رائیونڈ روڈ پر ٹریفک وارڈن نے ایک معمولی غلطی پر رکشا ڈرائیور کا چالان کیا تو چالان کی رقم سن کر ڈرائیور اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا۔ اس نے آئو دیکھا نہ تائو‘ غصے میں پٹرول چھڑک کر اپنے ہی رکشے کو آگ لگا دی۔ غریبوں کے جسموں کو دنوں میں کھوکھلا کر دینے والی مجبوریوں اور دکھوں کی طرح‘ دیکھتے ہی دیکھتے آگ کے شعلے اس طرح بھڑکے کہ رکشا جل کر بھسم ہو گیا۔ اس کے پورے گھر‘ جس میں بوڑھے والدین بھی شامل ہیں‘ کا واحد کفیل وہ رکشا لمحوں میں راکھ بن گیا۔ اگر چالان ہوا ہے تو یقینا رکشا ڈرائیور نے ٹریفک کے کسی اصول کی خلاف ورزی بھی کی ہو گی لیکن وہاں اکٹھے ہونے والے مجمع نے جو بات مشترکہ طور پر بیان کی وہ یہ کہ خلاف ورزی صرف رکشے والے نے نہیں بلکہ اس رکشے کے آگے کالے رنگ کی جو بڑی سی گاڑی گزری تھی‘ اس نے بھی کی تھی مگر اس کو روکا بھی نہیں گیا اور اس غریب کو پکڑ کر اس کا چالان کر دیا گیا۔ قانون کی حکمرانی تو تب تھی کہ ایک جیسا جرم کرنے والے دونوں افراد کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا۔ کروڑوں روپے مالیت کی بڑی گاڑی والے کا بھی چالان کیا جاتا۔ رکشا ڈرائیور کا بس یہی شکوہ اور واویلا تھا جسے سنتے ہی ٹریفک وارڈن آگ بگولا ہو گیا اور اس نے پانچ سو روپے کا چالان اس غریب کے ہاتھ میں تھما دیا۔
رکشا ڈرائیور جو صبح ہی رکشے کی خالی ٹینکی میں دو لیٹر پٹرول ڈلوانے کی نیت سے اپنے کسی جاننے والے سے پانچ سو روپے ادھار لے کر گھر سے نکلا تھا‘ اس چالان پر لکھی چالان کی رقم کو دیکھ کر اس طرح بھڑکا کہ اپنے روزی کمانے والے وسیلے کو ہی جلا دیا۔ معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ اس سارے معاملے کے بعد وہاں پولیس پہنچ گئی جو اس رکشا ڈرائیور کو مارتے پیٹتے اپنے ساتھ لے گئی۔ تھانے میں لے جا کر نقضِ امن سمیت تین‘ چار سخت دفعات کے تحت اس پر مقدمہ درج کر کے اسے حوالات میں ڈال دیا گیا۔ یہ پورا واقعہ چند منٹوں میں پیش آیا۔ رکشے والے کا لاوا نما غصہ‘ برسوں سے اس معاشرے کی بنیادوں میں پک رہا تھا جو ایک ناانصافی پہ ابل پڑا۔ وجہ بڑی صاف ہے اور وہ یہ کہ بڑے لوگوں کو کسی جرم پر پکڑنے کا ہمارے ملک میں رواج ہی نہیں۔ اس کے برعکس اگر غریب آدمی غلطی سے یا انجانے میں کوئی معمولی سی خطا بھی کر دے تو سڑکوں‘ چوراہوں‘ تھانوں اور دفاتر میں بیٹھے افسروں کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ اپنی دھاک بٹھانے یا اپنا کمیشن بڑھانے کیلئے ان کو سختی سے کچل دیا جائے۔ ہمارے معاشرے میں قانون کا مطلب ہی یہ لیا جاتا ہے طاقتور کے سامنے سرنگوں اور کمزور کے سامنے اکڑ فوں۔ یہ وہ ملک‘ وہ منزل تو نہیں جس کے لیے ہمارے اجداد نے قربانیاں دی تھیں۔
رکشا ڈرائیور سے اپنے ہی رکشے کو آگ لگانے جیسے انتہائی اقدام پر بات ہوئی تو اس کا کہنا تھا کہ آپ اس وارڈن کو ساتھ لے کر میرے گھر چلے جائیے اور وہاں جا کر میرے محلے والوں اور ہمسایوں سے پوچھ لیں، گلی کی دکاندار سے پوچھ لیں کہ ہم اب تک اس سے ادھار پر کتنا راشن لے چکے ہیں۔ میں نے کچھ دن پہلے گھر کا ساڑھے تین ہزار روپے بجلی کا بل ادا کیا ہے کیونکہ اس گرمی میں‘ جب پنکھے کے بغیر ایک لمحہ گزارنا بھی محال ہے‘ اگر ایک دفعہ میٹر کٹ جائے تو پھر ہزاروں روپے نذرانہ دینے کے باوجود دس‘ پندرہ دنوں بعد دوبارہ میٹر لگایا جاتا ہے۔ حوالات میں بند اس رکشا ڈرائیور کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ اس سے کتنی بڑی غلطی ہوئی ہے کیونکہ ابھی تو اس نے اس رکشے کی قسطیں بھی ادا کرنی ہیں۔ اسی لیے غصے کو حرام قرار دیا گیا ہے کہ اس کیفیت میں انسان اچھے برے کی تمیز بھلا دیتا ہے مگر آج کل یہ ہم سب کی ناک پر بیٹھا رہتا ہے۔ یہ غصہ ہی تھا جو وارڈن کو بھی آگ بگولہ کر گیا کہ اس دو ٹکے کے رکشا ڈرائیور کی ہمت کیسے ہوئی اس سے یہ پوچھنے کی کہ اس بڑی گاڑی والے کا چالان کیوں نہیں کیا، حالانکہ رکشے والا تو اسی کے پیچھے پیچھے سڑک کو کراس کر رہا تھا۔
پاکستان میں ایسے مناظر دن میں نجانے کتنی بار اور کہاں کہاں نہیں دیکھنے کو ملتے۔ چند روز ہوئے لاہور‘ چیئرنگ کراس پر دو گاڑیاں ایک ساتھ ریگل چوک کی جانب جا رہی تھیں، ایک چھوٹی گاڑی تھی‘ جس کے شیشوں پر ہلکے سیاہ رنگ کی شیٹس لگی ہوئی تھیں۔ وہ شیٹس ایسی تھیں کہ باہر کھڑا کوئی بھی شخص گاڑی کے اندر ہر چیز صاف اور واضح طور پر دیکھ سکتا تھا جبکہ دوسری گاڑی‘ جو لگ بھگ سات کروڑ مالیت کی تھی‘ کے شیشے اس قدر گہرے سیاہ رنگ کے تھے کہ گاڑی کے اندر جھانکنے پر بھی باہر ہی کا منظر منعکس ہوتا تھا۔ یہاں بھی وہی منظر دکھائی دیا جو عموماً ایسے کیسز میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ چھوٹی گاڑی والے کا چالان کر دیا گیا جبکہ بڑی گاڑی والے کو روک کر یہ پوچھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی کہ اس نے کس قانون کے تحت گاڑی پر کالے شیشے چڑھا رکھے ہیں۔ خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیﷺ کی حدیث مبارکہ نجانے ہم سب کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ کسی بھی جرم کی سزا غریب اور امیر‘ سب کیلئے برابر ہونی چاہئے‘ اس میں کمزور اور طاقتور کی کوئی تمیز نہیں ہونی چاہئے کیونکہ پچھلی قوموں کو اسی تخصیص اور تمیز کی وجہ سے برباد کر دیا گیا تھا۔
غریبوں کے ساتھ آج کل جو سلوک یوٹیلیٹی سٹورز پر ایک کلو گھی اور ایک کلو چینی خریدنے کے لیے دیکھنے کو مل رہا ہے وہ اس قدر تکلیف دہ ہے کہ انسانیت چیخنے لگتی ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ تیسرے درجے کے گھی کے ایک پیکٹ کیلئے لوگ جھلسا دینے والی گرمی میں کئی کئی گھنٹے قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں۔ دو گھنٹے قطار میں لگنے کے بعد بھی ایک کلو گھی کا پیکٹ اور ایک کلو چینی اسی صورت میں دی جا رہی ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ تین سو سے پانچ سو روپے کی مزید خریداری کریں۔ لاہور کے پانچ یوٹیلیٹی سٹورز کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کیلئے ٹیم کے ہمراہ پہنچے تو ہر یوٹیلیٹی سٹور کے باہر مرد و خواتین کی طویل قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ پاکستان میں رہنے والوں کو تو بخوبی اندازہ ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں سے گرمی کی شدت کا عالم کیا ہے۔ ایک بھلا چنگا تندرست آدمی بھی چند منٹ بغیر پنکھے یا سائے کے‘ دھوپ میں کھڑا نہیں ہو سکتا لیکن یہاں خواتین کی اس قدر زیادہ تعداد دیکھنے کو مل رہی تھی کہ افسوس اور حیرانی کی ملی جلی کیفیت تھی۔ شدید گرمی، لو، تپتی سڑک اور ہجوم کی وجہ سے درجہ حرارت چوالیس سے پچاس ڈگری کو چھو رہا تھا۔ ایک یوٹیلیٹی سٹور کے باہر درجنوں کی تعداد میں کھڑی خواتین کی زیادہ تعداد ساٹھ اور اس سے بھی زیادہ عمروالیوں کی تھی۔ دو بوڑھی خواتین دیکھنے میں اس قدر بیمار لگ رہی تھیں کہ کھڑا ہونا بھی ان کے لیے دشوار ہو رہا تھا۔ انہیں دیکھتے ہی مجھے اپنی مرحومہ والدہ یاد آ گئیں جو اگر آج زندہ ہوتیں تو ان سے کچھ ہی بڑی ہوتیں۔ مجھے ایسے لگا کہ میری ماں اس دھوپ میں جلتے ہوئے فرش پر نائلن کا سلیپر پہنے کھڑی ہے اور اس کا سر اور پائوں حدت سے جل رہے ہیں۔ ایک معذور شخص بھی بیساکھیوں کے سہارے گھی اور چینی لینے کیلئے نجانے کب سے اس قطار میں کھڑا تھا۔ چند منٹ بعد جو اس کی حالت ہوئی‘ اسے دیکھ کر مجھ سمیت پوری ٹیم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ہم نے دونوں بوڑھی خواتین اور اس معذور شخص‘ جس کی عمر کسی صورت پچاس سے کم نہیں تھی‘ کو منت سماجت کر کے اپنے ساتھ لیا اور وہ خوردنی اشیا‘ جو وہ لینے کیلئے شدت کی گرمی اور حبس برداشت کر رہے تھے‘ سامنے مارکیٹ میں واقع ایک گروسری سٹور سے خرید کر ان کے حوالے کر دیں۔
ہر یوٹیلیٹی سٹور کی حالت بیان نہیں کی جا سکتی، مگر لاہور کے ایک نواحی علاقے کے مناظر خون کے آنسو رلا دینے والے تھے۔ اس قدر رش اور دھکم پیل‘ ایسا لگ رہا تھا جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ یہاں بھی عمر رسیدہ مرد و خواتین کی اکثریت تھی۔ ہمارے اپنے لباس اور ایئر کنڈیشنڈ گاڑیاں ہمیں کھانے کو دوڑ رہی تھیں۔ ہمارے جیسے لوگ اپنے رب کا شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟ کسی امیر کی غلطی نظر انداز کر کے غریب کو اپنے غصے اور سزا کا نشانہ بناتے ہوئے کانپتے کیوں نہیں؟ کچھ سوچتے کیوں نہیں؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved