تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     01-07-2022

بھرم کا دھڑن تختہ

سیاسی غیریقینی جاری ہے۔ عمران خان کوشش کررہے ہیں کہ وہ ہر صورت میں نئے الیکشن کروائیں لیکن ابھی تک بات بن نہیں پارہی جبکہ شہباز شریف‘ جنہیں بڑے اہتمام سے لایا گیا تھا‘ سے حکومت چل نہیں رہی۔ ان کی ٹیم اہم لوگوں کو متاثر کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ اس حکومت کو ہنی مون پیریڈ منانے کا موقع بھی نہیں ملا۔ ویسے بھی سیانے کہتے ہیں کہ ہنی مون اور ولیمہ ہمیشہ ''پہلی شادی‘‘ پر ہی اچھے لگتے ہیں‘ اس لیے اس پارلیمنٹ کے دوسرے وزیراعظم الیکٹ ہونے پر مٹھائی نہیں بانٹی گئی کیونکہ پہلے ایک وزیراعظم رخصت ہو چکے تھے۔ نیا وزیراعظم بہت مشکل حالات میں حلف لے رہا تھا۔ پہلے دن سے ہی نئے وزیراعظم پر بوجھ تھا۔
مگر شہباز شریف نے جو وقت ضائع کیا اس سے بھی ان کی حکومت پائوں نہ جما سکی۔ دو تین ہفتوں تک تو وہ اپنا ایک وزیر بھی نہ لگا سکے جس سے یہ تاثر ابھرا کہ ان کے پاس کوئی پلان نہیں۔ اتحادیوں کے درمیان جوتوں میں دال بٹ رہی تھی‘ سب انقلابی وزارتوں پر لڑ رہے تھے۔ خود شہباز شریف پر سنگین مقدمے تھے اور یہ خبریں بھی آنے لگیں کہ شاید نواز شریف کہہ رہے ہیں ملک میں نئے الیکشن کرا دیں‘ مریم نواز بھی اس حق میں تھیں اور انہوں نے ایک جلسے میں کہا کہ ہم کیوں عمران خان کی غلطیوں کا ٹوکرا اٹھائیں‘ بہتر ہے عوام کے پاس جایا جائے؛ تاہم اس دوران لندن سے اسحاق ڈار نے‘ جو مفتاح اسماعیل سے خوش نہ تھے‘ ایسا بیان جاری کیا جس سے وہ ناراض ہوگئے۔ نواز شریف اور ڈار صاحب اکتوبر میں الیکشن کرانے کے حامی تھے اور ڈار صاحب نے اس کا اظہار بھی کیا۔ اب سب کو پتا ہے کہ لندن میں ڈار صاحب ہر وقت نواز شریف کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کا کہا نواز شریف کا کہا مانا جاتا ہے۔ اس دوران شہباز شریف کو اپنی کابینہ سمیت لندن بلایا گیا۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ جہاں عمران خان کا بیانیہ پاپولر ہوا‘ وہیں شہباز شریف مزید کمزور ہوئے اور معاشی صورت حال ان کے ہاتھ سے نکلتی گئی۔
اگرچہ یہ مانا جاتا ہے کہ مفتاح اسماعیل شاہد خاقان عباسی کے قریب ہیں اور شہباز شریف بھی انہیں پسند کرتے ہیں‘ بلکہ کہنے والے تو کہتے ہیں شاہد خاقان کی سفارش پر ہی مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ لگایا گیا تھا‘ لیکن ان سے اسحاق ڈار خوش نہیں تھے اور ان کے گاہے گاہے بیانات‘ جو وہ میڈیا یا سوشل میڈیا پر جاری کررہے تھے‘ سے شہباز شریف‘ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح کیمپ ناخوش تھا‘ لیکن ڈار صاحب جو لندن کیمپ کو لیڈ کررہے ہیں‘ کا کہنا ہے کہ شہباز شریف سے حکومت نہیں چل رہی۔ انہیں احساس نہیں کہ وہ کس صورتحال میں پھنس چکے ہیں۔ مریم کیمپ اور شہباز شریف کیمپ میں جو اختلافات ابھرے وہ روز بروز گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ مریم نواز کیمپ جو لندن کیمپ کے زیادہ قریب ہے‘ اس فیصلے سے متفق نہیں کہ حکومت کو اگلے سال تک چلایا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں سب کیے کرائے پر پانی پھر گیا ہے‘ برسوں کی محنت چند ماہ کی حکومت کیلئے غارت ہوگئی ہے۔ حکومت لینی تھی تو پانچ سال کیلئے لیتے۔ یہ کیا بچا کچھا کھانے پہنچ گئے اور الٹا عمران خان کی پالیسوں کا نقصان اور ملبہ ہم پرآن پڑا اور سارا فائدہ عمران خان کو ہوا۔ اس لیے آپ دیکھ لیں کہ مریم نواز کیمپ کے بڑے قریبی لوگ شہباز حکومت میں کہیں نظر نہیں آ رہے۔ نہ وہ وزیر بنے نہ مشیر۔ یا تو مریم نواز نے انہیں منع کیا ہے یا وہ خود شہباز شریف کے ساتھ کام کرنے میں کمفرٹ ایبل محسوس نہیں کرتے‘ لہٰذا گھر بیٹھنے کو ترجیح دی۔
اب لگتا ہے لندن کیمپ کی بس ہوگئی ہے اور انہیں محسوس ہورہا ہے کہ شہباز شریف اسی ٹیم کے ساتھ ایسے ہی چلتے رہے جیسے ان کا مزاج ہے تو پوری پارٹی کا بیڑا غرق ہوگا۔ لندن کیمپ کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شہباز شریف دراصل بیورو کریسی کے ساتھ زیادہ چلتے ہیں‘ وہ سیاسی جماعتوں یا لیڈروں کو وہ اہمیت اور وقت نہیں دے پا رہے جس سے اتحادیوں کو شکاتیں پیدا ہورہی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لاہور نہیں‘ اسلام آباد ہے جہاں ہزاروں ایشوز ہیں۔ لندن کیمپ کے خیال میں اب ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ تجربے کرتے رہیں۔ اس لیے اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسحاق ڈار کو پاکستان واپس لایا جائے اور وہ حکومت کو کوئی سمت دیں۔ ڈار صاحب کو نواز شریف دور سے عادت ہے کہ وہ ساری حکومت چلا رہے تھے۔ نواز شریف ڈار صاحب کو اپنی حکومت دے کر خود دنیا کی سیر کو نکل گئے۔ اس دوران ساری حکومت اسحاق ڈار ہی چلا رہے تھے۔ وزیراعظم ہاؤس سے لے کر وزراتوں تک کے فیصلے‘ پارلیمنٹ کے ایشوز اور کون سا بیورو کریٹ کہاں تعینات ہوگا‘ یہ سب ٹرانسفر پوسٹنگ ڈار صاحب ہی کررہے تھے بلکہ وہ درجنوں کمیٹیوں کے سربراہ بھی تھے اور داتا دربار اور بری امام سرکار کے لنگر کی کمیٹیاں بھی ملک کے وزیرخزانہ کی نگرانی میں چل رہی تھیں۔ ڈار صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ سب پاورز اپنے ہاتھ میں لے کر کام کرتے ہیں۔ اب وہ لندن میں نواز شریف کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ پاکستان مفتاح اسماعیل سے نہیں چل رہا‘ لہٰذا انہیں واپس پاکستان بھیجا جائے۔
اب ایک اور مسئلہ ہے۔ اسحاق ڈار کا جو ایشو شاہد خاقان عباسی کے ساتھ ہے یا مفتاح اسماعیل کے ساتھ‘ وہ تو شاید حل ہو جائے لیکن اس ایشو کا کیا کریں گے جو بیس‘ بائیس سال سے شہباز شریف اور اسحاق ڈار کے مابین چل رہا ہے جب 2000ء کی ایک صبح اسحاق ڈار کو اٹک قلعہ سے پوری رات کے سفر کے بعد لاہور آفس میں نیب چیئرمین جنرل امجد سے ملوایا گیا تھا۔ اسحاق ڈار نے ایک بیان حلفی مجسٹریٹ کے سامنے دیا جس میں انہوں نے شریف خاندان کے منی لانڈرنگ کا کچا چٹھا کھول دیا اور وعدہ معاف گواہ بن کر جنرل امجد سے معافی لے لی۔اس پر بھی شاید شہباز شریف کچھ نہ کہتے کہ چلیں ہوسکتا ہے نیب نے دبائو ڈالا ہو لیکن شہباز شریف کو اصل دھچکا اس وقت لگا جب ڈار صاحب نے بڑی ذاتی نوعیت کی انفارمیشن بھی اس بیان حلفی میں ڈال دی۔ اس پر شہباز شریف بڑے ناراض ہوئے کہ مان لیا آپ پر دبائو تھا‘ آپ نے بیان حلفی دے کر ڈیل کر لی لیکن اس بیانِ حلفی میں ان کے متعلق اتنی ذاتی انفارمیشن دینے کیا ضرورت تھی خصوصاً جہاں کسی عربی خاتون کے پاسپورٹ کی کاپی کی بات۔اس لیے شہباز شریف اور اسحاق ڈار کے مابین ایک سرد جنگ کی سی کیفیت رہی۔ جب نواز شریف وزیراعظم تھے اور اسحاق ڈار اسلام آباد میں سب ٹرانسفر پوسٹنگ کرتے تھے‘ اس وقت بھی انہوں نے مرکزی حکومت میں ان چند افسروں کو اعلیٰ عہدے دیے جنہیں شہباز شریف نے ان کی نالائق کارکردگی پر پنجاب سے باہر نکال دیا تھا۔ اب ان حالات میں جب شہباز شریف سے کام چل نہیں پارہا‘ اس وقت ڈار صاحب کو لندن سے بھیجا جارہا ہے تو کیا شہباز شریف انہیں وہ پاورز استعمال کرنے دیں گے جن کی اجازت نواز شریف نے دے رکھی تھی؟ کیا ڈار صاحب شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے ساتھ بنا پائیں گے؟
میری اطلاع ہے کہ ڈار صاحب اس انڈر سٹینڈنگ کے ساتھ آرہے ہیں کہ انہیں پوری آزادی اور اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس پورے منظر میں ہم عمران خان کو بھول گئے جو اسحاق ڈار کی واپسی پر ان کے مقدمات کو لے کر شور کریں گے کہ پہلے باپ بیٹا ملزم اور اب ایک مفرور لندن سے حکومت کرنے آگیا ہے۔ویسے شہباز شریف نے تیس سال کی بڑی محنت سے سب پر اپنا ''بھرم‘‘ بنایا تھا کہ وہ اپنے بھائی نواز شریف سے بہتر وزیراعظم بننے کی صلاحیت رکھتے تھے اور کبھی موقع ملا تو دودھ کی نہریں بہا دیں گے‘ وہ بھرم بھی ماشاء اللہ ان تین ماہ میں دھڑام سے نیچے آن گرا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved