گزرے ہوئے تین دن‘بدھ جمعرات اور جمعہ اس قدر مصروف تھے کہ عدالت سے گھر واپس آنے میں ہر روزشام ڈھل جاتی۔جمعہ کے دن صبح نوبجے سے ساڑھے دس بجے تک اسلام آباد ہائی کورٹ۔جس کے بعد ڈیڑھ بجے سے پونے چھ بجے تک 15سے 20منٹ کے تین وقفوں کے ساتھ سپریم کورٹ کے بینچ نمبرایک میں کھڑا رہا۔یہ ''منی امپورٹڈ‘‘سی ایم پنجاب کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر مقدمہ تھا۔جس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان میرے کلائنٹ تھے۔ اس لیے پچھلے کالم میں کمپیوٹر پہ بیٹھنے والے میرے ارسطو کالم کے آگے ''قسط نمبر 1‘‘اور کالم کے نیچے ''جاری‘‘لکھنے کا وقت نہ نکال سکے۔اسے آپ ورک فورس کا المیہ کہئے یا آئی ٹی کی بددعا۔جس کے نتیجے میں کال آف ڈیوٹی اور فُل تنخواہ سے زیادہ انہیں فیس بُک اور یوٹیوب کی فکر ہوتی ہے۔اس پہ بھی Pity کے علاوہ اور کوئی لفظ ابھی تک ایجاد نہیں ہوسکا۔یہPity the Nationکا جدید ترین پہلو ہے۔
بات ہورہی تھی خلیل جبران کے شاہکار کی۔جس کوسامنے رکھ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے Pity the Nationکا پاکستانی پہلو بڑی چابک دستی سے تخلیق اور تحریر کیا۔یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے مورخہ 19جون 2012 ء کو صادر کیا تھاجس کے ذریعے سابق پی ایم یوسف رضا گیلانی کو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس سے ایک سال دوماہ سات دن پہلے11پریل 2011ء کو بھٹو ریفرنس کی سماعت کے دوران میں وفاقی وزیر قانون کی حیثیت سے مستعفی ہو کر اس عدالتی قتل کے مقتول کا وکیل بن گیا۔میرا یہ ذاتی فیصلہ تھا‘جس کا مقصد پاکستان کی عدالتی تاریخ کے سب سے متنازع فیصلے کو جوڈیشل ہسٹری سے وائٹ واش کرانا تھا۔اُن دنوں کے تین واقعات ایسے ہیں جو یقینا آپ کی دلچسپی کا باعث ہوں گے۔آئیے! تاریخ کے جھروکوں سے پیچھے جھانکتے ہیں۔
پہلا جھروکا:بھٹو ریفرنس کی سماعت کے دوران ہی میرے خلاف ایک نوٹس کو پانچ رکنی عدالتی بینچ کے سامنے رکھا گیا‘جس میں جسٹس ناصر الملک صاحب اور جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب رکن تھے۔ میں اس بینچ کے سامنے پیش ہوااورکچھ ابتدائی دلائل پیش کئے۔جس کے بعد جسٹس کھوسہ صاحب نے گریس دکھا کر اس کیس سے Recuseکرنے کا عندیہ دیا؛چنانچہ یہ بینچ ٹوٹ گیا۔جسٹس ناصر الملک اورسپریم کورٹ کے دراز قامت سابق جج جسٹس سرمد جلال عثمانی مارگلہ گرینز نیول گالف کلب میں اکثر آتے تھے‘جہاں اُن سے علیک سلیک ہوتی رہتی۔دونوں جج صاحبان وکالتی حلقوں میں Relief orientedجج کے طور پر جانے جاتے تھے۔
دوسری جانب اسی عرصے میں صدر ہائوس میں تین لوگوں کی ایک میٹنگ کال کی گئی۔صدر اور وزیر اعظم کے علاوہ اس میٹنگ کا تیسرا شریک یا فریق میں تھا۔مجھے صدر کی طرف سے اصرار کرکے کہا گیا‘آپ کی ضرورت ہے‘ آپ وزیر قانون کی حیثیت سے دوبارہ حلف اُٹھائیں؛چنانچہ اگلے دن11بجے دن کا وقت طے ہوا‘تو وزیر اعظم نے کہا‘سائیں!وقت شام چھ بجے کردیں صبح میں مصروف ہوں۔اگلے دن صدر ہائوس نے مجھے بتایا کہ وزیر اعظم ارجنٹ دورے پر ملتان چلے گئے ہیں۔میں نے کسی سے نہ کچھ پوچھا اور نہ ہی کسی کو کچھ کہا۔حلفِ وفاداری والی شام نہ آنی تھی اورنہ آئی۔ باقی کی کہانی کو آپ The great betrayal کانام دے سکتے ہیں‘جو کبھی پھر سہی۔اس موضوعاتی نام سے کتاب‘ ناول‘ ڈاکیومنٹری‘ فلم‘اینی میشن‘جنگ کی داستانیں اور یار ماری کی بہت سی کہانیاں ڈاکیومنٹڈ شکل میں موجود ہیں۔
دوسرا جھروکا:پہلے سے بھی پہلے کا ہے۔آئیے اس کے منظر نامے میں چلیں۔جب استعفے کے بعد مجھے ایک پنج شخصی میٹنگ میں بلایا گیا۔ جس راہداری میں valet مجھے میٹنگ روم تک لے جا رہا تھا‘ دوڑ کر ایک آفیسر اُس کے راستے میں آیا۔ کہنے لگا: سر!آپ دوسری طرف سے اندر جائیں۔میں نے پوچھا کیا ہوا؟آفیسر منمنایا‘اس وقت پی ایم سے ون آن ون میٹنگ چل رہی ہے۔پھر آفیسر نے ایک اعلیٰ (سابق) عدالتی شخصیت کا نام لیتے ہوئے کہا:وہ چاہتے ہیں جب تک میٹنگ میں ہوںیہاں سے کوئی نہ گزرے۔ میں دوسری طرف سے میٹنگ میں پہنچا‘جہاں پانچ میں سے ایک نے بند لفافے سے میرے نام کا ٹائپ شدہ بیانِ حلفی نکالااور فرمائش کی کہ میں اُس پر دستخط کردوں‘پڑھے بغیر۔یہ ایک غیر سیاسی اہم شخص تھا۔ اُس نے کوشش کی کہ میں Affidavit نہ پڑھ سکوں ؛چنانچہ میں نے وہ کاغذ اپنے آگے سے ہٹا دیا۔
اس کے بعد Carrot and Stick سٹوری شروع ہوئی۔مجھے پہلے والی ان کیمرامیٹنگ کا مقصد بھی سمجھ آگیا۔اس دوران صدر نے دو لوگوں کو میٹنگ سے باہر نکال دیا‘مجھے کہا :یہ بیانِ حلفی پارٹی پالیسی ہے۔ہم وزیر اعظم بچانا چاہتے ہیں‘ آپ کا بیانِ حلفی وزیر اعظم کے دفاع میںسپریم کورٹ میں پیش ہوگا۔بیانِ حلفی میں لکھا تھا کہ بطور وزیر قانون میں نے وزیر اعظم کو نہیں بتایا کہ سپریم کورٹ نے سوئٹزر لینڈ کیس میں حکومت کو خط لکھنے کا حکم جاری کیا ہے۔میرا انکار پوائنٹ بلینک تھا۔ جس کے نتیجے میں گاجر اور لاٹھی کی کہانی تیز ہوگئی۔گاجر والے پورشن میں میری بات سنگل پوائنٹ ایجنڈا کہہ لیں۔ کہا: پی ایم سے پوچھیں‘انہوں نے آج تک میرے خلاف اُسی کورٹ میں چلنے والے کیس میں میری کیا حمایت کی اور میرے ساتھ کہاں کھڑا ہوئے ہیں۔یہ سنتے ہی Stick نکل آئی۔ صدر صاحب بولے:اس کا مطلب ہے آپ حکومت کی حمایت نہیں کریں گے۔میرا ساتھ نہیں دیں گے۔پھر تو بڑی مشکل ہو گی۔میں چپ رہا‘تاکہ پوری بات سمجھنے کے بعد جواب دوں۔دوبارہ کہا:ہم دونوں کو چاہئے ہر قربانی دے کر وزیر اعظم بچا لیں۔ میرا threshold آ چکا تھا۔میں نے کہا:کس خوشی میں؟ ساتھ ہی پوچھا: آپ کیا قربانی دے رہے ہیں؟ میری قربانی! اس طویل نشست کا حاصلِ کلام بڑا جذباتی تھا‘اور آخری ڈائیلاگ ان لفظوں میں:بابر!اس کا مطلب ہے تم مجھے مشکل وقت میںچھوڑ رہے ہو۔میں نے کہا:میں اس کا جواب نہیں دینا چاہتا۔ یہی سوال تیسری چوتھی مرتبہ ہوا‘تو مجھے جواب دینا پڑ گیا‘ جس کے ساتھ ہی میری اور حکومت کی لائن کٹ گئی۔کہا: آپ کو اے کلاس کامیاب وکیل ملا تھا‘ جو آپ کا دفاع کرتے کرتے آج خود ملزم بن کر کٹہرے میں کھڑا ہے‘اکیلا۔ آپ نے قسمیں کھائی تھیں کہ اگر تم پر مشکل وقت آیا تو میں تمہارے ساتھ تھانے میں بھی کھڑا ہوں گا۔ مجھے کرپشن کے الزامات‘قتل اور ڈرگز کیسز کا ملزم ملا تھا‘جسے میں صدر مملکت بنا کر چھوڑ رہا ہوں۔ کس نے کس کو چھوڑا؟ اور کہاں چھوڑا ؟کس موڑ پہ چھوڑا؟
تیسرا جھروکا:اُس دن صبح تقریباً8:30 کا وقت تھا‘جب میں عدالت جانے کی تیاری میں تھاکہ میرے سیل فون پر ''YRG‘‘ کے نام سے گھنٹی بجی۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved