51 پر آصف زرداری سے متعلق لکھا ہوا ملے گا:
Meanwhile specluation is rife that Zardari may become the Prime Minister at the head of a National Government.
کیا یہ انٹرویو اور اس کے اقتباسات ہم سب کیلئے حیران کن نہیںکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاکستان واپس آنے سے تین سال قبل ہی جناب زرداری کی زیر قیادت قومی طرز کی حکومت کی خبریں دی جا نے لگی تھیں‘ جو 2008ء کے انتخابات کے بعد اس طرح سچ ثابت ہوئیں کہ اس میں نواز لیگ، مولانا فضل الرحمن، ایم کیو ایم اور ق لیگ سمیت سبھی جماعتیں شامل تھیں۔ (تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سمیت چند دوسری جماعتوں نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا تھا)۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا انتخاب بھی بلامقابلہ ہوا تھا۔ یہ امر بھی ذہن میں رکھئے کہ ہیرالڈ اُسی میڈیا گروپ سے تعلق رکھتا تھا جس نے نیوز لیکس والی مشہور زمانہ سٹوری شائع کی اور پھر نواز شریف کا وہ خصوصی انٹرویو‘ جس میں انہوں نے بھارت میں ہونے والی دہشت گردی کی ذمہ داری ریاست پر ڈالی تھی۔ یہ انٹرویو عین اس وقت شائع ہوا جب دو دن بعد عالمی عدالت میں کلبھوشن کیس کی سماعت میں بھارتی وکیل نے دلائل دینا تھے اور بھارتی وکیل نے کلبھوشن کا دفاع کرنے کے بجائے پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات لگانے کی روش برقرار رکھی اور اس کے دلائل میں سرفہرست میاں نواز شریف کے تازہ انٹرویو کا تراشا تھا۔ واضح رہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان میثاقِ جمہوریت مئی 2006ء میں طے پاتا ہے اور زرداری صاحب کا انٹرویو اس سے بھی دو سال قبل کیا جا رہا تھا۔مذکورہ انٹرویو میں زرداری صاحب سے پوچھا گیا: آپ کہہ رہے ہیں کہ پی پی پی اگر دو تہائی اکثریت سے بھی آنے والے انتخابات میں کامیاب ہوتی ہے تو اس کے باوجود وہ قومی حکومت بنائے گی‘ آپ یہ فیصلہ کیسے کر رہے ہیں؟ کیا آپ کا یہ فیصلہ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے لیے قابلِ قبول ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں جناب زرداری کہتے ہیں
We need to create national consensus in order to cope with the post 9/11 world. It is a monumental task.
شاید یہ قومی حکومت میں حصہ داری کی آفر تھی کہ جب میاں نواز شریف نے جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور محمود اچکزئی سمیت دوسری جماعتوں کے ساتھ محترمہ کی شہادت کے بعد 2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو یہ زرداری صاحب ہی تھے جنہوں نے نواز شریف کو ان انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کیا۔ دوسری جانب جولائی 2006ء میں پرویز مشرف اور منموہن سنگھ کے مابین جب سیاچن پر بیک چینل مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہونے لگے تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے ''کارگل میں بھارتی فوج کو دنیا بھر میں رسوا کرنے والے پاکستانی جرنیل سے کشمیر اور سیاچن پر تصفیہ‘‘ کے حوالے سے ایک منفی مہم چھیڑ دی تاکہ دونوں ممالک کے مابین مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہو سکیں کیونکہ اس سے پرویز مشرف کے ایک بار پھر ''فاتح‘‘ بن جانے کے امکانات تھے۔ اس وقت کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے‘ جو منموہن سنگھ کو مئی 2007ء میں اسلام آباد بھیجنے پر آمادگی ظاہر کر چکی تھیں اور ایجنڈے کے مطابق اس دورے میں سیاچن پر تصفیہ ہو جانا طے پایا تھا‘ جنرل جے جے سنگھ کے سامنے ہتھیار پھینکتے ہوئے مجبوراً اسلام آباد پیغام بھجوایا کہ وہ سیاچن پر ہونے والے تصفیے کیلئے طے شدہ ایجنڈے سے تو متفق ہیں لیکن کانگریس کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی مارشل حکومت کے بجائے جمہوری حکومت کے ساتھ بیٹھ کر اس کا اعلان کرے۔ یہی وجہ تھی کہ جب آصف علی زرداری بطور صدرِ پاکستان حلف اٹھا رہے تھے تو حامد کرزئی نے‘ جنہیں بطور صدرِ افغانستان خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا‘ تقریبِ حلف برداری کے بعد پاکستانی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''بہت جلد کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کی خوش خبری دیتا ہوں‘‘۔ اسی تقریب میں حامد کرزئی نے میڈیا سے طنزاً پوچھا: کدھر ہے پرویز مشرف؟ یہ خاص اشارہ تھا کہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ پرویز مشرف کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور اس کیلئے اسے کسی ایشو کی تلاش تھی۔ بعد ازاں افتخار چودھری کی بحالی کی آڑ میں جو تحریک چلی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ہفت روزہ اکانومسٹ کے ذریعے اس کا اشارہ پہلے ہی دے دیا گیا تھا کہ پرویز مشرف سے ہم نے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ اکانومسٹ نے اپنے صفحہ اول پر بڑے بڑے لفظوں میں Mr. Musharraf Time's Up لکھتے ہوئے پاکستان میں اپنے حامیوں کو ''Go Ahead‘‘ کا اشارہ کر دیا تھا۔ پیر صاحب پگاڑو مرحوم کا اگست 2006ء کے اخبارات میں شائع ہونے والا وہ انٹرویو بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں حکومت کو خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ''مارچ میں ڈبل مارچ ہو گا‘‘ اور پھر وہی ہوا۔ 9 مارچ 2007ء کو ایک نئے اور انوکھے طریقے سے ''عدلیہ کی آزادی‘‘ کی مہم شروع ہو گئی۔ پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو جب آپس میں این آر او طے کر رہے تھے تو تقدیر دونوں پر علیحدہ علیحدہ ہنس رہی تھی۔ افسوس! ایک سیاسی طور پر تو دوسرا جسمانی طور پر انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ سے مار کھا گیا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved