پاکستان اس وقت ایک بڑے معاشی بحران کی گرفت میں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی مسائل بھی ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سیاسی محاذ آرائی‘ اور سماجی معاملات کو نظر انداز کرنے کے عمل نے موجودہ معاشی بحران کی شدت میں اضافہ کیا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ شروعات معاشی پہلو سے کریں یا سیاسی حوالے سے‘ یہ ایک انتہائی مشکل صورتحال کی کہانی ہے۔ اپریل میں وفاقی حکومت کی تبدیلی سے بھی صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔ نئے سیاسی قائدین کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کچھ معاملات میں حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ آئی ایم ایف کی مالی قسط ملنے پر‘ کسی ملک کی جانب سے قرضوں کی وصولی مؤخر کر دینے پر یا زر مبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے کسی ملک کی جانب سے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے کھاتے میں کچھ ارب ڈالر جمع کرا دیے جانے پر پاکستان کی حکمران اشرافیہ خوشی سے پھولے نہیں سماتی۔ یہ رقم پاکستان کے پاس رہتی ہے لیکن پاکستان یہ رقم خرچ نہیں کر سکتا۔ پاکستان غیر ملکی بینکوں یا دوسرے ممالک سے نئے قرضے حاصل کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے یا بین الاقوامی منڈیوں میں مالیاتی بانڈز جاری کرتا ہے۔
یہ حکمت عملیاں معیشت کو تو رواں رکھ سکتی ہیں لیکن پاکستان کے معاشی مسائل کا دیرپا حل فراہم نہیں کرتیں۔ افق پر ایسے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے جو پاکستانیوں کو معاشی بدحالی سے جلد بحالی کی امید دلائیں۔ اس وقت پاکستان کو کئی معاشی‘ سیاسی اور سماجی مسائل کا سامنا ہے‘ ذیل میں جن کا مختصراً ذکر پاکستان میں کثیر جہتی بحران کی نشاندہی کے لیے کیا جا رہا ہے۔
معیشت کو تین قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ امداد یا سپورٹ کے داخلی ذرائع کے بجائے بیرونی ذرائع پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ اس کے معاونت کے بڑے بیرونی ذرائع اقتصادی گرانٹس‘ قرضے اور انفرادی ممالک‘ بین الاقوامی مالیاتی اداروں‘ اور بین الاقوامی بینکوں کی طرف سے مالی امداد کے ڈوزز ہیں۔ پاکستان دوسرے ممالک سے قرضوں کی بحالی کی کوشش کرتا ہے۔ رواں ماہ جاپان‘ سوئٹزرلینڈ اور فرانس نے پاکستان کے قرضوں کو ری شیڈول کیا ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے خاندانوں یا کاروبار اور سرمایہ کاری کی سرگرمیوں کے لیے اپنے گھروں کو جو رقوم بھیجتے ہیں‘ ان فنڈز سے بھی پاکستان کو فائدہ پہنچتا ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کا داخلی ذریعہ ریاست کے تمام اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اسے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ تجارت کا توازن پاکستان کے لیے سازگار نہیں۔ دیگر مسائل میں زرمبادلہ کے کم ذخائر اور روپے کی گرتی ہوئی قدر شامل ہیں۔ ناقص پیداواری صلاحیت اور کم سرمایہ کاری پر نظر رکھ کر ملکی آمدنی کے ذرائع کو مضبوط کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ توجہ زراعت‘ صنعت‘ کاروبار اور تجارت پر مرکوز رہنی چاہئے۔ پاکستان کی معیشت کا تیسرا کمزور پہلو عام لوگوں پر بڑھتے ہوئے معاشی بوجھ سے متعلق ہے۔ مہنگائی اور یوٹیلیٹیز اور روزمرہ کی گھریلو استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے عام لوگوں کو ایک ایسے بحران میں ڈال دیا ہے جس پر حکومتی ترجیحات میں زبردست تبدیلیوں کے بغیر قابو نہیں پایا جا سکتا۔
سیاسی اور سماجی پہلوؤں کے ساتھ ایک اور معاشی مسئلہ انسانی فلاح و بہبود کو شدید طور پر نظر انداز کرنا ہے۔ نظر انداز کئے گئے شعبے‘ جو عام لوگوں کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتے ہیں‘ صحت کی دیکھ بھال‘ تعلیم اور ٹرانسپورٹ ہیں۔ روایتی طور پر پاکستانی وفاقی اور صوبائی حکومتیں صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم پر بہت کم وسائل خرچ کرتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں بھیڑ ہے اور وہ عام لوگوں کو ناکافی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ حکومتیں سرکاری ہسپتالوں‘ خاص طور پر ضلع اور تحصیل کی سطح کے ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے کی منصوبہ بندی اور منظم منصوبوں کو اپنانے کے بجائے صحت کی دیکھ بھال یا تعلیم کے لیے کچھ فیشن ایبل سکیمیں شروع کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ اسی طرح ریاستی تعلیمی ادارے فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ یہ ریاست کی ناکامی ہے کہ نجی شعبہ صحت اور تعلیم‘ دونوں شعبوں میں بھرپور طریقے سے آگے آ یاہے مگر عام لوگ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ایک مربوط پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کا فقدان ہے جو شہر کے بیشتر حصوں کو آپس میں جوڑتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر پرائیویٹ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی بھرمار ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے عوام پر اضافی مالی بوجھ پڑا ہے۔
پاکستان میں سماجی و اقتصادی عدم مساوات عروج پر ہے۔ آبادی کے امیر طبقوں اور غریب اکثریت کے درمیان فرق وقت کے ساتھ بڑھتا چلا گیا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ آپ پوش گھر‘ بڑی گاڑیاں‘ پوش شاپنگ ایریاز اور مہنگے ریستوران تلاش کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جنہیں یہ یقین نہیں کہ وہ اپنے خاندانوں کو باقاعدگی سے کھانا فراہم کر سکیں گے۔ سماجی تنظیمیں اور گروہ‘ اور کچھ افراد انفرادی طور پر آبادی کے غریب طبقے کی مدد کرتے ہیں۔ ریاست کے انسانی بہبود کے پروگرام ناکافی ہیں۔ صدقات کی تقسیم عارضی حل ہے۔ غریب عوام کیلئے مستقل آمدنی کے ذرائع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
مندرجہ بالا شعبوں کو نظر انداز کرنے اور انسانی فلاح و بہبود پر ناقص توجہ نے حکومتی نظام پر عام لوگوں کا اعتماد کمزور کر دیا ہے۔ عوام میں یہ تاثر مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکمران کون ہے‘ وہ محرومی اور عدم توجہی کا ہی شکار رہیں گے۔ اگر گورننس کے نظام میں عوام کی دلچسپی ختم ہو جائے تو وہ اس وقت سیاسی نظام کی حفاظت کے لیے بھی کھڑے نہیں ہوتے جب یہ (نظام) شدید چیلنجز کا شکار ہو۔ اگر اس طرح کی عدم دلچسپی کا رویہ عام ہو جائے تو اسے اس ملک میں جمہوریت کے لیے ایک بری علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ معاشرے میں اخلاقی اقدار اور ضبطِ نفس کے زوال کی صورت میں بھی نکلتا ہے۔ انصاف اور دیانت کا طرزِ عمل کمزور ہو گیا ہے۔
دیگر سماجی بیماریاں جو معیشت کو بری طرح متاثر کرتی ہیں ان میں حریف سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کے درمیان جاری سیاسی جنگیں بھی شامل ہیں۔ سیاست میں پارلیمانی آداب کی کھلی خلاف ورزی اور ایک دوسرے کے خلاف گالی گلوچ والی زبان کا استعمال عام ہے۔ سیاست کے مخالفانہ محاورے نے سیاسی رہنماؤں کے لیے مل بیٹھ کر پاکستان کے سماجی و اقتصادی مسائل کو حل کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ وہ اپنی اَنا کو پروان چڑھانے میں مصروف نظر آتے ہیں اور اقتدار کیلئے وحشیانہ جدوجہد کا سہارا لیتے ہیں جس کے نتیجے میں ریاست اور سماج کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ وہ پاکستانی معاشرے میں موجود مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
پاکستان کی معاشی مشکلات سے نمٹنے اور عام لوگوں کو معاشی ریلیف فراہم کرنے کی کلید انسانی عنصر ہے۔ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ لیڈروں کا بھی یہی طرز عمل اور یہی مزاج ہے۔ اگر سیاسی رہنما آپسی سیاسی جنگیں اورغیر مہذب رویہ ترک کر دیں تو پاکستان کے مسائل کے حل کی سمت بڑھنے کا امکان موجود ہے۔ انہیں اپنے طرزِ عمل میں تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور پائیدار ترقی کے حصول‘ پیداواری صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات‘ معاشرے کے بالا طبقے کی جانب سے ضرورت سے زیادہ کھپت پر قابو پانے‘ بیرونی ذرائع پر انحصار کم کرنے اور عام لوگوں کی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرنے کے حوالے سے کام کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بات کرنی چاہیے۔ اگر پاکستان کی موجودہ سیاست اسی طرح جاری رہی تو ان میں سے کسی بھی ہدف کے پورے ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved