اُس عقلمند شخص کا قصہ کم و بیش سبھی نے سنا ہوا ہے جو درخت کی ٹہنی پر بیٹھا‘ اسی ٹہنی کو کاٹ رہا تھا۔
یکی بر سرِ شاخ و بن می برید
اس کا متبادل محاورہ ہمارے ہاں یہ بھی ہے کہ جس تھالی میں کھانا‘ اسی میں چھید کرنا! سیاسی اختلاف کی بنیاد پر عساکر کے پورے ادارے کو جو اپنی بدزبانی کا ہدف بنا رہے ہیں ان پر افسوس اور رحم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اول تو کسی بھی پاکستانی کو زیب نہیں دیتا کہ افواجِ پاکستان کے خلاف یاوہ گوئی کرے۔ اور پھر وہ افراد اور کنبے جو اسی ادارے سے پنشنیں وصول کر رہے ہیں‘ انہیں تو بالکل ایسا نہیں کرنا چاہیے! کیا ہے جو اس ادارے نے آپ کو نہیں دیا؟ عزت‘ نام‘ ایک آرام دہ زندگی! پھر آپ کیوں اس کے درپے ہو رہے ہیں؟ پہلے یہ شکوہ تھا کہ ادارے اپنی حدود و قیود سے باہر نکل جاتے ہیں۔ اب جب حالات نے کروٹ بدلی ہے اور ادارے عوام کی خواہش کے مطابق‘ اپنی آئینی حدود کے اندر رہنے کا عزم کر چکے ہیں تو آپ دہائی دینے لگ پڑے ہیں!
آرام دہ محلات میں رہ کر تنقید کرنا سہل ہے۔ زبانی جمع خرچ میں جاتا ہی کیا ہے! جان کو ہتھیلی پر رکھنا اور مورچوں میں زندگی گزارنا دوسری بات ہے! برفانی چوٹیوں پر‘ جہاں جسم کا جو حصہ بھی برہنہ ہو‘ فراسٹ بائٹ سے جھڑ جاتا ہے۔ کئی موسم گزارنا آسان نہیں۔ شمالی علاقوں کے پہاڑ جہاں آکسیجن کم ہے‘ سکردو سے کچھ ہی دور شروع ہو جاتے ہیں اور انہی مقامات پر ہمارے عساکر قیام پذیر ہیں۔ سورج کی شعائیں برف پر پڑ کر منعکس ہوں تو بینائی پر ضرب لگاتی ہیں۔ مہینوں تازہ راشن نہیں ملتا۔ بند ڈبوں والی خوراک پر گزر کرنا پڑتا ہے۔ بیوی بچوں‘ ماں باپ کے ساتھ ان برفانی چوٹیوں سے مراسلت اور رابطہ‘ آسان نہیں اور بات چیت تو ناممکن ہے۔ پھر مغربی سرحد کے سفاک‘ بنجر اور سیہ رنگ پہاڑ! جہاں قدم قدم پر دھوکا اور فریب ہے۔ افغان بارڈر اس ملک کے لیے ایک خدائی عذاب سے کم نہیں! دنیا کا دشوار ترین بارڈر! دنیا کے مشکل ترین لوگ! کتنے ہی جسدِ خاکی ہمارے عساکر کے وہاں سے آئے! کتنے بچے یتیم ہوئے۔ کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں! کتنے بوڑھے ماں باپ جیتے جی مر گئے۔ ان قربان گہوں میں صرف جوانوں کا نہیں‘ افسروں کا بھی خون بہا! سب کے جسدِ خاکی آئے۔ سب نے اپنے بازو اور ٹانگیں کھوئیں! چونڈہ کا میدان کون بھول سکتا ہے! مجید امجد کی نظم ''سپاہی‘‘ یاد آ گئی۔
تم اس وقت کیا تھے
تمہارے محلوں‘ تمہارے گھروں میں تو سب کچھ تھا
آسائشیں بھی وسیلے بھی
اس کبریائی کی تمکنت بھی
سبھی کچھ تمہارے تصرف میں تھا زندگی کا ہر اک آسرا بھی
کڑے بام و در بھی
چمن بھی ثمر بھی
مگر تم خود اس وقت کیا تھے
تمہاری نگاہوں میں دنیا دھوئیں کا بھنور تھی
جب اڑتی ہلاکت کے شہپر تمہارے سروں پر سے گزرے
اگر اس مقدس زمیں پر
مرا خوں نہ بہتا
اگر دشمنوں کے گرانڈیل ٹینکوں کے نیچے
مری کڑکڑاتی ہوئی ہڈیاں خندقوں میں نہ ہوتیں
تو دوزخ کے شعلے تمہارے معطر گھروندوں کی دہلیز پر تھے
تمہارے ہر اک بیش قیمت اثاثے کی قیمت
اسی سرخ مٹی سے ہے جس میں میرا لہو رچ گیا ہے
65ء کی جنگ چھڑی تو میں بارہویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میرے گاؤں میں کفش سازوں کا بہت بڑا خاندان تھا۔ ان کے سب مرد‘ ایک کمرے میں بیٹھ کر کفش سازی کرتے۔ والد صاحب اور ان کے بھائی جب اپنی اپنی ملازمتوں سے چھٹیاں گزارنے گاؤں آتے تو اُس کمرے کے سامنے سے گزرنا ہوتا۔ ہمیشہ کہتے کہ ان کفش سازوں پر رشک آتا ہے کہ اپنے گاؤں ہی میں ہیں اور سب بھائی رات دن اکٹھے ہیں! مگر تعلیم حاصل کر کے گاؤں میں کوئی نہیں بیٹھتا۔ ان کفش سازوں کے خاندان کا ایک نوجوان‘ اسلم‘ فوج میں چھاتہ بردار تھا۔ جنگ میں وہ دشمن کے ملک میں اترا اور پھر کبھی واپس نہ آیا۔ ایک نہیں‘ کتنے ہی اسلم اس مٹی پر قربان ہوئے۔ اور پھر یہ جو بیلٹ ہے اٹک‘ فتح جنگ‘ پنڈی گھیب‘ تلہ گنگ اور چکوال کی‘ اسے تو انگریز سرکار نے انڈسٹری اور آبپاشی دونوں سے محروم رکھا تاکہ جنگوں کے لیے افرادی قوت یہاں سے ملتی رہے۔ ورنہ اگر جہلم‘ راوی‘ ستلج اور بیاس سے نہریں نکال کر نہروں کا جال بچھایا جا سکتا تھا تو سندھ سے نہریں نکال کر اس نام نہاد مارشل ایریا کو بھی سیراب کیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح صنعت سے بھی اس بیلٹ کو محروم رکھا گیا۔ وہ تو بھلا ہو دفاعی پیداوار کے محکموں کا کہ واہ‘ سنجوال‘ کامرہ اور حویلیاں میں سامانِ حرب بنانے کے کارخانے لگے اور مقامی لوگوں کو ملازمتیں ملیں۔ ان فیکٹریوں میں دنیا کا بہترین اسلحہ تیار ہوتا ہے اور اس کا سہرا مقامی آبادیوں کے سر بھی پڑتا ہے!
ایوب خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے اگر مارشل لا لگائے تو ان گناہوں کا قلاوہ پورے ادارے کے گلے میں کیسے ڈالا جا سکتا ہے! یہ ایک طویل بحث ہے اور کالم کا دامن تنگ ہے۔ سیاست دانوں کی بھاری اکثریت مارشل لاؤں کے راستے میں پلکیں نہ بچھاتی تو یہ مارشل لا دو ماہ بھی نہ چل سکتے۔ بہر طور جو کچھ بھی اسباب و علل ہوں‘ افراد کے اعمال کی ذمہ داری اداروں کے سر نہیں تھوپی جا سکتی! یہ بات کوئی نہ بھولے کہ یہ پاکستانی عساکر ہیں جو بھارت کی توسیع پسندی کے آگے بند باندھے ہوئے ہیں۔ ورنہ بھارت شرقِ اوسط تک بہت سی سرزمینیں ہڑپ کر چکا ہوتا۔ اس پورے خطے کو پاکستانی عساکر کا احسان مند ہونا چاہیے۔ آج نیپال‘ سکم‘ بھوٹان اور بنگلہ دیش بھارت کو جھک کر سلام کرتے ہیں اور ہر معاملے میں اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ذیلی ریاستیں بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتیں! پاکستان اگر بھارت کے اعصاب پر سوار ہے‘ اور بھارت کی خارجہ اور دیگر پالیسیاں اگر پاکستان کے گرد گھومتی ہیں تو یہ صورت حال پاکستانی عساکر کی وجہ سے ہے۔ بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد جو لب و لہجہ اختیار کیا تھا‘ اس سے ہماری اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان نے بھی دھماکے کیے اور بھارت نے دھمکیاں دینا بند کیں۔
اس لیے گزارش ہے کہ کسی کو ہیرو سمجھتے ہیں تو بے شک سمجھیے۔ انسان کو دیوتا بناتے ہیں تو شوق سے بنائیے۔ کسی کو تنقید سے اور جائزے سے ماورا سمجھتے ہیں تو اس پرستش کو جاری رکھیے۔ بے شک بت بنا کر گھروں میں رکھ لیجیے۔ مگر بازی بازی با ریش بابا ہم بازی والی بات نہ کیجیے۔ ہر شوق کی ایک حد ہوتی ہے۔ ہیرو ورشپ کی بھی حد ہونی چاہیے۔ اگر اتنی ذہنی صلاحیت نہیں ہے کہ سوال اٹھا سکیں‘ کار کردگی کا حساب لے سکیں‘ بد عنوانی‘ دوست نوازی اور منتقم مزاجی پر اعتراض کر سکیں تو کوئی بات نہیں! دنیا میں فین کلبوں کا ہمیشہ سے یہی رویہ رہا ہے۔ رومان اسی طرح کے ہوتے ہیں۔ ان کا حقیقت سے تعلق کم ہی ہوتا ہے۔ سو‘ جو چاہے‘ کیجیے‘ مگر اداروں کو اپنی ہیرو ورشپ میں نہ گھسیٹئے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved