پاکستانی سیاست میں بھونچال کی کیفیت میں کمی آتی دکھائی دے رہی ہے۔ اپوزیشن کافی حد تک معاملہ فہمی سے کام لے رہی ہے۔ نظام کو روکنے کے دعووں اور کوششوں میں بھی کمی آتی محسوس ہو رہی ہے۔ جمہوریت کا حسن بھی یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کیا جائے اور نظام کو چلنے دیا جائے۔ برداشت کرنے کا مطلب یہ نہیں لیا جانا چاہیے کہ ملک کو نقصان پہنچانے والے فیصلوں پر بھی خاموشی اختیار کر لی جائے۔ بروقت اصلاح کرنے کے لیے مثبت تنقید کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے۔ جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ تعمیری سیاست قوموں کی زندگیاں بدلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید ہمارے سیاستدان خصوصاً اپوزیشن سیکھنے کے مرحلے سے گزر رہی ہے۔ جس کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔ لیکن امن کے اس ماحول میں ایک بری خبر نے سیاسی اور عوامی حلقوں میں خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔ جس پر بات کی جانے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کے دانشور‘ کالم نگار‘ تجزیہ کار اور عام آدمی کی سوچ کو متاثر کرنے والے افراد معاشرے کی اصلاح کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی باتیں کڑوی ہو سکتی ہیں لیکن سیکھنے اور سمت کو درست کرنے کے لیے مزاج کے خلاف جا کر سخت باتیں برداشت کرنا کامیابی کے کئی دروازے کھول سکتا ہے۔ یہ ایک تربیت کی مانند ہے۔ جس کے نتائج بعد میں سامنے آتے ہیں۔ اگلے روز دنیا نیوز کے معروف اور سینئر تجزیہ کار ایاز امیر صاحب پر لاہور میں حملہ ہوا۔ حملہ کس نے کیا اور کیوں کیا‘ اس بارے میں ابھی تک کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن اس سے معاشرے کا جو پہلو ابھر کر سامنے آیا ہے‘ وہ شاید حوصلہ افزا نہیں ہے۔ ایاز صاحب پر کیے گئے حملے کو‘ ان کی چند دن پہلے کی ایک تقریر سے جوڑا جا رہا ہے۔ جس میں انہوں نے ملک کے سیاستدانوں اور دیگر مقتدر حلقوں کو مخاطب کرکے اصلاح کے حوالے سے بات کی تھی۔ اس طرح کے حملے معاشرے کی سمت درست کرنے میں بڑی رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ جس سے ملک میں عوام کی اکثریت کے منفی سوچ کے ساتھ پروان چڑھنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ زبان بندی سے حق اور سچ دفن ہونے لگتے ہیں۔ صحیح اور غلط کی تمیز مشکل ہو سکتی ہے اور جنگل کا قانون رائج ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ جن معاشروں میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کو قانون ماننا شروع کر دیا جائے وہاں روشن خیالی اور قومی ترقی ایسے خواب کی حیثیت اختیار کر سکتے ہیں جسے صرف سوچا جا سکتا ہے‘ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ آزادیٔ رائے کا گلا مزید دبانے سے بچانے کے لیے ایاز امیر صاحب پر ہونے والے حملے کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کی بروقت‘ مکمل صاف اور شفاف تحقیقات ملزمان تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ جس میں زیادہ ذمہ داری وزرات داخلہ پر عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ عوامی اور اقتدار کے حلقوں میں یہ سوال سر اٹھانے لگا ہے کہ اگر ملک کی معروف ترین شاہراہ پر میڈیا ہاوس کے ہیڈ آفس کی قریب ایک معروف صحافی کو تقریباً پانچ چھ لوگوں کی جانب سے سر عام تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو عام آدمی خود کو کس طرح محفوظ تصور کر سکتا ہے۔ یہ معاملہ اہم ہے اور اس پر انتہائی ذمہ داری کے ساتھ پہرہ دینے کی ضرورت ہے۔ صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں جس حد تک ممکن ہو اس معاملے کو حتمی انجام تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آنے والے دنوں میں یہ کیس کیا رخ اختیار کرتا ہے اس بارے کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ لیکن جس خبر نے غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عوام کو زیادہ پریشان کر رکھا ہے وہ پاکستان ادارۂ شماریات کی جانب سے جاری کیے گئے مہنگائی کے حالیہ اعدادوشمار ہیں۔
ملک میں جون کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 21 فیصد ہوگئی جو 2008ء کے بعد 13سال سے زائد عرصے کی بلند ترین شرح ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں زیادہ سے زیادہ مہنگائی 14 فیصد رہی تھی جبکہ رواں سال مئی کے مقابلے جون میں مہنگائی کی شرح میں 6 فیصد کا بڑا اضافہ ہوا۔ جون میں شہری مہنگائی کی شرح 6 فیصد سے زائد جبکہ دیہی علاقوں میں 7 فیصد سے زائد بڑھی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق مئی 2022ء میں مہنگائی کی شرح 14 فیصد تھی جبکہ جون 2021ء میں مہنگائی کی شرح تقریباً 10 فیصد تھی۔ جون2022ء میں دیہی علاقوں میں مہنگائی کی شرح 23 فیصد رہی جبکہ جون میں شہری علاقوں میں مہنگائی 21 فیصد رہی۔ مالی سال 2021-22ء کے لیے مقرر کردہ 8 فیصد اوسط مہنگائی کا ہدف بھی حاصل نہ ہوسکا اور گزشتہ مالی سال میں اوسط مہنگائی سوا بارہ فیصد رہی۔ متعدد شعبوں میں دوہرے ہندسے کی مہنگائی دیکھی گئی لیکن یہ رجحان زیادہ تر ٹرانسپورٹ کے شعبے میں دیکھا گیا جس میں 62 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ خراب ہونے والی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 36 فیصد اضافہ ہوا۔ تیل کی قیمتوں کے حوالے سے پچھلے ماہ لیے گئے حکومتی فیصلوں کے بعد مہنگائی کے یہ اعدادوشمار متوقع تھے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات اٹھائے جائیں گے یا پھر ہوا کے رخ کے ساتھ مہنگائی میں مزید اضافہ ہو تا رہے گا۔ اگر حالات کا حقیقی جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ آنے والے دن بھی زیادہ اچھے دکھائی نہیں دے رہے۔ کیونکہ یکم جولائی سے پٹرول کی قیمت میں فی لٹر 14 روپے 85 پیسے کا اضافہ کرنے کے بعد نئی قیمت فی لٹر 248 روپے 74 پیسے ہوگئی جبکہ ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 5 روپے لیوی سمیت 13 روپے 23 پیسے کا اضافہ کردیا گیا اور فی لٹر نئی قیمت 276 روپے 54 پیسے ہوگئی۔ مٹی کے تیل پر بھی 5 روپے جزوی لیوی سمیت 18 روپے 83 پیسے کا اضافہ کردیا گیا ہے اور فی لٹر نئی قیمت 230 روپے 26 پیسے ہوگئی ہے۔ لائٹ ڈیزل آئل (ایل ڈی او) پر 5 روپے جزوی لیوی کے ساتھ 18 روپے 68 پیسے بڑھا دیے گئے ہیں اور لائٹ ڈیزل کی نئی قیمت 226 روپے 15 پیسے ہوگئی ہے۔ اس اضافے کا اثر اگلے ماہ کی رپورٹ میں سامنے آ سکے گا۔ اس کے علاوہ یہ اضافہ مستقل بنیادوں پر کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ہر ماہ ٹیکس لیوی بڑھا کر پچاس روپے فی لٹر تک لے جائی جائے گی۔
ان حالات میں کچھ اچھی خبریں بھی آ رہی ہیں جن کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ''مجھے یہ بتاتے ہوئے بڑی خوشی ہے کہ 720 میگاواٹ کے کروٹ پن بجلی منصوبے نے کام شروع کر دیا ہے۔ یہ سی پیک کے تحت مکمل ہونے والا پن بجلی کا پہلا منصوبہ ہے۔ میں اس منصوبے میں تعاون پر چینی حکومت کا شکرگزار ہوں‘‘۔ وزیراعظم کا بیان حوصلہ افزا ہے۔ ڈیزل اور ایل این جی کی کمی کے باعث ملک میں جاری لوڈشیڈنگ سے عوام پریشان ہیں۔ امید ہے کہ یہ منصوبہ ملکی ضرورت کی سستی بجلی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکے گا۔ لیکن اس ٹویٹ میں مکمل کریڈٹ صرف (ن) لیگ کو دینا مناسب دکھائی نہیں دیتا۔ تحریک انصاف کی ساڑھے تین سالہ حکومت میں اس منصوبے پر مستقل کام ہوتا رہا ہے۔ نئی اتحادی حکومت کے اڑھائی ماہ میں خاص کام نہیں ہوا ہے۔ موجودہ حکومت شاید کریڈٹ لینے میں پیش پیش ہے لیکن ملکی مفاد میں کیے گئے کاموں کی تعریف کرنا ضروری ہے‘ چاہے وہ سیاسی مخالفین نے ہی کیے ہوں۔ وزیراعظم کو یہاں پر بڑے پن کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن انہوں نے ٹویٹ میں کہا کہ ''گزشتہ حکومت کے پونے چار سال میں اس منصوبے پر کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی‘‘۔ جو کہ حقائق کے برخلاف دکھائی دیتا ہے۔ خیر اس کا کریڈٹ کوئی بھی لینے کے کوشش کرے لیکن اصل فائدہ پاکستان کا ہوا ہے جس پر پاکستانی قوم مبارکباد کی مستحق ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved