ہمارے ریڈیو کے ایک پرانے ساتھی مشتاق صدیقی صاحب نے فیس بک پر استفسار کیا کہ ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کون تھے؟ میں نے 1968ء میں ریڈیو پاکستان کراچی میں بطور پروڈیوسر شمولیت اختیار کی تھی اور اُس دور میں وہاں موجود سینئر لوگوں سے رشید احمد مرحوم اور احمد سلمان مرحوم کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہ دونوں زیڈ اے بخاری (ڈائریکٹر جنرل) کے ہمراہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل رہے تھے؛بخاری صاحب کے بعد چونکہ رشید احمد ڈی جی بنے اس لیے میرا خیال تھا کہ وہ پہلے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل رہے ہوں گے؛ تاہم مشتاق صدیقی نے کہیں سے شوکت تھانوی مرحوم کا ایک مضمون پوسٹ کر دیا جو اُس دور یعنی قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے اور فوری بعد کے زمانے کے دلچسپ احوال سے پُر ہے۔ اُس مضمون سے واضح اشارہ ملا کہ احمد سلمان ہی پہلے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل تھے۔ احمد سلمان مرحوم کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ وہ آل انڈیا ریڈیو میں جُگل کشور مہرا کے نام سے ملازم تھے اور تقسیم کے وقت لاہور ریڈیو کے سٹیشن ڈائریکٹر بن گئے تھے۔ احمد شاہ بخاری پطرس اور ذوالفقار علی بخاری کی دوستی، لاہور اور اردو زبان سے اُن کی محبت نے اُن کو مجبور کر دیا کہ وہ پاکستان ہی میں رہیں۔ پطرس اُس وقت آل انڈیا ریڈیو سے فارغ ہو کر گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل تھے اور اُن کے بھائی زیڈ اے بخاری ریڈیو پاکستان کے ڈی جی بن گئے تھے۔ پطری بخاری کے گھر میں جو محفلیں ہوتی تھیں اُن کے بارے میں شوکت تھانوی رقمطراز ہیں:
''اے ایس بی (احمد شاہ بخاری) ڈائریکٹر جنرل آل انڈیا ریڈیو کے عہدے سے اپنے آپ کو سبکدوش کرا کے گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کی حیثیت سے دہلی سے لاہور آ چکے تھے۔ اور اب اُن کے بنگلے پر شام کی نشستیں ہوا کرتی تھیں جن میں ڈاکٹر تاثیر، مولانا سالک، صوفی تبسم حصہ اپنے جثہ کے، جُگل کشور مہرا‘ جو مشرف بہ پاکستان ہونے کے بعد مشرف بہ اسلام ہونے کے ارادے کر رہے تھے، سید رشید احمد، مولانا چراغ حسن حسرت، اور امتیاز علی تاج کے اجتماع رہتے تھے۔ جو نہیں آتا تھا اُس کو بخاری صاحب خود جا کر پکڑ لاتے تھے۔ جو آ جاتے تھے ان کو رات گئے بلکہ اُن کو صبح ہونے سے قبل اپنی کار پر گھر چھوڑنے جاتے تھے اور یہ نصیحت کرتے جاتے تھے کہ رات کو خواہ کہیں رہو مگر صبح اپنے بستر ہی سے اٹھو‘‘۔
یہ اقتباس شوکت تھانوی مرحوم کے مضمون سے ہے جس سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے تھے کہ یہ سب لوگ‘ جو اپنی اپنی جگہ ایک انجمن تھے‘ جب اکٹھے ہوتے ہوں گے کیا لطف ہوتا ہوگا۔
شوکت تھانوی نے اپنے اس مضمون میں جگل کشور مہرا کے مسلمان ہونے اور پھر اُن کی شادی کا جو احوال بیان کیا ہے وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
''ریڈیو پاکستان لاہور کے سٹیشن ڈائریکٹر جگل کشور مہرا پاکستان کے زندہ باد ہونے کے بعد خود عجیب مردہ باد بن کر رہ گئے تھے کہ بخاری، اردو اور لاہور کی محبت میں رہ تو پڑے پاکستان میں مگر نجانے کیوں اُن کو اپنا جگل کشور مہرا ہونا پاکستان میں کچھ پیوند سا نظر آ رہا تھا۔ بڑے اور چھوٹے ہر قسم کے بخاری نے انہیں سمجھایا، دوسرے دوستوں نے بھی اس جلد بازی سے روکا مگر ہوا یہی کہ ایک دن چند مخصوص احباب کی موجودگی میں بخاری صاحب نے گورنمنٹ کالج والے بنگلہ میں وہ مولانا غلام مرشد کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہو کر کلمہ شہادت پڑھتے اور مولانا غلام مرشد سے اس کا تفصیلی بلکہ تفصیلی سے بھی کچھ زیادہ ترجمہ سمجھتے نظر آئے اور عین اسی وقت جب وہ جگل کشور سے یکایک احمد سلمان بن چکے تھے‘ اسی جگہ اُن کی ترقی کے احکام موصول ہوئے اور وہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان مقرر کر دیے گئے۔ اس کے بعد دوسرا شرعی اجتماع خود احمد سلمان کی کوٹھی پر اس وقت ہوا جب اُن کے نکاح کا مرحلہ درپیش تھا اور محمود نظامی کے ذمہ تھا قاضی کو بلانا جو تھوڑی دیر کے بعد ایک چھوارا نژاد قاضی کو نجانے کہاں سے پکڑ لائے۔ بخاری نے اُن کو غور سے دیکھا اور میرے کان میں کہا : ''نکاح کے لیے قاضی اور چھوارے‘ دو چیزیں ضروری ہوتی ہیں‘ نظامی ان دونوں چیزوں کو ملا کر لے آیا ہے‘‘۔ اس تقریب میں زیڈ اے بخاری دُلہا کے ولی بنے اورمیں دلہن کا ولی۔ ہم دونوں مہر کے تعین پر تھوڑا بہت لڑ جھگڑ کر آخر تصفیہ تک پہنچ گئے۔ بخاری صاحب صرف تماشائی بنے بیٹھے رہے۔ دوسرے گواہ محمود نظامی تھے۔ جب دلہن سے پوچھ کر ہم لوگ قاضی صاحب کے پاس آ گئے تو کچھ نہ پوچھئے کہ اُن کو محض یہ سمجھانے میں کتنے لوہے لگے ہیں کہ دلہن کا نام سلمیٰ نہیں بلکہ انور ہے اور دُلہا کا نام انور نہیں بلکہ سلمان ہے۔ اس کے بعد بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ قاضی صاحب نے ان دونوں میں سے کس کو دُلہا اور کس کو دلہن سمجھ کر نکاح پڑھایا۔ بہرحال یہ طے ہے کہ نکاح انہی دونوں کا ہوا تھا‘ اور غالباً یہ بات انہی دونوں پر چھوڑ دی گئی تھی کہ اپنا دُلہا دلہن ہونا خود آپس میں طے کرتے رہیں۔البتہ جو خطبہ بعد میں پڑھا گیا اس کے متعلق بخاری صاحب کا بیان یہ تھا کہ یہ خطبہ نکاح کا نہیں بلکہ جمعہ کا تھا‘‘۔
شوکت تھانوی مرحوم نے کیا نقشہ کھینچا ہے اس ماحول کا۔ یہ سب واقعات لاہور کے ہیں۔ اس کے بعد ریڈیو پاکستان کا ہیڈ کوارٹر کراچی منتقل ہو گیا تھا اور یہ سب لوگ کراچی چلے گئے تھے۔ احمد شاہ بخاری پطرس اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے امریکا چلے گئے تھے جہاں سے پھر وہ کبھی واپس نہ آئے۔ شوکت تھانوی کے مضمون کے اقتباس میں جو بخاری صاحب نے کہا کہ ''خطبہ نکاح کا نہیں جمعہ کا تھا‘‘ اُس نے مجھے زیڈ اے بخاری مرحوم کا ایک واقعہ یاد کرا دیا جس کے راوی ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل سلیم گیلانی ہیں۔ بخاری صاحب کا کہنا تھا کہ پشاور میں بچپن میں جب وہ سکول میں پڑھتے تھے تو سکول جاتے ہوئے راستے میں ایک چائے بسکٹ کا سٹال تھا جس کے مالک ایک مولوی صاحب تھے جو مقامی مسجد میں جمعے کا خطبہ بھی دیتے تھے۔ بخاری صاحب کا بیان ہے کہ خطبے کے اگلے دن جب وہ سکول جا رہے ہوتے تھے تو مولوی صاحب اُن کو آواز دے کر بلا لیتے اور پہلے پوچھتے ''جمعہ تے پڑھیا ہو سی‘‘ (تم نے جمعہ کی نماز تو پڑھی ہو گی) پھر ایک بسکٹ ہاتھ میں تھما کر پوچھتے ''خطبہ وی سُنیا ہو سی‘‘ (خطبہ بھی سنا ہوگا)۔ بخاری صاحب کا کہنا تھا کہ میں سکول کا طالبعلم تھا‘ ہاں میں جواب دیتا جاتا۔ پھر آخر میں وہ ایک بسکٹ اور تھما کر پوچھتے ''خطبہ عالمانہ سی؟‘‘ (کیا جمعے کا خطبہ عالمانہ تھا) اس کے بعد بقول گیلانی صاحب‘ بخاری صاحب مخصوص انداز میں مسکرا کر کہتے تھے کہ اتنی چھوٹی عمر میں بھی ہم پر کیسی کیسی ذمہ داریاں رہی ہیں کہ جمعے کے خطبے کے بارے میں بھی بتائیں کہ وہ عالمانہ تھا یا نہیں۔
شوکت تھانوی مرحوم کا مضمون پڑھ کر ریڈیو کی بہت سی یادیں ذہن میں ابھررہی ہیں مگر ظاہر ہے کالم میں الفاظ محدود ہوتے ہیں‘ لہٰذا ایک واقعہ سنا کر ختم کرتا ہوں کہ معلوم ہو کہ یہ لوگ کتنے پکے اور ایماندار تھے۔ رشید احمد جب ڈائریکٹر جنرل تھے تو مرکزی حکومت کی طرف سے حکم ملا کہ ریڈیو پاکستان اپنی ایک کمرشل سروس جاری کرے جس سے ریونیو کمایا جا سکے۔ رشید احمد مرحوم نے بہت مدلل انداز میں جواب لکھا کہ سرکاری شعبے میں ریڈیو کبھی بھی کمرشل طور پر کامیاب نہیں ہو سکتا اور ویسے بھی اس ادارے کی بطور ایک قومی ادارہ شہرت ہے۔ کمرشل سروس اس پر ایک دھبہ ہو گی مگر اُن کی بات نہیں مانی گئی۔ حکم ہوا کہ شروع کرو! رشید صاحب نے ریڈیو کے ایک ہونہار افسر شمس الدین بٹ کو ڈائریکٹر کمرشل سروس تعینات کیا اور اُن کو اپنے کمرے میں بلوایا۔ متعلقہ فائل اُن کو دیتے ہوئے کہا: بٹ صاحب اس فائل سے آپ کو معلوم ہوگا کہ میں اس کمرشل سروس کے حق میں نہیں تھا مگر آپ نے اس کا کوئی اثر نہیں لینا‘ چونکہ فیصلہ ہو چکا ہے اس لیے مکمل دیانتداری کے ساتھ کمرشل سروس چلانی ہے اور اس کو کامیاب بنانا ہے۔ آج کل ایسے افسر ناپید ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved