بارہ اگست کی شام کراچی میں اسماعیلی جماعت خانے پر پھینکے گئے دستی بم سے عورت اور بچے کی ہلاکت کے علاوہ اٹھائیس افراد زخمی ہوئے ۔مجھے اس وقت حیات نبویؐ کا ایک مشہور واقعہ یاد آ رہا ہے۔جب کفار مکہ نے اپنا ایک وفد شاہ ِحبشہ نجاشی کے پاس بھیج کر مطالبہ کیا کہ جن مسلمانوں نے ان کے ہاں پناہ لے رکھی ہے انہیں ان کے حوالے کیا جائے تو نبی کریم ﷺ نے بھی کفار مکہ کے مقابلے میں عامر ابن الدامری کو جس کا تعلق مسلمانوں کے ایک اتحادی قبیلے سے تھا اور ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا ،اپنا سفیر بنا کر بھیجا تاکہ وہ مسلم مہاجرین کے حق میں حمایت حاصل کر یں۔کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ آغا خان کے پاکستان پر کس قدر احسانات ہیں؟ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس مقبول باقر کو نشانہ بنانے والوں نے اپنی گرفتاری کے بعد تفتیشی ایجنسیوں کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ جونہی ہمیں پتہ چلا کہ کسی اہم ترین مشن کیلئے خود کش بمباروں کا چنائو ہونے جا رہا ہے تو ہم سب نے اپنااپنا نام شامل کرنے کیلئے ضد شروع کر دی ۔ہم میں سے ہرایک اس ’’مقدس ‘‘مشن کیلئے اس قدر بے تاب تھا کہ ہمارے امیر نے فیصلہ کیا کہ اس کے لیے فدائین کا انتخاب قرعہ اندازی سے کیا جائے گا۔جب قرعہ اندازی میں میرا اور میرے ساتھیوں کا نام نکلاتو ہم اﷲ کی طرف سے اس اعزاز کیلئے منتخب کئے جانے پر سجدے میں گر گئے۔ پولیس اور دوسری ایجنسیوں کے سامنے دوران تفتیش اعترافی بیانات دینا کوئی نئی بات نہیں لیکن اپنے اس بیان میں مجرم نے بڑے فخر سے تسلیم کیا ہے کہ جب اسے اور اس کے دوسرے ساتھیوں کو پتا چلا کہ ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے والے سندھ ہائیکورٹ کے جج کو قتل کرنا ہے تو سب ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لینے کیلئے ضد کرنے لگے ۔بات ضد کرنے کی نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ انہیں اور ان جیسے دوسرے ہزاروں نوجوانوں کو ضد کی اس انتہا تک کون لایا ؟کیا یہ نوبت ایک دن یا ایک سال میں آئی ؟ کیا یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں پھلتا پھولتا رہا؟ وہ کتابیں کون چھپواتا رہا جس میں ایک دوسرے کے فرقے کے بارے میں اشتعال انگیز باتیں شامل کی جاتی رہیں ۔وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے مساجد اور مدرسوں کو ملک کے نوجوانوں میں نفرت بھر کر انہیں بارود کے ڈھیروں میں بدلنے کے لیے استعمال کیا۔ کوئی بھی انسان وقتی اشتعال یا پرانی دشمنی کی بنا پر اپنے مخالف کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی تو کرسکتا ہے لیکن کسی انسان کا یہ جانتے ہوئے خودکش بمبار بننا کہ اس کے بدن کے چیتھڑے اڑ جائیں گے اور اس کی زد میں آنے والوں میں بے گناہ بچے ، بوڑھے اور عورتیں بھی شامل ہوں گی، اس کے قدموں کا نہ ڈگمگانا اس کا وقتی اشتعال نہیں بلکہ بدترین برین واشنگ کا نتیجہ ہے۔دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ اپنے ہدف کو کسی مخصوص فرقے کا پیروکار کہتے ہوں گے لیکن میری نظر میں یہ پاکستانی قتل ہورہے ہیں اور پاکستانیوں کو منظم طریقے سے بارود سے اڑانے والا ہی ہمارا اصل دشمن ہے۔کوئٹہ سے کراچی اور رحیم یار خان سے پارہ چنار تک پاکستانیوں کوقتل کرنے والوں کو کوئی تو احکامات دیتا ہو گا۔احکامات دینے والوں کو بھی کسی نہ کسی طرف سے ہدف بننے والوں کی فہرست بھجوائی جاتی ہو گی اور یہ فہرست وصول کرنے والوں کو کہیں نہ کہیں سے ’ ’ اخراجات‘‘ بھی مہیا کیے جاتے ہوں گے۔کوئی تو ہوگا جو یہ سب اخراجات برداشت کرتا ہے ۔کیا کبھی کسی حکومت نے یہ فہرست بنانے والے، فہرست وصول کرنے والے، اخراجا ت وصول کرنے والے اور سب اخراجات ادا کرنے والے ’’ہاتھوں‘‘ کو ڈھونڈنے یا پکڑنے کی کوشش کی ہے؟ مسلم تاریخ پر نظر دوڑائیں اور غور کریں کہ حسن بن صباح کو بے پناہ مقبولیت کیوں حاصل ہوئی ؟کیا وجوہات تھیں کہ اس کے فدائین اس کے ایک اشارے پر خنجر اپنے دل میں اتار لیتے تھے ؟اس کے پیرو کار اس کے رسمی مرید نہیں تھے بلکہ وہ لوگ تھے، جنہوںنے اپنی زندگیاں اس کے لیے وقف کر رکھی تھیں۔کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے قریب آنے والوں کی اس طرح برین واشنگ کر تا تھا کہ ان کے دل اور دماغ اس کے حکم اور اشارے کے تابع ہو کر رہ جاتے تھے۔ آج حسن بن صباح کی جگہ ہمارا دشمن ملک نام نہاد مذہبی لوگوں کے ذریعے پاکستان سے گن گن کر اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے رہا ہے۔افسوس ہے کہ قوم اور ملک کو مختلف فرقوں میں بانٹ دیا گیا ہے ۔اب یہ فرقے مسجدوں تک محدود نہیں رہے بلکہ اب ان فرقوں کو سرحدوں میںتبدیل کر دیاگیا ہے ۔مسجدوں اور مدرسوں میں آنے والے بچوں کو جن کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے ہوتا ہے، دینی تعلیم دینے کی بجائے ان میں مذہبی جنون بھر دیا جاتا ہے ۔ان کے ذہنوں میں مخالفین کے بارے میں کفر کے فتوے ٹھونسے جاتے ہیں۔یہ نوجوان دین او ر مذہب میں فرق سمجھنے کی بجائے اپنے استاد کی طرف سے ٹھونسے ہوئے مذہب کے نام پرایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تیارہوجاتے ہیں ۔نوجوانوں کو اقبال کا شاہین بنانے کی بجائے وحشی بنا دیا گیاہے۔ چند ملکوں کی بے تحاشا دولت سے تفرقہ باز علما نے اس قوم کو فرقوںمیں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے ۔ اپنے اپنے فرقے کے نوجوانوں کے ذہنوں پرجنونی کیفیت طاری کر کے ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک خونریزی کا با زار گرم کر دیا گیا ہے ۔میری ان گزارشات سے سیا سی اور مخصوص بیرونی ایجنڈے پر کام کرنیوالے لوگ ناراض تو ضرور ہوں گے لیکن خدا لگتی کہیں کیا یہ سچ نہیں ہے؟ بغداد پر جب تاتاریوں نے یلغار کرتے ہوئے اس کی گلیوں میں مسلمانوں کا خون ندیوں کی طرح بہایا تھا تو اس وقت ایسے ہی تفرقہ باز مولوی آج کی طرح ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے میں لگے ہوئے تھے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved