تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     01-07-2022

ہردم جواں ہے زندگی

عید الاضحی جیسے جیسے قریب آتی جا رہی ہے‘ ہر طرف مختلف رنگ و نسل کے جانور نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ سڑکیں ہوں یا گلیاں‘ ہر طرف چھوٹے بڑے مویشی ٹرکوں اور پک اَپس میں سوار بیلوں، بکروں اور دنبوں کی بہتات نظر آتی ہے۔ عید الاضحی پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کے طور پر جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے، اسی نسبت سے اسے عیدِ قربان بھی کہا جاتا ہے۔ ذوالحج اسلامی کیلنڈر کا آخری مہینہ ہے اور اس ماہِ عظیم کے پہلے دس ایام کو سال کے افضل ترین ایام قرار دیا جاتا ہے۔ حج اور عید الاضحی دونوں عبادات اور شعائر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات کے گرد گھومتے ہیں جن کی تکریم کرۂ ارض پر بسنے والی دو تہائی سے زائد آبادی کرتی ہے۔ حج کا رکنِ اعظم وقوفِ عرفات ہے۔ اس کے علاوہ جن دو بنیادی ارکان کا ذکر سورۃ الحج میں ملتا ہے وہ ہیں؛ اللہ کے نام پر قربانی کرنا اور طوافِ بیت اللہ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ حج ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے اورحج بیت اللہ صرف مکہ مکرمہ اور اس کے گرد و نواح تک محدود ہے لیکن اس کے ایک رکن قربانی کو توسیع دی گئی ہے تا کہ روئے زمین پر ہر شخص اس میں شریک ہو سکے۔ سورۃ الکوثر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ''پس نماز پڑھو اور اپنے رب کے لیے قربانی کرو ‘‘۔ بخاری شریف میں حدیث ہے ''رسول اللہﷺ نے فرمایا: عید کے دن سب سے پہلے جو کام کریں‘ وہ یہ ہیں کہ عید کی نماز ادا کریں اور پھر قربانی کریں ‘‘۔ حضرت زیدؓ سے مروی ہے کہ صحابہ کرامؓ نے حضور اکرمﷺ سے استفسار کیا ''قربانی کیا ہے؟ ‘‘آپﷺ نے فرمایا، ''یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ‘‘۔ لوگوں نے پوچھا ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپﷺ نے فرمایا ''(قربانی کے جانور کے) ہر بال کے بدلے نیکی ہے‘‘۔ لوگوں نے اون کے بارے میں پوچھا کہ کیا حکم ہے؟ فرمایا: اون کے ہر بال کے عوض بھی نیکی ہے۔
وطنِ عزیز میں بھی سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی کا مذہبی عقیدت‘ محبت اور جوش و خروش کے ساتھ اہتمام سے کیا جاتا ہے۔ اس کی حکمت، غرض و غایت گویا ذبیحۂ عظیم کے شاندار‘ بے مثال اور منفرد واقعہ کی یادگار ہے جس میں ایک بوڑھے باپ نے حکمِ الٰہی کی بجا آوری میں اپنے نوجوان فرزند کے گلے پر چھری پھیر دی۔ یہ اللہ کی راہ میں قربانی کی انتہائی صورت ہے کہ اپنی پدرانہ محبت، جذبات اور احساسات کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کیلئے قربان کر دیا جائے۔ یہ وہ قربانی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قبولیت کی سند یوں عطا فرمائی کہ اس کی یادگار کو قیامت تک کے لیے جاری کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ذوالحج کا مہینہ شروع ہوتے ہی پورے ملک میں ہی رونق کا سماں ہوتا ہے۔ بچے‘ بڑے سب جانوروں کی خرید و فروخت، گھریلو بجٹ، مہنگائی اور قیمتوں کے بڑھنے کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ خواتین نت نئے کھانوں کی ترکیبیں، گھروں کی صفائی ستھرائی، نئے برتنوں کی خریداری اور فریج و فریزر کی صفائی ستھرائی میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ میٹھی عید کپڑوں، جوتوں، زیورات کی خریداری میں گزرتی ہے اور اس عید میں گھریلو استعمال کی اشیا پر توجہ دینا گویا سگھڑاپے کی علامت ہے۔ دعوتیں‘ میل جول اور تفریحی مقامات کی سیر بھی پروگرام کا حصہ ہوتی ہے۔ انواع و اقسام کی ڈشز، باربی کیو، بریانی، پلائو اور سالم رانوں کے تحفے بیٹیوں اور دوستوں کو بھجوانا اس عید کے لوازمات میں شامل ہے۔
آج کی جدید دنیا میں جن کے دستر خوانوں پر طرح طرح کے لذیذ کھانے موجود ہوتے ہیں‘ نہ گوشت کی کمی ہے نہ کسی اور چیز کی‘ اس کے باوجود عید قربان پر ان کی جانب سے گوشت کی غیر منصفانہ تقسیم سمجھ سے بالاتر ہے۔ غریبوں، عزیزو اقارب کے حصے نکالنے اور ہر ایک کو برابر حصہ دینے کے بعد یہ سالم رانیں اور دستیاں کیسے بچ جاتی ہیں۔ اس بات کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خون اور گوشت نہیں بلکہ اسے ہماری نیت اور خلوص پہنچتا ہے۔ قربانی ان چیزوں کی دی جاتی ہے جو خود کو بھی عزیز ہوں۔ اس جذبے کے بغیر تو قربانی کا مقصد ہی ادھورا رہ جاتا ہے۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم گوشت میں ضرورت مندوں، غربا اور یتیموں کا حصہ ضرور رکھیں۔ سفید پوش لوگوں کو بھی‘ جو کبھی پہلے اچھے وسائل کے حامل تھے اور بوجہ اب قربانی کے قابل نہیں رہے‘ ہمارا فرض ہے کہ ہم سب سے پہلے ان کے گھروں میں گوشت بھیجیں تا کہ ان کے بچے قربانی کے گوشت سے لطف اندوز ہو سکیں۔ بدقسمتی سے ہم اپنی ذات کے دائروں میں گھوم رہے ہیں۔ کسی کا خیال رکھنا ہے‘ یہ بات بچوں کو سکھائی ہی نہیں جا رہی۔ ملنا ملانا بھی محدود ہو گیا ہے۔ آس پاس کی فکر کرنے اور ارد گرد رہنے والے لوگوں کے حالات سے آگاہ رہنے کی ضرورت ہے۔ دلوں میں گنجائش بنانا اور انسانیت کی تعظیم و تکریم ہی قربانی کا فلسفہ ہے۔ انا کی قربانی، غصہ، نفرت، خود پسندی اور خود نمائی کی قربانی کی بھی شدت سے ضرورت ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ قربانی جیسا مذہبی فریضہ بھی بڑائی اور دکھاوے سے بچ نہیں پایا۔ ہر کوئی دوسرے سے سبقت لینے کے لیے ایک مقابلے اور ریس کا شکار ہے۔ جانوروں کی خریداری، سجاوٹ، اور دوسروں پر دولت کا رعب جھاڑنا ہی اصل مقصود بن گیا ہے۔ ہم اس میں سب کو شامل نہیں کر سکتے مگر قابلِ ذکر طبقہ اس نمود و نمائش کی لپیٹ میں ہے۔
عمومی طورپر جانوروں کو گھروں میں ہی ذبح کیا جاتا ہے۔ سڑکوں، گلیوں اور چوک چوراہوں پر عید کے تین دن خوب دل کھول کر قربانی کے جانوروں کا خون اور آلائشیں پھیلائی جاتی ہیں۔ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ صفائی ستھرائی کا کام صرف حکومتی اداروں کا ہے۔ عید کے دن بھی انہی لوگوں کو ڈیوٹی کرنی ہے۔اگر ہم اپنی ذمہ داریوں پر نگاہ ڈالیں کہ جو گندگی ہم پھیلاتے ہیں‘ اگر اس کو ہی سمیٹ لیں تو شہروں، گائوں، اور محلوں میں تعفن نہ پھیلے، مکھیاں اور دیگر بیماریوں کے جراثیم نہ پھیلیں۔ اس وقت ملک بجلی کے بحران کا شکار ہے اور مہنگائی سے لوگوں کی قوتِ خرید بھی خاصی کم ہو گئی ہے۔ عالمی سطح پر بھی روز مرہ کے استعمال کی اشیا کی قیمتوں کے بڑھنے کا رجحان ہے۔ حالیہ تاریخ میں پہلی بار برطانیہ، یورپی ممالک اور ترقی یافتہ دنیا میں بنیادی فوڈ آئٹمز کی قیمتیں اسی طرح بڑھی ہیں۔ پاکستان میں بھی اشیائے خورو نوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ گوشت بے حد مہنگا ہو چکا ہے اورمٹن خرید کر کھانا اب بہت سے افراد کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اس عید پر اس بات کو ذہن میں ضرور رکھیں۔ گوشت کو فریزر میں جمع نہ کریں، یہی قربانی کی اصل روح ہے کہ اسے تقسیم کر دیں اور ان لوگوں کو دیں جو صرف عید پر ہی گوشت کھا سکتے ہیں۔ اپنا حصہ ضرور رکھیں، کھائیں بھی مگر بانٹنے میں ہی قربانی کا فلسفہ اور روح پنہاں ہے۔ نبی آخر الزماںﷺ ہمیشہ دو دنبوں کی قربانی کیا کرتے تھے۔ ایک اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی امت کی طرف سے۔ آخری سال آپﷺ نے سو اونٹوں کی قربانی دی اور تریسٹھ اونٹوں کو اپنے دستِ مبارک سے ذبح فرمایا۔
قربانی کے مقاصد بڑے وسیع اور گہرے ہیں۔ اس دارِ فنا میں جب مال و دولت سے محبت اور زندگی کی آسائشیں حد درجہ عزیز ہیں اور دنیاوی مراتب اور ان کی حرص بامِ عروج کو چھو رہی ہے، زندگی کا امتحان اتنا ہی سخت ہو گیا ہے۔ دنیا کی خوبصورتی، دلکشی اور رعنائیوں میں گم ہونا آسان ہو گیا ہے۔ میرے روحانی پیشوا پروفیسر رحمت علی فرماتے ہیں کہ ہمارے دین میں کل حیات یہی دنیاوی زندگی نہیں ہے کہ ہم پچاس‘ ساٹھ‘ ستر برس اس دنیا میں گزارتے ہیں، حیات ِانسانی بہت طویل ہے۔ دنیاوی زندگی تو ایک امتحان ہے، یہ عارضی ہے۔ روزِ جزا کے بعد دائمی زندگی کا آغاز ہو گا جس میں موت، امتحان اور آزمائش کا کوئی غم نہیں ہوگا۔ اخروی نجات اس دنیا کے آرام، مال اور آسائش کی قربانی میں پوشیدہ ہے۔ ساڑھے چودہ سوسال کے بعد بھی ربِ کعبہ کے دین کا بنیادی ڈھانچہ اسی طرح موجود ہے۔ باقی نہیں رہا تو جذبۂ عشق۔ عشقِ الٰہی نہ ہو تو عقل کی عیاری مال و متاع اور دنیا کی رنگینیوں اور رونقوں کی طرف مائل کرتی ہے۔ فلسفۂ حیات کا یہ لطیف نکتہ علامہ اقبال ؒنے اس طرح بیان کیا ہے:
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved