احسن اقبال صاحب کا پاکستان‘ کیاکبھی منصہ شہود پر آ سکے گا؟
ماضی میں وہ دو بارکوشش کر چکے۔ ایک بار 1997-98ء میں جب ''وژن2020ء‘‘ سامنے آیا۔ دوسری بار جب 2013ء میں انہوں نے 'وژن2025ء‘ پیش کیا۔ پہلی دفعہ آغاز بڑا شاندار تھا مگر پھر پرویز مشرف صاحب تشریف لے آئے‘ اپنے وژن کے ساتھ۔ 2013ء کے وژن کو سونامی نگل گیا۔ احسن صاحب مگر ہمت نہیں ہار رہے۔ اب چاہتے ہیں کہ گیارہ ماہ میں پاکستان کو ایک نئے راستے پر ڈال دیا جائے جس پر امید کے چراغ روشن ہوں۔ اس خواب کی تعبیر ڈھونڈنے کے لیے انہوں نے پاکستان اور دنیا بھرکے اہلِ علم اور اہلِ دل کو جمع کیا جو پاکستان کو خوش حال اور توانا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس اجتماع کو انہوں نے 'بدلو پاکستان‘ (Turnaround Pakistan) کاعنوان دیا۔
اس اجتماع میں مختلف موضوعات پر کئی گروپ تشکیل دیے گئے جنہوں نے صحت اور تعلیم سمیت اُن اہم شعبوں کے لیے سفارشات مرتب کیں جن کا تعین اس کانفرنس کی میزبان وزارت برائے منصوبہ بندی و ترقی نے کیا تھا۔ کالم میں کانفرنس کی رپورٹنگ مقصود نہیں۔ میرے مشاہدے میں جو دو اہم باتیں آئیں‘ ان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور پھر اپنے ایک خدشے کا۔
پاکستان کا ایک المیہ یہ ہے کہ یہاں پالیسیوں کا تسلسل نہیں۔ حکومت بدلتی ہے تو نئے آنے والے پھر سے پہیہ ایجاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس عدم تسلسل کے دو بڑے اسباب ہیں: کمزور ریاستی ادارے اور عوام کی لاتعلقی۔ ادارے اگر پہلے سے موجود منصوبوں پر پہرا دیں اور نئی حکومت کی غیر ضروری مداخلت کی مزاحمت کریں تو تسلسل کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ عوامی سطح پر ان پالیسیوں کی نگرانی ہو تاکہ محض سیاسی مخالفت کی بنا پر ان کو تبدیل نہ کیا جا سکے۔ عوامی نمائندگی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں یا سول سوسائٹی۔
سیاسی جماعتیں اقتدار کی سیاست کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس تسلسل کو متاثر کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں‘ اس لیے یہ سول سوسائٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ نگران کا کردار ادا کرے اور اس تسلسل کو یقینی بنائے۔ اس کے لیے احسن صاحب نے کانفرنس میں ایک 'چیمپئنز آف ریفارمز‘ کا تصور دیا۔ اس سے مراد اہلِ دا نش و اہلِ علم کا وہ گروہ ہے جو پائیدار سماجی تبدیلی کے اس عمل میں نہ صرف شریک ہے بلکہ اس کا پاسبان بھی ہے۔ احسن صاحب کا کہنا تھا کہ جو سیاسی جماعت برسرِ اقتدار آئے‘ وہ اس پالیسی کو جاری رکھے جو مشاورت کے ساتھ‘ ایک بار اختیار کر لی گئی ہو۔
یہ اہم بات ہے لیکن اس میں ایک عملی مشکل ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب اختیار کی جانی والی پالیسی کو اکثریت کا اعتماد حاصل ہو۔ یہ تب ہوگا جب ایسی پالیسی پارلیمنٹ کی منظوری سے اپنائی جائے اور اس میں اپوزیشن بھی شریکِ مشاورت ہو۔ مثال کے طور پر 2013-14ء میں ہم نے دیکھا کہ انتخابی اصلاحات پر پارلیمان کی تمام جماعتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنی تھی۔ اس کمیٹی نے کم و بیش اسی فیصد امور پر اتفاق کر لیا تھا۔ صدر عارف علوی صاحب بھی اس کا حصہ تھے۔ پھر یہ عمل کیسے سبوتاژ ہوا‘ اس کو دہرانے کی یہاں ضرورت نہیں۔ اس لیے اس بات کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ 'وژن 2025ء‘ جیسے منصوبوں کو زیادہ سے زیادہ عوامی تائید حاصل ہو۔
میرا ایک اور اہم مشاہدہ اس کانفرنس کی سنجیدگی تھی۔ اس میں سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو جیسے القابات سے نوازا گیا نہ ان پر غیر ضروری تنقید کی گئی۔ احسن اقبال صاحب کی تقریر میں توکسی منفی بات یا سیاسی مخالف کا ذکر تک نہیں تھا۔ شہباز شریف صاحب نے بھی ممکن حد تک تنقید سے گریز کیا اور خود کو سیاسی اختلافات سے بلند رکھنے کی پوری کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومتوں پر الزام دھرنے کے بجائے‘ ہمیں مل کر آگے کی طرف دیکھنا ہو گا۔ اس کے لیے قومی وحدت ناگزیر ہے۔ قوم کو اجتماعی مفاد میں یک جا ہونا چاہیے۔ سیاسی اختلافات کو اس وحدت کے راستے میں مزاحم نہیں ہو نا چاہیے۔ مجھے خوشی ہوئی کہ شہباز شریف صاحب نے اپنے منصب کے تقاضوں کو سمجھا اور اس بات کا عملی مظاہرہ کیا کہ وزیراعظم پاکستان پوری قوم کی نمائندگی کرتا ہے‘ کسی ایک جماعت کی نہیں اور قوم اس سے سنجیدہ گفتگو کی توقع رکھتی ہے۔
مجھے شہباز شریف صاحب کی ایک ا ور بات بھی اچھی لگی۔ انہوں نے تقریر کے آغاز میں سب سے پہلے اساتذہ اور وائس چانسلرز کو مخاطب کیا۔ اس کے بعد وزرا اور دوسرے طبقات کو۔ وزیراعظم کی طرف سے یہ ترتیب اس بات کا اظہار ہے کہ معاشرے کا کون سا طبقہ سب سے زیادہ تکریم اور احترام کا مستحق ہے۔ میرے علم میں نہیں کہ اس سے پہلے کسی وزیراعظم نے اس بات کا شعوری طور پر لحاظ رکھا ہو۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہ روایت بن جائے اور مراعات طے کرتے وقت بھی اساتذہ کو فوقیت دی جائے۔ سماج کو علم دوست بنانے کے لیے لازم ہے کہ اس میں اہلِ علم اور اساتذہ کو محترم سمجھا جائے اور وہ بھی اپنی عزتِ نفس کے معاملے میں حساس ہوں۔
کانفرنس میںگیارہ بارہ ماہ کے اہداف سامنے رکھے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس مختصر وقت میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی لانا ممکن ہو گی؟ میرا خدشہ اسی سے متعلق ہے۔ عوام کو درپیش مسائل فوری حل کے متقاضی ہیں اور حکومت کے پاس جادو کی کوئی چھڑی نہیں جو انہیں حل کر سکے۔ مہنگائی روز افزوں ہے۔ عام آدمی کو یہ مہنگائی دن میں کئی بار اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ جب ٹینڈے بھی دو سو روپے کلو بک رہے ہوں تو وہ کیا کھائے گا؟ بجلی کے بل تو اسے ہر ماہ دینے ہیں۔ اس کی آمدن میں اضافے کا کوئی امکان نہیں اور اخراجات میں اضافہ روزانہ کی بنیاد پر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کو دلاسہ کیسے ملے گا؟
اس سوال کا کوئی جواب حکومت کے پاس نہیں۔ یہ واضح ہے کہ آج جس کی حکومت ہوتی‘ عوام کا حال یہی ہو نا تھا۔ عام آدمی لیکن اسی کو ذمہ دار ٹھہرائے گا جو مسندِ اقتدار پر بیٹھا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت عام آدمی کو کیسے یہ سمجھا پائے گی کہ اس کی غم کی شام ڈھلنے والی ہے؟ حکومت امید کے چراغ کو کیسے روشن رکھے گی؟ پھر یہ کہ سحر ہونے تک‘ عام آدمی چراغِ حیات کو کیسے روشن رکھے گا؟
مجھے تو اس کی کوئی صورت‘ اس کے علاوہ دکھائی نہیں دیتی کہ سماج کے اجتماعی شعور کو آواز دی جائے۔ حکومت فوری طور پر 'الخدمت‘ اور 'اخوت‘ جیسے اداروں کا ایک کنسورشیم بنائے جو نادرا اور یوٹیلیٹی سٹورزکارپوریشن کی معاونت سے ایک نظام وضع کرے جس کے تحت کم آمدن والوں کو بنیادی ضرویاتِ زندگی کم قیمت پر دستیاب ہوں۔ اس کی نوعیت ایک متوازی کے بجائے‘ ایک معاون سسٹم کی ہو۔ احسن اقبال صاحب اگر اپنی وزارت کو یہ ذمہ داری سونپ دیں کہ وہ اسے 'بدلوپاکستان‘ کا حصہ بنادیں تو یہ نظام جہاں عوامی سطح پر اس پروگرام کو اعتماد دلائے گا جو گیارہ بارہ مہینے کے بعد ثمر بار ہونا ہے‘ وہاں عوام میں یہ امید بھی پیدا کرے گا کہ ان کے مسائل کا فوری حل ممکن ہے۔
اس پروگرام کی نگرانی اور اس میں حسبِ ضرورت تبدیلی کے لیے 'چیمپئنز آف ریفارمز‘ کا ایک گروپ بنا دیا جائے جو ایسے اہلِ دانش پر مشتمل ہو جو سماجی حرکیات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ اس کے لیے میڈیا کی معاونت بھی ضروری ہے۔ امید کا چراغ اگر آج روشن نہ ہوا تو مجھے خدشہ ہے کہ کل تک بہت دیر ہو جائے گی۔ تاخیر سے اچھے خواب بھی تعبیر سے محروم ہو جاتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved