زندگی کیا ہے؟ اس سوال پر غور کرتے کرتے لوگ عمر گزار دیتے ہیں مگر کوئی ڈھنگ کا جواب نہیں سُوجھتا۔ سُوجھے بھی کیسے کہ زندگی کا بنیادی مقصد یہ ہے ہی نہیں کہ اِس کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوا جائے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے جسے برتنے کا ہنر سیکھنے پر توجہ دینی چاہیے۔ زندگی سر بسر پریشانی ہے نہ محض راحت و تسکین کا منبع۔ یہ انگور کا دانہ ہے یعنی کھٹا بھی ہے اور میٹھا بھی۔ سرد و گرم ساتھ ساتھ چلتے ہیں تو زندگی کی تصویر مکمل ہوتی ہے۔ معاملات محض سرد ہوں تو بات نہیں بنتی اور محض گرم ہوں تب بھی یہ دل کشی سے محروم ہوجائیں۔
جب تک سانسوں کا ربط برقرار ہے‘ تب تک روئے ارض پر ہمارا قیام ہے۔ یہ قیام چونکہ مسلسل ہے اس لیے ہم اِس کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ زندگی کے ہر شعبے کو حسبِ ضرورت توجہ دی جائے تو ہی یہ ڈھنگ سے گزرتی ہے۔ کسی ایک پہلو کو نظر انداز کیجیے تو بات بگڑتی ہے۔ ہم زندگی کے کسی بھی پہلو کو نظر انداز نہیں کر سکتے، بالائے طاق نہیں رکھ سکتے۔ زندگی جزوی نہیں، کلی ہوتی ہے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے پورے من سے کرنا ہے، پوری توجہ کے ساتھ کرنا ہے تاکہ اس کا حق ادا ہو پائے۔
زندگی کو خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے نہ چند معاملات کو ایک طرف رکھا جا سکتا ہے۔ کسی بھی معاملے کے تمام پہلو ذہن نشین رکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ انہماک شرط ہے۔ توجہ ہٹی، انہماک مٹا اور بات بگڑی۔ کائنات کا بنیادی اصول ہے ربط اور ترتیب۔ جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہے اور جو کچھ بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے وہ ایک خاص نظم کے تحت ہے۔ یہ نظم نہ ہو تو کائنات کا نظام درہم برہم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ پورا کائناتی نظام ایک خاص نظم و ضبط کے تحت خلق کیا ہے۔ اللہ کے طے کردہ نظم کو نظر انداز کرنا کائنات کے وجود اور خدا کی صناعی کی توہین ہے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے طے کردہ نظم کے امین بنتے ہیں‘ وہی کامیاب ٹھہرتے ہیں کیونکہ اطاعت کا اجر اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھا ہے۔ ہر انسان کو اس اختیار کے ساتھ خلق کیا گیا ہے کہ جو جس طرف جانا چاہے‘ جائے۔ اگر وہ بُرائی کی راہ پر گامزن رہنا چاہتا ہے تو رہے، کس نے روکا ہے؟ کائنات کے خالق و مالک کی منشا یہ ہے کہ آپ پورے اختیار کے ساتھ جئیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ اُس نے اپنی راہ بھی متعین فرما دی ہے تاکہ حساب کتاب کے وقت کسی کے پاس یہ عذر نہ ہو کہ اُسے اختیار تو دیا گیا تھا مگر اصل راہ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔ ہماری تخلیق کا بنیادی مقصد رب کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا ہے۔ رب نے اپنی مرضی اپنے کلام اور شریعت کے طے کردہ اصولوں کی شکل میں بیان کردی ہے۔ اس معاملے میں جو بھی چاہے شرحِ صدر کی منزل تک پہنچ سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر اصول کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے۔ خالقِ کائنات کے کلام کو سمجھنے میں کوئی ابہام ہے نہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں زندگی بسر کرنے کے موزوں ترین طریقے کو منتخب کرنے اور اُس کے مطابق جینے میں کوئی دشواری ہے۔ سبھی کچھ تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ مسئلہ محض انتخاب کا ہے۔
سانسوں کا ربط برقرار رہنے کی صورت میں ہم جیتے تو ہیں مگر ڈھنگ سے جینے کے بارے میں کم ہی سوچتے ہیں۔ زندگی گزر بھی سکتی ہے اور گزر ہی جاتی ہے لیکن کیا بات ہو اگر اِسے پورے شعور کے ساتھ، پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ بسر کیا جائے۔ ایسی حالت میں یہ تشفی بھی رہتی ہے کہ جو کر سکتے تھے وہ کر گزرے۔ بہت سوں کو ڈھلتی اور ڈھلی ہوئی عمر میں یہ پچھتاوا ستاتا رہتا ہے کہ جو کچھ کر سکتے تھے‘ وہ نہ کر سکے کیونکہ اِس طرف کبھی متوجہ ہی نہ ہو پائے۔ صلاحیت و سکت کے ہوتے ہوئے کچھ خاص نہ کر پانے کا دُکھ یا پچھتاوا انسان کو سو طرح کی الجھنوں سے دوچار کرتا ہے۔ ایسے میں اچھا خاصا وقت کڑھنے میں ضائع ہو جاتا ہے۔ یاد رکھیے کہ وقت ہی سب کچھ ہے۔ ہمارا سب سے بڑا اثاثہ وقت ہے۔ یہ ضائع ہوا تو بہت کچھ‘ اور بعض معاملات میں تو سب کچھ‘ ضائع ہوا۔ ہم سب تحت الشعور کی سطح پر یہ بات سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں کہ زندگی کو خانوں میں بانٹا نہیں جاسکتا اور کسی ایک یا چند معاملات کو تادیر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بہت کچھ ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ جن معاملات کا ہماری زندگی سے بنیادی یا جوہری تعلق ہے اُنہیں نظر انداز کرنے کے ہم متحمل ہو ہی نہیں سکتے۔ مشکل یہ ہے کہ جو کچھ تحت الشعور میں ہے اُسے ہم شعوری سطح پر لانے کے معاملے میں مشکل ہی سے سنجیدہ ہو پاتے ہیں۔ زندگی ہم سے شعور چاہتی ہے۔ ہر اہم فیصلہ شعوری سطح پر ہوتا ہے۔ تحت الشعور اور لاشعور میں بہت کچھ پایا جاتا ہے مگر وہ سب کچھ ہمارے ارادوں اور فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے باوجود کلیدی کردار ادا نہیں کرتا۔ زندگی کے لیے حقیقی کلیدی کردار شعور کی سطح پر ادا کیا جاسکتا ہے۔ ترقی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ہم باشعور ہوں یعنی تحت الشعور اور لاشعور کی بھول بھلیوں سے نکل کر اپنے آپ کو زمینی حقیقتوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ یہ سب سوچنے اور فکر کرنے سے ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیسا سوچتے ہیں۔ بلند سوچ ہمیں بلند کرتی ہے اور پست فکر ہم سے وہ بھی چھین لیتی ہے جو ہم نے بہت مشکل سے حاصل کیا ہوتا ہے۔
زندگی ہم سے اثبات چاہتی ہے۔ جو کچھ ہمیں میسر ہے اس کی موجودگی تسلیم کی جائے، رب کا شکر ادا کیا جائے اور بہتری کے لیے کوشاں رہا جائے۔ زندگی اِس سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے؟ ہم شکر گزار ہونے کی ادا بھول بیٹھے ہیں۔ زمانے بھر کی باتیں یاد ہیں مگر اِتنا یاد نہیں کہ ہمارے خالق نے ہمیں اِس لیے خلق کیا ہے کہ ہم اُس کی مرضی کے مطابق جئیں۔ اُس کی مرضی کو بالائے طاق رکھ کر جو کچھ بھی کیا جائے گا وہ بالآخر ہمیں خسارے کی طرف لے جانے پر تل جائے گا۔ روئے ارض پر ہمارا قیام جب تک ہے تب تک ہمیں زندگی کا حق ادا کرنا ہے۔ اِسے جزوی یا کُلّی‘ کسی بھی حیثیت میں منسوخ کرنے کا اختیار کسی انسان کو نہیں۔ جو ایسا کرتا ہے وہ اس نظامِ کائنات کا باغی ٹھہرتا ہے۔ خود کشی کیا ہے؟ زندگی کی تنسیخ؟ جی ہاں! خود کشی کو زندگی کی تنسیخ کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔ جن لوگوں میں حوصلہ نہیں رہتا‘ وہ زندگی کو منسوخ کرنے یعنی خود کشی کو آخری حل سمجھ بیٹھتے ہیں۔
بہت سوں کا یہ حال ہے کہ زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کی لگن پیدا کرنے پر متوجہ نہیں ہوتے۔ اُن میں صلاحیت و سکت تو پائی جاتی ہے مگر ہنر مندی کی منزل تک پہنچنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اُن کے دل میں بہت کچھ آسانی سے پانے کی تمنا انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ دلچسپی، لگن اور جوش و خروش کے بغیر کچھ خاص حاصل نہیں ہو پاتا۔ یقین نہیں آتا تو اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیجیے۔ کسی نے صلاحیت، سکت، دلچسپی، لگن اور ولولے کے بغیر کچھ خاص پایا ہو تو بتائیے۔ جو اوروں کے معاملے میں ہوا‘ وہی آپ کے معاملے میں بھی ہوگا۔ کامیابی صرف اُس وقت ممکن ہو پاتی ہے جب ہم زندگی کے معاملے میں تصدیق و توثیق کے مرحلے سے گزریں یعنی زندگی کو اُس کی تمام رعنائی، کم صورتی، مٹھاس، تلخی، رنگینی اور بے رنگی کے ساتھ قبول کریں۔ زندگی کو قبولیت کے درجے پر رکھنے کے بعد ہی ہم اُس کے ہو پاتے ہیں اور وہ ہمیں گلے لگاتی ہے۔ یہ سادہ سی بات ہے مگر کم ہی لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے۔ زندگی بسر کرنے کا معاملہ راکٹ سائنس کی جزئیات سیکھنے کا مرحلہ نہیں۔ یہ تو دو اور دو چار کا معاملہ ہے۔ جس نے سیکھنا چاہا سیکھ لیا۔
زندگی تصدیق، توثیق اور تطبیق کا معاملہ ہے۔ تطبیق یعنی اپنے آپ کو بدلتی ہوئی صورتِ حال کے مطابق بدلنا یا اپنے معاملات تبدیل کرنا۔ یہ کسی بھی مرحلے یا درجے میں تنسیخ کا کیس ہے ہی نہیں۔ خالقِ کائنات کی منشا یہ ہے کہ ہم زندگی کے کسی بھی پہلو یا معاملے کو کسی جواز کے بغیر تنسیخ سے دوچار نہ کریں، اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں‘ اِسی میں جینے کا مزہ ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved