رجب طیب ایردوان کی قیادت میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے کارنامے بے شمار ہیں۔ ترک معاشرہ اور اس کی بالادست قوتیں سیکولر انتہا پسندی کی آخری حدوں کو چھو رہی تھیں ۔ پون صدی قبل اپنے نجات دہندہ مصطفیٰ کمال کا پڑھایا سبق انہیں اچھی طرح یاد تھا ۔ یہ کہ اسلام اور مذہبی اقدار میں ان کی بربادی ہے ؛حتیٰ کہ خواتین کا سر ڈھانپنا بھی ایک جرم تھا ۔ مصطفی کمال کی قیادت میں ترکوں نے بقا کی جو کامیاب جنگ لڑی ، اس نے فوج کو طاقت کا سرچشمہ بنا ڈالا ۔ ہر قسم کے اسلحے سے لیس ، وہ اتاترک کے نظریے کی محافظ تھی ۔ پہلی بار اب ایک ایسے شہسوار سے اس کا پالا پڑا ، جس نے ترکوں کے دل جیت لیے تھے۔اپنی کارکردگی اور عوامی مقبولیت کے بل پر رجب طیب ایردوان نے فوج سے سول کی بالادستی واپس چھینی ۔ فوج کو وہ ضرب لگاتا رہا لیکن ایسے کہ کوئی بحران جنم نہ لے سکا اور نہ کسی کو اس کا تختہ الٹنے کا موقع ملا۔ عرب بہار نے بہت سے ممالک میں انقلاب جنم دئیے لیکن مغرب کی پشت پناہی رکھنے والے موقع پرست بھی میدان میں اترآئے ۔ مے ہاتھ میں اٹھائے،ایک سیکولر ہجوم رجب طیب ایردوان کے خلاف سڑک پہ نکل آیا لیکن بالآخر نامراد گھروں کو لوٹا۔حکمران جماعت نے فوج کو کبھی نہ بھولنے والی شکست دی تھی لیکن مداخلت کا وہ خواب بھی دیکھ نہ سکی ۔ اسرائیل اور امریکا سمیت عالمی استعمار اس آدمی سے عاجز تھالیکن کچھ کر نہ سکا۔ 2009ء میں ورلڈ اکنامک فورم میں اسرائیلی وزیراعظم کا خطاب طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا تو رجب طیب ایردوان نے انہیں ٹوک دیا۔ پوچھا کہ ان کی آواز اس قدر بلند کیوں ہے ؟ کیا احساسِ جرم نے بے چین کر ڈالا ہے ؟ایک عجیب شان سے اس جرّی مرد نے کہا کہ ساحل پہ مرنے والے بچے اسے خوب یاد ہیں ۔یہ بھی کہ بربریت اب حد سے گزر چکی ہے ۔سپیکر نے مداخلت کی تو کہا کہ صیہونی وزیر اعظم کو ان سے دو گنا وقت کیوں دیا گیا ؟ احتجاجاً کانفرنس ادھوری چھوڑ کر وہ روانہ ہو گئے تو وطن میں ایک ہیرو کی طرح استقبال ہوا ۔ مئی 2010ء میںمظلوم فلسطینیوں کے خلاف غزہ کا اسرائیلی محاصرہ توڑنے کے لیے ترک این جی او اور انسانی حقوق کے علمبرداروںنے فریڈم فلوٹیلا کے نام سے امدادی سامان کا ایک بحری کارواں روانہ کیا ۔ اسرائیل نے حملہ کیا اور 9ترک شہید کر دئیے تو رجب طیب ایردوان بپھر گئے۔ اسرائیل کو انہوںنے ناکوں چنے چبوا ئے ۔بالآخر اسے معافی مانگنا پڑی ۔ اس اسرائیل کو، جس کے نزدیک ایک یہودی کی جان دنیا بھر کے انسانوں سے قیمتی ہے اورجسے کبھی شرمندہ نہ دیکھا گیا۔ حشر کے دن وہ گنہگار نہ بخشا جائے جس نے دیکھا تری آنکھوں کا پشیماں ہونا 2012ء میں برما میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے اور اکثر مسلم حکمرانوں پر جب موت طاری تھی تو یہ ترکی تھا، جس نے آواز بلند کی ۔ دوماہ قبل مصر میں صدر مرسی کی ناجائز برطرفی اور مظاہرین کے خلاف طاقت کے وحشیانہ استعمال پر بھی وہ چپ نہ رہا ۔ ا س سلسلے میں ایران کے قصیدے بھی لکھے جا رہے ہیں ۔ ایسا کرنے سے پہلے شام میں ایک لاکھ مسلمانوں کو قتل کر ڈالنے والی شامی حکومت کے لیے فرقہ ورانہ بنیادوں پر ایرانی حمایت کو بھولنا نہ چاہیے ۔ ایرانی بنیاد رکھنے والی حزب اللہ ظالم شامی فوج کے شانہ بشانہ لڑرہی ہے ۔دوسری طرف ترکی نے شامی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی مفادات کا تحفظ ایران کے نزدیک اہم ہے۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ اسلامی جماعتیں ہوں یا سیکولر، دیر پا اقتدار ، معاشرے میں مثبت تبدیلی اور ملکی و عالمی استعمار سے اپنے وطن کی حفاظت کا راستہ صرف اور صرف مثالی کارکردگی سے جڑا ہے ۔مکمل تیاری کے ساتھ انہیں میدان میں اترنا چاہیے کہ موقع ملنے پرعوام کا معیارِ زندگی بہتر کیسے بنایا جائے گا، معیشت کی تعمیر، موزوں دفاعی پالیسیاں اور فوجی مداخلت سے محفوظ رہنے کا طریقہ انہیں ازبر ہونا چاہیے ۔ عوامی خدمت جو انجام دے گا، اسی کی سیاست برگ و بار لائے گی ۔ صدر مرسی کا تختہ الٹنے میں ملکی اور عالمی استعمار کا کردار شرمناک ہے۔ خود ان کی غلطی کس قدرتھی ، اس بارے میں رائے عامہ منقسم ہے مگر ظلم کا جو پہاڑ جمہوریت کے نام لیوائوں پہ توڑا جار ہا ہے ، اس کا جواز کیا ہے اور مسلمان ممالک کی بے حسی کا کیا؟ اگر کسی کا خیال ہے کہ یوں اخوان المسلمون شکست کھا جائے گی تو وہ نامراد اور رسواہو کر رہ جائے گا۔ ظلم کبھی ایسی کسی تحریک کو ختم نہیں کر سکا، جو عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد کے دل میں بستی ہو ۔ امریکی سربراہی میں مغرب کا روّیہ یہ ہے کہ جس ریاست میں سول حکومت اس کے عزائم میں رکاوٹ ہو ، وہاں فوج کو وہ جمہوریت کا نگہبان قرار دیتے ہیں ۔ اگر ایک فوجی آمر اسے کھل کھیلنے دے تو جمہوریت کا درد اس کے پیٹ میں نہیں جاگتا۔ اپنے دہرے معیارات اور ظلم سے وہ القاعدہ جیسی انتہا پسندی کی فصلیں اگا لیتاہے اور پھر عشروں تک یہ آگ بجھاتا پھرتاہے ۔ یہ افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ اس وقت جب مصر لہولہان تھا اور کشمیر میں انسانی حقوق پامال کیے جا رہے تھے، پاکستانی میڈیا غیر اہم موضوعات کی محفل سجائے بیٹھا تھا۔ ایسا کرنے سے پہلے ایک نظر ملک کے اصل مسائل اور بحرانوں پر ڈال لی ہوتی۔ ایسے میں اکّا دکّا پروگرام ایک دیا سا جلا دیتے ہیں وگرنہ سنسنی پھیلانے والوں کا کاروبار عقل کی بات کرنے والوں پر حاوی نظر آتا ہے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved