تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-07-2022

’’مزا نہیں آرہا‘‘

مزا نہ آئے تو پیسے واپس۔ عمومی گفتگو میں یہ جملہ آپ نے کئی بار سنا ہوگا۔ کیا حقیقی زندگی میں ایسا ہوتا ہے؟ ہم نے کبھی نہیں دیکھا ایسا ہوتے ہوئے۔ ہو سکتا ہے کسی زمانے میں ایسا ہوتا ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے آج بھی کہیں کہیں ایسا ہوتا ہو مگر ایسا ہوتا بھی ہوگا تو بہت چھوٹے پیمانے پر۔ کسی بھی چیز کو خریدنے کے بعد واپس کرنا کلاسک نوعیت کا دردِ سر ہے۔ اگر چیز کو برائے نام بھی استعمال نہ کیا گیا ہو تب بھی دکان دار آسانی سے واپس نہیں لیتا۔ ذہنوں میں یہ تصور گھر کرگیا ہے کہ جو چیز ایک بار بیچ دی پھر اُسے واپس نہیں لینا یا اُس کے بدلے کچھ اور نہیں دینا۔
کیا زندگی کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے؟ مزا نہ آنے پر ہر بار پیسے واپس ملتے ہیں؟ یا مل سکتے ہیں؟ سچ یہ ہے کہ مزا نہ آنے پر پیسے واپس ملنے والی بات محض ایک بات ہی ہے‘ اس کا زندگی کی تلخ سچائیوں سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ زندگی محض برداشت کا نام ہے۔ جو جتنی دیر کسی معاملے کو برداشت کر سکتا ہے وہ اُتنی ہی دیر کامیاب رہتا ہے۔ چند بنیادی سوال تقریباً ہر اُس انسان کے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں جو بامقصد زندگی یقینی بنانے کے معاملے میں سنجیدہ ہو۔ سوچنا پڑے گا کہ مزا آخر ہے کیا؟ ہم کسی بھی خالص معاشی یا یکسر غیرمعاشی سرگرمی سے مزا کب پاتے ہیں یا پا سکتے ہیں؟ کیا لازم ہے کہ جو کام ہم کسی صلے کے لیے کر رہے ہوں وہ مزا بھی دے؟ کیا دنیا بھر میں اسی تصور کے تحت کام ہو رہا ہے کہ مزا آنا چاہیے؟اس بنیادی حقیقت سے تو کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ کسی معاشی سرگرمی سے وہ لطف کبھی کشید نہیں کیا جا سکتا جو خالص غیرمعاشی یعنی معاشرتی سرگرمیوں میں پایا جاتا ہے۔ ہر انسان معاشی سرگرمی کے دوران ایک خاص طرح کا دباؤ یا تناؤ محسوس کرتا ہی ہے۔ کسی سرگرمی کا معاشی ہونا ہی انسان کے ذہن پر دباؤ بڑھانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ روزانہ کتنے لوگ خوشی خوشی کام پر جاتے ہیں؟ ایسے لوگوں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جو اپنی معاشی سرگرمیوں سے بھرپور لطف کشید کرتے ہوئے زندگی کو رنگا رنگ بناتے ہیں۔
نفسی امور اور کارپوریٹ کلچر پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ کسی بھی شخص کی کامیابی کا دارومدار اصلاً اس بات پر ہے کہ وہ اپنے کام سے کس حد تک مطمئن رہتا ہے‘ کام کرنے میں اسے کتنا مزا آتا ہے۔ دنیا بھر میں وہی لوگ اپنے کام سے فی الواقع لطف کشید کرتے پائے گئے ہیں جنہوں نے اپنے مشغلے کو معاشی سرگرمی بنایا ہے۔ ایسی حالت میں معاشی سرگرمی بوجھ نہیں رہتی‘ بہت حد تک قابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ مشاغل سے کماکر اچھی زندگی بسر کرتے ہیں کیونکہ اُنہیں اپنے کام میں بہت لطف محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔ کسی بھی معاشی سرگرمی کے نتیجے میں جسم اور ذہن دونوں پر دباؤ پڑتا ہے۔ اگر مشغلے کو معاشی سرگرمی میں تبدیل کیا جائے تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے مگر شدت خاصی کم ہوتی ہے اور یہ شدت اُس وقت مزید کم ہو جاتی ہے جب کام سے لطف بھی محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔
آج کی دنیا میں ایک رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ ایک طرف تو بے روزگاری ہے۔ چھانٹی کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور دوسری طرف لوگ یہ کہتے ہوئے بہت مزے سے نوکری چھوڑ دیتے ہیں کہ مزا نہیں آرہا۔ بعض شعبوں میں دوبارہ نوکری ملنے کی گنجائش تھوڑی زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے شعبوں سے وابستہ افراد کسی بھی نوکری کو چھوڑنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ کیا لازم ہے کہ شعبہ مضبوط ہو تو بات بات پر نوکری چھوڑی جائے؟ نوکری سے کھلواڑ کرنا بہتر ہے؟ ماہرین کہتے ہیں کہ جو لوگ کہیں ٹِک کر کام نہیں کرتے یعنی بات بات پر نوکری چھوڑنے کی روش اپناتے ہیں وہ بالآخر اپنے لیے مشکلات ہی پیدا کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں بھی بات بات پر نوکری چھوڑنے یا نوکری چھوڑنے کی بات کرنا بعض شعبوں میں فیشن کا درجہ اختیار کرتا جارہا ہے۔ ملک بھر میں بے روزگاری ضرور ہے مگر ہر شعبے میں بے روزگاری نہیں۔ بعض شعبوں میں اچھی ملازمتیں اب بھی آسانی سے مل جاتی ہیں۔ ایسے میں کچھ لوگ روزگار کے مواقع سے کھلواڑ کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ یہ سب کچھ اُنہیں بہت مزا دیتا ہے۔ جہاں بھی کام کرنے میں تھوڑی سی دشواری محسوس ہوتی ہے یہ لوگ ''مزا نہیں آرہا‘‘ کہتے ہوئے کہیں اور جانے کی بات کرنے لگتے ہیں اور پھر ایسا کر ہی گزرتے ہیں۔ یہ کسی بھی اعتبار سے کوئی پسندیدہ عمل نہیں۔ کیا کسی بھی ملازمت کو محض یہ کہتے ہوئے چھوڑنے میں دانش مندی ہے کہ مزا نہیں آرہا؟ مزا تو پھر کہیں بھی نہیں آئے گا۔ کام صرف کام ہوتا ہے۔ اُس سے لطف اُسی وقت کشید کیا جا سکتا ہے جب ہم خود ایسا کرنا چاہیں۔ معاشی سرگرمی سنجیدگی چاہتی ہے۔ کچھ کمانے کے لیے جو بھی کام کیا جائے وہ سنجیدگی اور وقار کے ساتھ ہی کیا جائے تو اچھا ہے۔ ہاں‘ مزاج کی شگفتگی برقرار رکھتے ہوئے کام سے محظوظ ہونے میں بھی کوئی قباحت نہیں مگر یہ عمل اِتنا زیادہ نہ ہو کہ سنجیدگی ایک طرف رہ جائے اور کارکردگی متاثر ہو۔ اولین ترجیح کارکردگی ہونی چاہیے نہ کہ تفنّنِ طبع۔
ڈھونڈنے پر آپ کو ایسے ادارے بھی دکھائی دیں گے جن میں کام کا ماحول بہت ہلکا پھلکا ہوتا ہے یعنی لوگ بالکل ایسے کام کر رہے ہوتے ہیں جیسے پکنک منارہے ہوں۔ یہ اچھی بات ہے کہ کام کاماحول زندہ دلی پر مبنی ہو۔ زندہ دلی اور شگفتگی سے مزین ماحول میں کیے جانے والے کام کا معیار بلند ہوتا ہے۔ بالکل درست مگر سنجیدگی اور نظم و ضبط شرط ہے۔ شگفتگی اور بذلہ سنجی پر مبنی ماحول میں کام کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان کام کو سنجیدگی سے نہ لے۔ اس حقیقت پر غور کیا جانا لازم ہے کہ جہاں کوئی معاشی سرگرمی انجام کو پہنچتی ہو وہاں ماحول پُرلطف بھی ہونا چاہیے‘ تفنّنِ طبع کی گنجائش بھی نکالی جانی چاہیے‘ مزاج کی شگفتگی بھی برقرار رہنی چاہیے تاہم یہ سب کچھ ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ اصل چیز ہے کام۔ اگر کام کا معیار بلند نہ ہو‘ آجر کارکردگی سے مطمئن نہ ہو اور کسٹمرز بھی شکایت کرتے پائے جائیں تو کام کے ماحول کی ساری شگفتگی کسی کام کی نہیں۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں یہ نکتہ سیکھنا ہے کہ زندگی کا معاشی پہلو کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تمام ترقی یافتہ اقوام کے لوگوں میں کام سے محبت اور سنجیدگی بنیادی قدر کے طور پر ملتی ہے۔ بعض غیرترقی یافتہ ممالک نے بھی کام سے محبت کو حرزِ جاں بنا رکھا ہے۔ چند ایک چھوٹے اور قدرے غریب ممالک میں بھی لوگ خاصے نظم و ضبط کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور کام سے لُطف کشید کرنے کے ساتھ ساتھ اُس کا معیار بلند کرنے پر بھی متوجہ رہتے ہیں۔ انفرادی سطح پر بھی لوگ اُسی وقت خوش رہ سکتے ہیں جب وہ کسی معاشی نظم کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ معاشی سرگرمیوں کے معاملے میں لاپروائی پر مبنی یا آوارہ گرد کا سا رویہ انسان کو ہمیشہ پریشانی سے دوچار رکھتا ہے۔ معاشی سرگرمیوں میں مصروف رہنا انسان کی مجبوری ہے کہ اس کے بغیر زندگی ڈھنگ سے گزر نہیں سکتی مگر یہ نکتہ کبھی ذہن سے محو نہ ہو کہ معاشی معاملات میں معتدل رویہ اپنائے بغیر کوئی بھی اپنا وقت اچھی طرح نہیں گزار سکتا۔ معاشی پہلو کا توازن پوری زندگی کو متوازن رکھتا ہے۔ معاشی معاملات کی غیریقینی کیفیت خیالات کو انتشار کی حالت میں رکھتی ہے۔
پاکستانیوں کو اس نکتے پر پوری توجہ دینی ہے کہ معاشی سرگرمیاں مضبوط زندگی کی کلیدی بنیاد ہوتی ہیں‘ اس لیے اُن کے حوالے سے خاطر خواہ سنجیدگی لازم ہے۔ انسان گھر چلانے کے لیے جو کچھ کرتا ہے وہ پوری سنجیدگی اور وقار کے ساتھ کرے اور کام کے ماحول کو شائستہ و شگفتہ رکھنے پر بھی متوجہ ہو۔ جو کام کرنا ہی ہے اُسے دل جمعی‘ خوش اسلوبی اور خوش مزاجی کے ساتھ کرنے میں کیا ہرج ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved