پاکستان اس وقت مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے۔ موجودہ صورتحال یقینا چند دنوں کی پیداوار نہیں ہے۔ممکنہ طور پر کئی سالوں کے مستقل غلط فیصلوں نے ملک کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں اقتدار کے ایوانوں سے لے کر عوامی حلقوں تک‘ ملک کی ترقی پر بات ہونے کے بجائے یہ موضوع زیر بحث دکھائی دیتا ہے کہ کیا پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچ جائے گا؟ جبکہ ہمسایہ ممالک‘ بنگلہ دیش، بھارت، چین اور ایران تیزی سے ترقی کی منازل طے کرنے والے ممالک کی دوڑ میں شامل نظر آتے ہیں۔ ترقی کرنے والے ممالک اکثر معاملات میں ایک جیسی اپروچ کا استعمال کرتے ہیں۔ سیاسی استحکام اور لانگ ٹرم مستقل پالیسیوں پر عمل درآمد ان کا خاصہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں شاید دیگر مسائل کے ساتھ سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کا تیزی سے تبدیل ہونا بھی ایک سنجیدہ ایشو بن کر سامنے آ رہا ہے۔ عوامی حلقوں میں یہ رائے تقویت اختیار کرتی دکھائی دے رہی تھی کہ موجودہ حکومت ماضی کی کمزور اپروچ کو نہیں اپنائے گی اور مثبت فیصلوں کے ساتھ ملکی معیشت کو چلانے کی کوشش کی جائے گی لیکن اسحاق ڈار صاحب کے وطن واپسی کے اعلان کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ وزارتِ خزانہ کے حوالے سے پالیسیاں ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو سکتی ہیں۔ ڈار صاحب کئی انٹرویوز میں مفتاح اسماعیل صاحب کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ اب اطلاعات ہیں کہ وہ اگلے چند ہفتوں میں وطن واپس آ کر وزارتِ خزانہ کا چارج سنبھال سکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ نئی حکومت کو تقریباً اڑھائی ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے‘ بظاہر مشکل فیصلے مفتاح اسماعیل لے چکے ہیں اور چند مزید فیصلے وہ تیس جون سے پہلے لے سکتے ہیں۔ مفتاح صاحب کی کوششوں سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ تکمیل کے بیشتر مراحل طے کر چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانس پالیسی بھی پاکستان کو موصول ہو چکا ہے جس میں ساتویں اور آٹھویں ریویو کے لیے شرائط واضح کر دی گئی ہیں جن پر اگلے چند دن میں عمل درآمد ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ مشکل وقت گزرنے والا ہے۔ اس کے بعد مختلف ممالک سے تقریباً بائیس ارب ڈالرز پاکستان کو مل سکتے ہیں۔ایسے موقع پر اسحاق ڈار صاحب کا وزارتِ خزانہ کی سیٹ سنبھالنا پکی پکائی دیگ پر بیٹھنے کے مترادف ہے۔ یاد رہے کہ مفتاح اسماعیل صاحب آئینی طور پر چھ ماہ کے لیے وزیر خزانہ رہ سکتے ہیں اس کے بعد وزارت کا قلمدان سنبھالے رہنے کے لیے ان کا قومی اسمبلی یا سینیٹ کا رکن منتخب ہونا ضروری ہے۔ لگ بھگ نصف وقت گزر چکا ہے اور نصف باقی ہے۔ آنے والے دن کیا رخ اختیار کرتے ہیں‘ ڈار صاحب واپس آتے ہیں یا نہیں اور مستقبل کی اکنامک پالیسیاں مستقل رہتی ہیں یا نہیں‘ اس بارے میں حقائق چند دن میں سامنے آ جائیں گے۔ فی الحال عوام میں وزیراعظم کے ایک بیان کو لے کر کافی اضطراب پایا جاتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے نے فرمایا ہے کہ جولائی کے مہینے میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ زیادہ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چیئرمین نیپرا کا کہنا ہے کہ یا تو مہنگی پٹرولیم مصنوعات سے بجلی پیدا کی جائے‘ اگر ایسا ممکن نہیں تو عوام لوڈ شیڈنگ کے لیے تیار رہیں۔ 7 روپے 90 پیسے فی یونٹ اضافے کے باوجود بھی بدترین لوڈ شیڈنگ کا سامنا ہے۔ مبینہ طور پر مسئلہ کپیسٹی کا نہیں ہے بلکہ تیل کی درآمدات کم کرنا مقصود ہے تا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی نہ ہو۔ لیکن اب عوامی سطح پر تشویش بڑھنے لگی ہے کہ ایسا کب تک چلے گا۔ لوڈشیڈنگ سے تنگ آئے عوام کی جانب سے کراچی میں ہونے والے احتجاج میں کئی جانوں کے زیاں کی اطلاعات ہیں۔ تقریباً چوبیس گھنٹے ماری پور کے علاقے میں سڑکیں بند رہیں۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں شدید عوامی رد عمل سامنے آ سکتا ہے۔ خصوصی طور پر جولائی کا مہینہ سرکار اور عوام‘ دونوں کے لیے آزمائش بن سکتا ہے کیونکہ ایک طرف بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور دوسری طرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی مزید اضافے کی اطلاعات ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ملنے والے میمورینڈم آف اکنامک اینڈ فنانس پالیسی کے مطابق پٹرولیم لیوی اور سیلز ٹیکس میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور تیس جون کو پٹرولیم لیوی میں مرحلہ وار اضافے کی شروعات ہو سکتی ہے۔ ہر ماہ پانچ روپے اضافہ کر کے حکومت کو اسے پچاس روپے تک لے جانا ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً 11 فیصد سیلز ٹیکس بھی لگایا جا سکتا ہے جس سے پٹرولیم کی قیمتیں جلد ہی تقریبا تین سو روپے فی لٹر تک پہنچنے کے خدشات ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ مستقبل قریب میں عوام کے لیے مثبت خبریں آنا مشکل ہے۔ آئی ایم ایف ڈیل فائنل ہونے کے بعد بھی مہنگائی میں کمی کی توقع کرنا بے سود ہے۔ ملک تو ڈیفالٹ ہونے سے بچ جائے گا لیکن عوام کے ڈیفالٹ ہونے کے خدشات بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کے موجودہ معاشی ماڈل کے مطابق پاکستان نے ملک چلانے کے تمام اخراجات نہ صرف ٹیکس آمدن سے پورے کرنا ہیں بلکہ 152 ارب روپے کا منافع بھی ظاہر کرنا ہے کیونکہ پچھلے چار سال سے پاکستان بڑا بجٹ خسارہ ظاہر کر رہا ہے۔ بجٹ سرپلس ظاہر نہ کرنے کی صورت میں آئی ایم ایف سے معاہدہ منسوخ ہو سکتا ہے اور پاکستان عالمی تنہائی کا شکار ہو سکتا ہے۔ اہداف حاصل کرنے کے لیے Poverty Tax بھی عائد کر دیا گیا ہے۔ 150 ملین کمانے والی کمپنی پر 1 فیصد، 200 ملین پر دو فیصد، 250 ملین پر 3 فیصد اور 300 ملین اور اس سے زیادہ پر 4 فیصد اضافی ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ امید کی جا رہی ہے کہ سرکار یہ ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن ٹیکسوں کے اہداف حاصل کرنے کے حوالے سے گزشتہ حکومت کی سٹریٹیجی زیادہ کامیاب دکھائی دیتی ہے۔ آئی ایم ایف کے تقریباً 5 کھرب 80 ارب روپے کے ٹیکس اہداف سے زیادہ ٹیکس وصولی کی جا چکی ہے جبکہ مالی سال مکمل ہونے میں ابھی ایک ماہ باقی ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے پٹرولیم لیوی اور پٹرولیم سیلز ٹیکس کی مد میں عوم پر بوجھ نہیں ڈالا تھا۔ اس دور میں لوڈ شیڈنگ بہت کم تھی جبکہ شرحِ نمو تقریباً چھ فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ عوام ٹیکس دے رہے تھے اور کاروبار بھی چلتے دکھائی دے رہے تھے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ٹیکنالوجی کی برآمدات مئی کے مہینے میں اپریل کی نسبت 27 فیصد گر گئی ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسڑی کی جانب سے تقریباً پچاس ہزار سے زیادہ ملازمین کو فارغ کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ٹیکسٹائل والے سرمایہ بنگلہ دیش منتقل کرنے کی دوڑ میں سبقت لے جانے میں مصروف ہیں۔ ریئل اسٹیٹ کا کاروبار بھی سست روی کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ گاڑیوں کی درآمدات پر پابندی کے باعث آٹو انڈسٹری بھی متاثر ہو رہی ہے۔ سرکار نے تقریباً 800 اشیا کی درآمدات پر دو ماہ کے لیے پابندی لگائی تھی۔ 19 جولائی کو دو ماہ مکمل ہونے پر فیصلے پر نظر ثانی کی جائے گی۔ ممکنہ طور پر بہت سی چیزوں کی درآمدات پر سے پابندی اٹھائی جا سکتی ہے کیونکہ اطلاعات یہ ہیں کہ پابندی کے فیصلے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔
موجودہ صورتحال میں جہاں دیگر سخت معاشی فیصلے لیے جا رہے ہیں وہاں نقصان میں چلنے والی کارپوریشنز کو پرائیویٹائز کر کے دو طرفہ فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایک طرف ملکی خزانے میں اربوں ڈالرز فوری شامل ہو جائیں گے اور دوسری طرف سالانہ نقصانات کا بوجھ بھی بجٹ پر نہیں پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے کچھ اداروں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ وزارتِ خزانہ نے پرائیویٹائزیشن کمیشن کی ذمہ داری لگائی ہے کہ ان آفرز کو جلد حتمی شکل دی جائے۔ گو کہ بجٹ میں ایسا منصوبہ پیش نہیں کیا گیا لیکن اب اس پر پیش رفت کی اطلاعات ہیں۔ زیادہ شور نہ مچانے کی مبینہ وجہ اپوزیشن کا ردعمل ہو سکتی ہے۔ تحریک انصاف کو بھی اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مخالفت برائے مخالفت کے بجائے جو فیصلہ ملکی مفاد میں ہواس کی راہ میں روڑے اٹکانے سے گریز کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved