پاکستان میں رائج جمہوریت چند خاندانوں تک محدود ہے۔ انہی خاندانوں کی نئی نسل سیاسی خلا کو پُر کرتی ہے۔ماسوائے جماعت اسلامی کے ہر پارٹی کے اندر اس کی مثالیں موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں کسی حلقے میں پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو فوری پُر کرنے کی کوشش کرتی ہیں‘ تاہم شہرِ اقتدار اسلام آباد‘ راولپنڈی اور پوٹھوہار کے چند حلقے ایسے ہیں جہاں پر سیاسی خلا موجود ہے جسے پُر کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں نے نظریں جما لی ہیں۔ راولپنڈی میں سیاسی خلا کی بات کی جائے تو سب سے پہلے ذہن چوہدری نثار علی خان کی طرف جاتا ہے جو 2018ء کے انتخابات کے بعد سے گوشہ تنہائی میں ہیں۔اس عرصہ کے دوران ان کا سیاسی خلا پُر نہیں ہو سکا ہے۔اس سیاسی خلاکی بنیادی وجہ نواز شریف اور چوہدری نثار علی کے درمیان وہ گلے شکوے ہیں جو تحریک انصاف کے 2014ء کے دھرنے کے بعد پیدا ہونا شروع ہوئے۔حالانکہ اس سے قبل شریف فیملی کے ساتھ ان کی طویل رفاقت رہی‘ تاہم پانامہ لیکس کے بعد جب انہوں نے شریف فیملی کے خلاف کھل کر بولنا شروع کیا تو میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی کے درمیان 2018ء کے الیکشن سے قبل ہی اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔یہ اختلافات اس قدر بڑھے کہ چوہدری نثار علی نے مسلم لیگ (ن) کے نشان پر الیکشن میں حصہ لینے کے بجائے آزاد امیدوار کے طور پر جیپ کے نشان پر حصہ لیا مگر وہ ٹیکسلا کی نشست تحریک انصاف کے غلام سرور خان سے ہار گئے۔ان کی ہار کی ایک وجہ سردار ممتاز خان تھے جو مسلم لیگ (ن )کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔سردار ممتاز خان خود تو کامیاب نہ ہو سکے البتہ مسلم لیگ (ن) کا ووٹ تقسیم ہونے کی وجہ سے چوہدری نثار علی کی ہار میں اہم کردار ادا کیا‘ حالانکہ 1985ء سے 2013ء تک چوہدری نثار علی کو مسلسل آٹھ بار کامیاب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔بڑی جماعتوں اور خاندانوں کے برعکس چوہدری نثار علی نے فی الحال اپنی اولاد کو سیاسی معاملات سے دور رکھا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے کٹنے اور الیکشن 2018ء میں قومی اسمبلی کی نشست ہارنے کے بعد راولپنڈی میں سیاسی خلاپیدا ہو چکا ہے۔ کیا چوہدری نثار علی اگلے انتخابات میں قومی سیاست میں کم بیک کریں گے یا سیاسی جماعتیں ان کے خلاکو پُر کرنے کی کوشش کریں گی؟
دوسری جانب حاجی نواز کھوکھر کا شمار ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے راولپنڈی میں پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی۔وہ پیپلزپارٹی اسلام آباد کے جنرل سیکرٹری اور قومی اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کے عہدے پر فائز رہے۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قریبی سمجھے جانے والے رہنما تھے۔ان کی وفات پر بلاول بھٹو زرداری نے ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے مشکل وقت میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا ساتھ دیا۔ حاجی نواز کھوکھر کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر ان کے سیاسی جانشین ہیں۔ وہ بلاول بھٹو کے ترجمان رہ چکے ہیں۔ راولپنڈی میں کھوکھر ہاؤس کو اب بھی پیپلزپارٹی کی پہچان سمجھا جاتا ہے‘ یوں حاجی نواز کھوکھر کی وفات کے بعد بھی یہ سیاسی خلا نہ صرف پُر ہے بلکہ پہلے کی نسبت اس میں مضبوطی آئی ہے تاہم راولپنڈی میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک ضرور متاثر ہوا ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کی راولپنڈی سے قومی اسمبلی میں نشستیں نہیں ہیں۔ قومی اسمبلی میں یہ خلا راجہ پرویز اشرف نے کسی حد تک پُر کیا ہے جو راولپنڈی کی تحصیل گوجر خان سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے اور اب قومی اسمبلی میں سپیکر کے عہدے پر فائز ہیں۔ راولپنڈی‘ اسلام آباد اور پوٹھوہار میں پیپلزپارٹی کی قومی اسمبلی میں واحد سیٹ سے اس جماعت کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد راولپنڈی پا رٹی قیادت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے جس کی وجہ سے پیپلزپارٹی کی حد تک ایک سیاسی خلا موجود ہے۔ زمرد خان راولپنڈی میں پیپلزپارٹی کیلئے پلس پوائنٹ تھے لیکن جب سے انہوں نے بیت المال اور سویٹ ہومز کی خدمات کو اختیار کیا ہے انہوں نے عملی سیاست کو خیرباد کہہ دیا ہے۔پیپلزپارٹی کے کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ پارٹی نے بہت کوشش کی کہ زمرد خان سیاست میں واپس آ جائیں تاہم وہ پارٹی سے وابستگی باقی رکھنا چاہتے ہیں مگر عملی سیاست میں آنے کیلئے آمادہ نہیں۔ یہ عوامل پیپلزپارٹی کیلئے پوٹھوہار میں مشکلات کا باعث بن جاتے ہیں۔
پوٹھوہار کو مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا تھا الیکشن 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کو راولپنڈی اور گرد و نواح سے نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی‘ حنیف عباسی‘ چوہدری نثار علی اور اس وقت کے لیگی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے مثالی تعلقات ہونے کے باعث ترقیاتی کاموں کا جال بجھا دیا گیا تھا‘ میٹرو بس‘ مری روڑ پر فلائی اوور اور ہسپتال حنیف عباسی کی زیر نگرانی مکمل ہوئے مگر الیکشن 2018ء سے چند روز قبل حنیف عباسی ایفی ڈرین کیس میں پھنس گئے جس سے مسلم لیگ (ن) کو راولپنڈی میں بڑا دھچکا لگا۔اس کا فائدہ شیخ رشید نے اٹھایا ۔پنڈی سے ان کی نشست‘ ان کے بھتیجے شیخ راشد شفیق کی ایک نشست‘جبکہ اسلام آباد سے اسد عمر اور راجہ خرم نواز کی کامیابی سے تحریک انصاف کو مسلم لیگ (ن) پر برتری حاصل ہو گئی۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن )اور تحریک انصاف کے درمیان ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کی نسبت تحریک انصاف نے اسلام آباد کی نشستوں کو حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد سے اسد عمر جبکہ ٹیکسلا سے غلام سرور خان کامیاب ہو گئے‘ البتہ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کی شکل میں مسلم لیگ (ن) کو ایک ہیوی ویٹ سیاستدان مل گیا جنہوں نے پیپلزپارٹی کے نیئربخاری کو شکست سے دو چار کیا حالانکہ نیئر بخاری برسوں سے اسلام آباد سے کامیاب ہوتے آ رہے تھے لیکن 2018ء کے انتخابات میں وہ تحریک انصاف کے راجہ خرم نواز سے شکست کھا گئے۔شکست کے باوجود ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو حلقے میں پسند کیا جاتا ہے‘ توقع ہے کہ وہ اگلے الیکشن میں کم بیک کریں گے اور الیکشن 2018ء میںپیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پُر کریں گے۔
ظفر علی شاہ مسلم لیگ (ن) کے دیرینہ رہنما تھے وہ نواز شریف کے قریبی دوست سمجھے جاتے تھے مگر اپنے داماد ذلفی بخاری کے کہنے پر انہوں نے 2018ء کے انتخابات سے محض چند روز قبل تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی‘ لیکن سیاسی اعتبار سے وہ تنزلی کا شکار ہو گئے یہاں تک کہ اسلام آباد میں میئر کے انتخاب کیلئے کھڑے ہوئے اور ہار گئے۔ ذلفی بخاری عمران خان کی رفاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے مگر ظفر علی شاہ کی برسوں کی سیاست ختم ہو گئی۔ یوں ظفر علی شاہ کی سیاست ختم کرنے میں ان کے داماد کا اہم کردار بنتا ہے۔
پوٹھوہار کی ایک اور اہم نشست شاہد خاقان عباسی کی سمجھی جاتی ہے مگر 2018ء کے الیکشن میں وہ عمران خان سے شکست کھا گئے تھے۔ 2018ء کے الیکشن میں عمران خان چونکہ پانچ نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے جس سے نیا ریکارڈ قائم ہوا تھا مگر انہیں ایک نشست کے علاوہ باقی نشستیں چھوڑنا تھیں‘ تاہم شاہد خاقان عباسی اپنی نشست ہار چکے تھے جنہیں کامیاب کرانے اور قومی اسمبلی میں واپس لانے کیلئے لاہور کے حلقہ این اے 124 سے ضمنی انتخاب کا سہارا لیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کی منصوبہ بندی سے شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی میں واپس تو آ گئے مگر ان کے حلقے این اے 53 میں پیدا ہونے والا خلا پُر نہیں ہو سکا ۔ کالم کا دامن تنگ ہے اس لئے خطۂ پوٹھوہار کے کئی اہم حلقوں کا ذکر نہ ہو سکا البتہ یہ بات واضح ہے کہ اقتدار کے مرکز اسلام آباد اور گرد و نواح میں بہرحال سیاسی خلا موجود ہے جو جماعت اس کو پُر کرے گی اسے اگلے الیکشن میں فائدہ ہو گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved