ملک میں جب بھی بے یقینی کی فضا ہو‘ جیسی آج کل ہے توصحافیوں کی بنی رہتی ہے۔ اس کی مثال یوں لے لیجیے کہ ایک راہ گم کردہ قافلہ کسی اجاڑ و بیابان جگہ پر پڑاؤڈالنے پر مجبور ہو جائے اور وہاں انسانی آبادی کہیں دور دور تک بھی دکھائی نہ دے‘ کھانا پینا ختم ہورہا ہوتو ایسے میں قافلے والوں کے لیے کسی بھی طرف سے آنے والا انسان امید کا پیامبرہوگا‘ چاہے وہ بے چارہ خود راستہ بھول کر ادھرآنکلا ہو۔کچھ یہی صورت آج کل بھی ہے۔ ایک صحافی کے طور پر میں جس سے بھی ملتا ہوں ایک ہی سوال پوچھتا ہے‘ یہ بتاؤ کیا بنے گا؟ ''اندر‘‘ کیا چل رہا ہے؟ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے خود پتا نہیں اندر کیا چل رہا ہے بلکہ خدا لگتی کہوں تو اندر والوں کو بھی علم نہیں کہ اصل میں کیا چل رہا ہے۔ جو چلتا ہوا نظرآرہا ہے وہ فی الحال تو عمران خان ہے‘ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو نکالنے والے‘اُن کی جگہ لینے والے اور انہیں چھوڑ جانے والے سبھی الجھن کا شکار ہیں کہ آخر یہ کیسے چل رہا ہے؟ دوسرا سوال جو عام طور پر پوچھا جاتا ہے‘ وہ عمران خان کے مستقبل کے بارے میں ہے۔ جو ان کے چاہنے والے ہیں‘ وہ اس امید پر پوچھتے ہیں کہ میں انہیں دوبارہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کی خبر دوں اور جو دوسری سیاسی جماعتوں سے لگائو رکھتے ہیں وہ یہ سننا چاہتے ہیں کہ عمران خان قصۂ ماضی ہو چکے ہیں‘ اب اقتدار کے راستے ان پر بند ہو چکے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پوچھنے والے کے تیور کیسے بھی ہوں‘ میرے پاس ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے کہ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے امکانات اتنے ہی روشن ہیں جتنے 2018ء میں تھے۔ تجربہ یہ ہے کہ اس جواب کے بعد اصل سوال آتا ہے کہ ''کیا مقتدرہ ایسا ہونے دے گی؟‘‘ تحریک انصاف کے حامی یہ سوال امید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھتے ہیں اوردیگر جماعتوں کو پسند کرنے والے ذرا بھنویں اچکا کر تیز لہجے میں پوچھتے ہیں۔ ہر دو کو میرا مختصر جواب ہوتا ہے، ''ہاں‘‘۔ اس اعتماد سے یہ جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ اس کا حوالہ تاریخ ہے۔
تاریخ میں ہمیں زیادہ دور نہیں فقط ذوالفقار علی بھٹو تک جانا پڑے گا۔ بھٹو کی سیاسی پرورش مقتدرہ نے کی۔ انہوں نے ہر وہ کھیل کھیلا جو انہیں کھیلنے کے لیے کہا گیا۔ جب بھٹوکو علم ہوا کہ اب وہ مقتدرہ کیلئے قابلِ قبول نہیں رہے تو انہوں نے پہلے امریکی سازش کہہ کر لوگوں کو اصل بات بتانے کی کوشش کی‘ جب انہیں گرفتار کرکے پھانسی دینے کا فیصلہ ہو چکا تو انہوں نے مقتدرہ کے کچھ کرداروں کے نام لے لے کر بات کرنا شروع کردی۔ اس وقت تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔ وہ پھانسی کے پھندے پر جھول گئے اور ان کی جماعت مقتدرہ کے نزدیک ناقابلِ قبول قرار پائی۔ ان کی موت کے بعد ان کے خاندان نے بڑا زور لگایا کہ ہیئت مقتدرہ میں انہیں کچھ رسوخ مل جائے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ بھٹو کے ٹھیک 25برس بعد تک پیپلزپارٹی مقتدرہ کیلئے ناقابلِ قبول رہی۔ 2004ء میں محترمہ بے نظیربھٹو کی مفاہمت کر لینے کی سوچ‘ امریکی معاونت اور پرویز مشرف کی ضرورت نے مل کر ایسا ماحول بنا دیا کہ پیپلزپارٹی اور مقتدرہ ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ 25 برس بعد مصلحت غالب آگئی اور بے نظیر بھٹو کے بعد تو قبولیت تقریباً انضمام میں ہی بدل گئی۔ اب حالت یہ ہے کہ چھوٹی موٹی شکر رنجیوں کے سوا پیپلزپارٹی کے شریک چیئر مین مقتدرہ کے آزمودہ گو گیٹر بن چکے ہیں۔ انہیں جو کہا جاتا ہے وہ کرکے دکھاتے ہیں۔
نواز شریف سے مقتدرہ کی محبت دراصل پیپلزپارٹی سے نفرت کی پیداوار تھی۔ نواز شریف لیڈرکے طور پر تراشے گئے‘ آزمائے گئے اور اپنا لیے گئے۔ پرویز مشرف کے دور میں یہ دیرینہ تعلق ٹوٹ گیا اور ان کے خلاف نفرت کے بیج بودیے گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اس نفرت کو ہوا دینے کے لیے اپنی جماعت پرویز مشرف کی مدد کے لیے پیش کی۔ معاملات چلتے رہے‘ نواز شریف نظرانداز ہوتے رہے اور پیپلزپارٹی قریب آتی گئی۔ یوں لگتا تھا کہ نواز شریف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناقابلِ قبول ہو چکے ہیں مگر 2007ء میں ہی وہ قابلِ قبول بن گئے۔ پیپلز پارٹی سے نفرت کے خاتمے میں 25برس لگے تھے اور نواز شریف صرف آٹھ سال میں ہی قابلِ قبول ہوگئے۔ اس کے بعد ان سے دوبارہ غلطیاں ہوئیں تو انہوں نے دوبارہ نفرت کا سامنا کیا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر صرف تین سال بعد ہی نواز شریف کی پارٹی اس سب کے باوجود بھی اپنا لی گئی۔
اب ذرا تاریخ کے اس رجحان کا تجزیہ کیجیے۔ بھٹوسے مقتدرہ کی نفرت 25برس میں ختم ہوئی‘ نواز شریف سے آٹھ سال میں اور اگلی بار صرف تین سال میں۔ گویا تاریخی عمل ایک گیند کی طرح آگے بڑھ رہا ہے جسے زور سے زمین پر مارا گیا تو پہلی بار یہ بہت اونچی نکل گئی‘ اگلی بار زمین سے ٹکرا کر کم اونچائی سے واپس آگئی‘ اس سے اگلی بار اونچائی مزید کم ہو گئی اور یوں بتدریج گرتی ابھرتی ہوئی ہموار طریقے سے لڑھکنے لگی۔ مقتدرہ اور مختلف سیاستدانوں کے درمیان منافرت یا موافقت کا یہ سلسلہ کسی کے مزاج کے تابع نہیں ہے بلکہ باقاعدہ تاریخی عمل ہے۔ ہم چاہے اس کا واقعاتی تجزیہ کرتے رہیں لیکن اصل میں اس کا ایک مخصوص نتیجہ بھی نکلنا ہے۔ یہ نتیجہ کیا ہوگا‘ اس پر غور کرتے رہنا چاہیے لیکن ابھی جو سوال زیرِبحث ہے وہ عمران خان کے مستقبل سے متعلق ہے۔
عمران خان پر بھی یہ الزام ہے کہ انہیں مقتدرہ کی حمایت ملی تو وہ ماحول بنا جس میں عوامی حمایت بھی میسر آگئی۔ ہم ایک لمحے کے لیے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہو گا۔ اس کے بعد وہ بھی اپنے پیشروؤں یعنی بھٹو اور نواز شریف کی طرح سچ مچ کے لیڈر بن گئے‘ یہ وہ حقیقت ہے جو سب کی نگاہوں کے سامنے ہے‘ لہٰذا اس پربحث کرنا ہی لایعنی ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا مقتدرہ انہیں دوبارہ اقتدار میں آنے دے گی تو کب؟ اگر ہم تاریخ کے جاری رجحان کو دیکھیں تو یہ بات کافی وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے ہی ان کے تمام جھگڑے طے ہوجائیں گے۔ ایک صحافی کے طور پر میں یہ بھی عرض کر سکتا ہوں کہ ان کے ساتھ معاملات طے ہونے کی طرف چل پڑے ہیں۔ بات چیت کے دروازے کھل چکے ہیں اور کسی نہ کسی سطح پر رابطہ بھی قائم ہو گیا ہے۔ ان کے قریبی ساتھی تو دعویٰ کرتے ہیں کہ معاملات طے ہونے میں صرف عمران خان کا رویہ رکاوٹ ہے‘ کیونکہ وہ کسی پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں۔ گویا جس معاملے نے پہلی بار طے ہونے میں کئی برس لیے تھے وہ اب کی بار سات مہینوں میں ہی طے ہو جائے گا۔ حالات کی نہج بتا رہی ہے کہ اب حکومت اور عمران خان کے درمیان صرف الیکشن کا وقت طے کرنے کی رکاوٹ رہ گئی ہے۔ موجودہ حکومت کو یہی غم کھائے جارہا ہے کہ وہ عمران خان کو نکالتے نکالتے خود نکل رہی ہے۔ اب اس کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ توشہ خانے کے کاغذات چھان چھان کر کچھ نکالے اوراپنے دل کو تسلی دیتی رہے۔ نواز شریف نے جو بہت کچھ کہہ کر حاصل کیا تھا‘ عمران خان نے بغیر کچھ کہے ہی حاصل کر لیا ہے۔ کسی کو یقین نہیں آتا تو تاریخ کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ لے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved