زندگی میں آپ چند باتوں کی توقع نہیں رکھتے لیکن وہ ہو کر رہتی ہیں۔ زندگی میں جو چند خبریں میرے لیے صدمے کا سبب بنیں ان میں سے ایک ایاز امیر پر حملے کی تھی۔ ایک نوجوان میرا فیس بک پیج چلاتا ہے جہاں میرے کالم کے لنک اور شوز کے کلپس لگاتا رہتا ہے۔اس نے خبر لگائی تو مجھے بڑا جھٹکا لگابلکہ یقین نہ آیا۔ میں سمجھا اس نوجوان کو ضرور کچھ غلط فہمی ہوئی ہوگی۔ میں نے اسے فون کیا کہ یہ کہاں سے خبر آئی ہے۔اس نے مجھے تفصیلات بتائیں‘ میں نے خود بھی فوراً اس کی تصدیق کی۔میں دیر تک دکھ اور افسوس کی کیفیت میں بیٹھا رہا۔ مجھے ایاز امیر کی ہی اپنے کالموں میں لکھی بات یاد آئی کہ ہر دفعہ ہم خود کو یقین دلاتے ہیں کہ اس سے زیادہ برا کیا ہوگا اور ہر دفعہ ہم غلط نکلتے ہیں کیونکہ کوئی نہ کوئی نئی بات ایسی ہوجاتی ہے جس کا گماں تک نہ تھا۔
ایاز امیر کی تحریروں سے محبت بہت پرانی ہے۔ میں ان کی تحریروں سے اس وقت متعارف ہوا جب ملتان یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ابوبکر ہال میں کمرہB /99 الاٹ ہوا جہاں میں دو سال رہا۔ میری صبح کی روٹین ہر روز اٹھ کر نیچے ہال میں جانا تھا جہاں مختلف انگریزی ‘ اردو اخبار سٹینڈ پر لگے ہوتے اور ہر اخبار پر دو تین لڑکے مشترکہ پڑھنے کی کوشش کررہے ہوتے تھے۔ ڈان اخبار دوپہر کے بعد ملتان پہنچتا تھا لہٰذا یونیورسٹی کلاس سے واپسی پر ڈان پڑھتے اور وہیں سے مجھے ایاز امیر کو پڑھنے کی عادت پڑھی۔ عادت کیا نشہ کہیں۔اس وقت وہ ہفتہ وار کالم لکھتے تھے اور ہر کالم کا آغاز شیکسپیئر کے ڈراموں کی کسی لائن سے ہوتا۔ ایم اے انگریزی کا طالب علم ہونے کے ناتے میرے لیے وہ کالم سیاسی سے زیادہ ادبی شاہکار ہوتے۔ ایاز امیر نے فارن سروس چھوڑ کر اسلام آباد میں 'دی مسلم‘ کیلئے لکھنا شروع کیا اور پھر وہ ڈان کے بڑے کالم نگار بنے ۔وہ ایک کلاسیک سفر تھا۔ برسوں بعد میں ڈان کا ملتان میں رپورٹر لگا اور لاہور سے ڈان شروع ہوا تو انہیں لاہور نیوز روم میں دور ایک کونے میں کمپیوٹر پر لکھتے دیکھا۔ ان کا اتنا احترام اور رعب تھا مجھ پر کہ جرأت نہ ہوئی کہ جا کر ان سے ہاتھ ملائوں۔ پھر وقت گزرا اور جب ٹرانسفر ہو کر ڈان اسلام آباد پہنچا تو وہاں وہ کبھی کبھار آتے اور میری کرسی سے کچھ فاصلے پر رکھے کمپیوٹر پر بیٹھ کر کالم لکھتے۔ میں دور سے بیٹھ کر انہیں لکھتے دیکھتا۔ جب ایک دفعہ لکھ چکے ہوتے تو اسے ایڈٹ کرتے۔ وہ اکثر کالم لکھ کر چلے جاتے۔
ڈان اخبار کا اپنا کلچر تھا‘ جہاں شام کو محفلیں جمتیں۔ اسلام آباد کا سیاسی‘ سماجی اور صحافتی کلچر آپ کو اس دفتر میں ملتا جہاں ضیا الدین صاحب ہمارے بیوروچیف تھے۔ برکی صاحب‘احمد حسن علوی‘ محمد یسین‘ احتشام الحق‘ فراز‘ رفاقت‘ اکرام ہوتی‘ ناصر ملک‘ حسن اختر‘ ماموں شاہنواز (فوٹوگرافر) انصار عباسی‘ محمد الیاس جیسے بڑے صحافی موجود تھے ۔شہر بھر کے صحافی بھی آتے جاتے رہتے۔وہ ایک ڈیرہ تھا جہاں سب پائے جاتے۔ کون سا سیاستدان ہوگا جو اس دفتر کا چکر نہ لگاتا ہو۔ عمران خان کو بھی پہلی دفعہ وہیں دیکھا جہاں وہ ضیا الدین صاحب سے ملنے آتے تھے۔کراچی اور لاہور سے بھی دوست آتے خصوصا ًجس دن عبدالحمید چھاپڑا تشریف لاتے تو پورا دفتر ان کی باتوں اور قہقہوں سے گونجتا۔ وہیں کبھی کبھار ایاز امیر بھی آتے۔ یہ بات طے تھی کہ پاکستان نے یقینا بڑے اچھے انگریزی کالم نگار پیدا کیے‘ انگریزی کے کمنٹیٹرز بھی جن میں شاہین صہبائی‘ ضیا الدین‘ عامر متین‘ نصرت جاوید‘ محمد مالک شامل تھے جن کی تحریروں کا انتظار کیا جاتا تھا۔ وہ اکثر پارلیمنٹ سے ڈائری لکھتے۔ اس طرح خالد حسن نے بھی کالم نگاری میں نام پیدا کیا۔ وہ بھی کمال کی انگریزی لکھتے تھے۔ لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ انگریزی زبان میںکالم نگاری کا جو معیار ایاز امیر نے قائم کیا کوئی اس کو نہ چھو سکا۔ جتنا مطالعہ ایاز امیر نے کیا ہوا ہے‘ جس کا حوالہ وہ خوبصورتی سے اپنے کالموں میں دیتے ہیں‘ اس کا جواب نہیں۔ بہت سے لو گ کتابیں پڑھتے ہیں لیکن کتاب کا اپنی تحریر میں سمونا صرف ایاز امیر میں دیکھا۔
جب ایاز امیر نے سیاست میں قدم رکھا اور کالم نگاری ترک کی تو وہ بھی بڑا جھٹکا تھا۔میرے جیسے کئی لوگ ان کے کالموں کے عادی ہوچکے تھے۔میرے لیے وہ افسردہ دن تھے جب وہ کالم نہیں لکھ رہے تھے۔ ہماری آج کی نسل اس حوالے سے بدقسمت ہے کہ انہوں نے ایاز امیر کے ڈان اور بعد میں دی نیوز میں ویکلی کالم نہیں پڑھے۔ اس نسل نے پاکستانی سیاسی‘ سماجی اور کلچرل تاریخ کو ایاز امیر کی نظروں سے نہیں دیکھا۔
اگر میرے ایاز امیر کے فین ہونے میں کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ اس دن پوری ہوگئی جس دن قومی اسمبلی میں طالبان کو سوات مالاکنڈ میں الگ سے ڈیل دے کر قانون بنایا جارہا تھا۔ ریاست کے اندر ریاست قائم ہورہی تھی۔ مسلم خان دھمکی دے چکا تھا کہ اگر کسی ممبر نے اس بل کے خلاف ووٹ دیا تو خیر نہیں۔ اس وقت 342 کے ہاؤس میں چکوال کا بہادر سپوت‘ ایم این اے ایاز امیر کھڑا ہوا اور اس نے ایسی تقریر کی کہ پورا ہاؤس دنگ رہ گیا۔ ایاز امیر کی وہ تقریر‘ اگر میرے بس میں ہو تو پاکستان کے نصاب کا حصہ بنائی جائے۔ اکیلا جنگجو ہاؤس میں ڈٹ گیا تھا۔
ایاز امیر نے جب روزنامہ دنیا میں کالم شروع کیا تو انہوں نے خود کو پارسا ثابت کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ خود پر میک اپ نہیں کیاکہ دیکھو میں کتنا نیک انسان ہوں۔خبطِ عظمت کا شکار نہیں ہوئے۔ ایک روایتی معاشرے میں جہاں عدم برداشت اور تشدد عام سی بات ہے وہیں انہوں نے ایسے کالم لکھے کہ داد بے ساختہ دل سے نکلے۔ داد ہے''دنیا‘‘ کی ادارتی ٹیم کو جنہوں نے حوصلہ دکھا کر وہ غیرمعمولی کالمز چھاپے۔
ایاز امیر نے اپنا اندر باہر ایک رکھا اور ایسے ادبی انداز میں سماج کی گھٹن‘ شام کی محفلوں اور رات کی رنگینیوں پر کالم لکھے کہ ان کے بدترین مخالفین بھی مسکرائے یا انجوائے کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اگر میں کسی کو پاکستانی صحافت یا دانشوروں میں جینوئن لبرل سمجھتا ہوں تو وہ ایاز امیر ہیں جنہوں نے منافقت کا روپ نہیں دھارا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ جس نے جو کہنا ہے کہتا رہے وہ تو وہی لکھیں اور بولیں گے جو ان کے خیال میں لکھنا اور بولنا چاہیے۔ ٹی وی شوز ہوں یا کالمز‘ انہوں نے کمپرومائز نہیں کیا۔ وہ نہ جھکے نہ ڈگمگائے۔ انہوں نے ایسی ایسی باتیں لکھیں اور بولیں جن کیلئے پہاڑ جتنا حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ ان کے بے پناہ مطالعہ نے ان کو ذہنی طور پر ایسا باغی بنا دیا ہے کہ وہ اب چاہیں بھی تو خود کو نہیں روک پاتے۔ وہ اکثر لکھتے ہیں کہ جب وہ عمر کی ستر سے زائد بہاریں دیکھ چکے تو ان کی بلا سے کوئی کیا سوچتا یا کہتا ہے۔ سقراط یاد آتا ہے کہ بہتر سال کی عمر میں بھی بندہ خوفزدہ زندگی گزارے اور اپنے افکار کا اظہار نہ کرے تو کیا کرنا ہے اس زندگی کا۔
ایاز امیر نے جو کچھ عمران خان کے منہ پر تقریب میں کہا وہ میرے لیے حیران کن نہیں کہ وہ برسوں سے یہی کچھ لکھتے آئے ہیں۔ اگر وہ اپنی زندگی اور اپنے بارے میں سچ بولنے سے نہیں گھبرائے تو وہ دوسروں کے بارے کیوں گھبراتے؟ اپنے بارے سچ بولنا یا لکھنا سب سے مشکل ہوتا ہے اور وہ یہ کام بڑی آسانی سے روز کرتے ہیں۔ ان کے اندر کا باغی انہیں کبھی چین سے نہیں بیٹھنے دے گا چاہے وہ لاکھ کوشش کریں۔امریکی ادیب مارک ٹوئین کی بات یاد آئی کہ دوست ہوں‘ کتابیں ہوں لیکن ضمیر مردہ ہو تو زندگی بڑی خوبصورت ہے۔مارک ٹوئین کو علم تھا کہ کتابیں بھلا کب آپ کا ضمیر مرنے دیتی ہیں۔اگر شک ہے تو ایاز امیر کو پڑھ لیں یا سن لیں۔ کتاب آپ کو مروا دے گی لیکن آپ کا ضمیر نہیں مرنے دے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved