ہمارا زور ہمیشہ ’’نہ ہونے‘‘ پر ہوتا ہے۔ جو ہو گیا‘ اس پر ہماری نظر نہیں جاتی اور جو کرنا ہے‘ اس پر ہمارے درمیان اختلاف ہو جاتا ہے۔ ہماری ہر کوشش کی آخری منزل ہمیشہ ’’نہ ہونا‘‘ ہے۔ ہم نے اپنے ملک کو تاریکیوں میں ڈبو لیا اور اپنے گائوں اور کھیت‘ سیلابی لہروں کے قدموں میں ڈھیر کر کے انہیں برباد کروا لیا۔ لیکن کالا باغ ڈیم نہیں بننے دیا۔ ایسی خوفناک بحث چھیڑی کہ سندھ جو سب سے زیادہ مستفید ہو سکتا تھا‘ وہ اس کا بدترین مخالف بن گیا۔ کہانی صرف یہ ہے کہ جو آئل کمپنیاں تھرمل پاور سٹیشنزکو اپنا تیل بیچ کر اندھادھند نفع کمانا چاہتی تھیں‘ انہوں نے فیصلہ سازوں میں کمیشن خور لابی کو متحرک کیا۔ خیبرپختونخوا کے گورنر کی خدمات حاصل کیں۔ واپڈا کی ایک اعلیٰ اتھارٹی کو ساتھ ملایا اور کالاباغ ڈیم کے خلاف مہم شروع کر دی۔ بعد میں سندھ کے کچھ بااثر لوگ خریدے۔ میڈیا کو استعمال کیااور آخر کار کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو پیروں تلے روند کر‘ پاکستان میں نہ صرف انتہائی فائدہ مند آبی ذخیرے کی تعمیر کھٹائی میں ڈال دی بلکہ آلودگی سے پاک بجلی پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ بھی ختم کر کے رکھ دیا۔ آج حالت یہ ہے کہ ہم آبی ذرائع سے جو 70فیصد بجلی پیدا کیا کرتے تھے‘ وہ اب صرف 30 فیصد رہ گئی ہے۔ ہماری 70 فیصد بجلی تھرمل پاور سٹیشنز سے پیدا ہو رہی ہے اور اس میں استعمال ہونے والے تیل کی درآمد سے سپلائی تک‘ نفع کمانے والی کمپنیاں اور ادارے اندھا دھند دولت بٹور رہے ہیں اور بجلی گراں سے گراں تر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ ہمارے ملک کو چلانے والوں نے‘ جس بے رحمی سے ہمیں لوٹا ہے‘ اس طرح تو سامراجی آقائوں نے بھی نہیں لوٹا ہو گا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ غیرملکی حکمرانوں نے ہمارے خطے سے اتنی دولت اپنے ملک میں نہیں بھیجی ہو گی‘ جتنی ہمارے مقامی حکمرانوں نے لوٹ کر وہاں بھیجی ہے۔ پاکستان کی سالمیت اور بقا کے لئے‘ سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی ہے لیکن ہم اس پر بھی بحث کر رہے ہیں کہ وہ ہمارے دشمن ہیں یا امریکہ کے؟ ہمارے شہریوں کو وہ مار رہے ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں میںبم چلا رہے ہیں۔ سکولوں ‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کو وہ تباہ کر رہے ہیں۔ طلباوطالبات کو وہ شہید کر رہے ہیں۔ مسجدوں اور درگاہوں کو وہ بموں سے تباہ کر رہے ہیں۔ لیکن وہ ہمارے بھائی ہیں اور لڑائی ان کی امریکہ کے ساتھ ہے۔ یہ ہے وہ سوال‘ جس پر ہمارے درمیان بحث چل رہی ہے۔ طالبان ہمیں برباد کرتے چلے جا رہے ہیں اور ہمارے درمیان ہی ایسے لوگ بیٹھے ہیں‘ جو ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے مشورے دے رہے ہیں۔ کوئی بھی ایسا کام جو ہمارے ملک اور عوام کے مفاد میں ہو‘ اسے ہم آپس میں متنازعہ بنا دیتے ہیں۔ تھرکول کی مثال سامنے ہے۔ اگر ہم وہاں سے بجلی بنانا شروع کر دیں‘ تو 5سال میں خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ ہمارے درآمدی تیل بجٹ کا 80فیصد بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم نے اسے بھی متنازعہ بنا دیا ہے۔اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے کہ ہم قومی سلامتی کے سوال پر بھی اتفاق رائے نہیں کر سکے۔ گزشتہ 66 سال سے ہماری نیشنل ڈیفنس پالیسی نہیں بنائی جا سکی اور 13 سال سے دہشت گردی کا عذاب بھگت رہے ہیں اور کوئی نیشنل سکیورٹی پالیسی بھی نہیں بنائی جا سکی۔ کیونکہ ’’نہ ہونا‘‘ ہماری پسندیدہ شے ہے۔ ہمارے اس شوق کی تازہ مثال اسلام آباد کا حالیہ واقعہ ہے‘ جس پر ان دنوں بڑے جوش و خروش کے ساتھ بحث ہو رہی ہے۔ اپنے آپ کو دیوانہ ظاہر کرنے والے ایک شخص کے حوالے سے ‘ جس نے دونوں ہاتھوں میں اسلحہ اٹھا کر سارے اسلام آباد اور پورے ملک کو پنجوں پر کھڑا کئے رکھا۔ سکیورٹی ایجنسیاں ساڑھے پانچ گھنٹے کچھ نہ کر سکیں اور ایک بہادر شخص زمرد خان‘ جس نے بے خطر آتش نمرود میں کود کر‘ قوم کو ٹکٹکی سے اتارا‘ آج موضوع بحث بنا ہوا ہے۔جو کچھ ہو گیا‘ اس کی بات کوئی نہیں کر رہا۔ جو کچھ نہیں ہوا‘ اس پر زور دیا جا رہا ہے۔ اگر یہ ہو جاتا‘ تو کیا ہوتا؟ اگر وہ ہو جاتا‘ تو کیا ہوتا؟ اگر یوں ہو جاتا‘ تو کیا ہوتا؟ آپ نے اتنی تعداد میں‘ اتنے پاگل لوگ‘ کبھی ایک ہی موضوع پر‘ ایک ہی جیسی باتیں کرتے ہوئے دیکھے ہیں؟ خدا کے بندے وہ نہیں دیکھ رہے‘ جو ہو چکا۔ اس پر بحث کر رہے ہیں جو نہیں ہوا اور اب پولیس یہ کہہ رہی ہے کہ ہم نے تو منصوبہ بنا لیا تھا‘ زمرد خان نے اس پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا۔ کوئٹہ میں تو کسی زمردخان نے مداخلت نہیں کی تھی۔ وہاں پولیس یا سکیورٹی ایجنسیوں کا کوئی منصوبہ ‘ درجنوں پولیس افسروں اور جوانوں کو بچا کیوں نہ سکا؟ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی جیلوں پر حملوں کے وقت تو کوئی زمرد خان بیچ میں نہیں آیا تھا۔ وہاں سکیورٹی والوں نے کیا کر دیا؟ ملک میں آئی ایس آئی کے کئی مراکز پر حملے ہوئے اور پرائم قومی ایجنسی کے افسر اور اہلکار وں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ وہاں بھی کسی زمرد خان نے درمیان میں کود کے معاملہ خراب نہیں کیا تھا۔ ان دفاتر کا تحفظ کیوں نہ ہو سکا؟ ایسی بے شمارمثالیں دی جا سکتی ہیں‘ جہاں کوئی زمرد خان بیچ میں نہیں آیا اور پھر بھی سکیورٹی کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوا۔ جو کچھ زمرد خان نے کر دیا‘ اس کی تحسین میں کچھ کہتے ہوئے زبانوں کو لقوے ہو جاتے ہیں۔ وہ جو اصل سٹیک ہولڈر ہیں‘ تعریفیں کر رہے ہیں۔ شہبازشریف نے زمرد خان کو خراج تحسین پیش کیا۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خاں نے تحسین کی۔ خود وزیراعظم اسی موڈ میں تھے کہ کچھ مصلحت پسندوں نے انہیں روک دیا۔ لیکن شاہ سے زیادہ‘ شاہ کے وفاداروں کو فکر پڑ گئی کہ اگر پیپلزپارٹی کا ایک لیڈر‘ عوام کی تحسین و آفرین کا حق دار بن گیا‘ تو حکمران جماعت کو سیاسی نقصان نہ پہنچ جائے؟ حالانکہ زمرد خان باربار کہتا رہا کہ میں نے یہ قدم ایک پاکستانی کی حیثیت سے اٹھایا ہے۔ میری سیاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات قابل فہم بھی ہے۔ ملک میں کوئی الیکشن نہیں ہونے جا رہا۔ پیپلزپارٹی قبل ازوقت الیکشن کا کوئی مطالبہ نہیں کر رہی۔ زمرد خان کسی الیکشن کا امیدوار نہیں۔ وہ حکمران جماعت کو کیا نقصان پہنچا سکتا تھا۔ لیکن حکومت کے حاشیہ برداروںاور شاہی مہربانیوں کے طلب گاروں کو راتوں رات یہ خیال آیا کہ زمرد خان کی شہرت کہیں شریف برادران کو نقصان نہ پہنچا دے؟ انہوں نے زمرد خان پر ایسے ایسے اعتراضات اٹھائے ‘ جنہیں دیکھ کر یوں لگا‘ جیسے سکندر کی بجائے‘ دہشت گردی کا ارتکاب زمرد خان نے کر دیا ہو۔ ابھی بحث جاری ہے۔ ہو سکتا ہے آگے چل کر یہی لوگ مطالبہ کر دیں کہ اصل میں دہشت گردی کا پرچہ زمرد خان پر ہونا چاہیے۔ کچھ واقعات ہوتے ہیں‘ جو مایوسیوں اور ناامیدیوں کے اندھیروں میں ‘ روشنی کی ایک کرن بن کر سامنے آتے ہیں اور یہی کرن آنے والی روشنیوں کا راستہ کھول دیتی ہے۔ جن بدنصیبوں کی آنکھیں‘ اس کرن سے چندھیا جائیں اور وہ دوسروں کو بھی قائل کرنے پر تل جائیں کہ اندھیرے پہلے کی طرح مسلط ہیں‘ ایسے لوگ قابل رحم بھی نہیں ہوتے۔ ورنہ دنیا میں قوموں کی مایوسیوں کو ایسی ہی کرنیں ‘ امیدوں کی راہیں دکھاتی آئی ہیں۔ مجھے یاد ہے ‘ ایک مرتبہ پی آئی اے کے سکھر سے کراچی جانے والے جہاز میں ایک مسلح ہائی جیکر داخل ہو گیا اور دوران پرواز اس نے اسلحہ لہرا کر‘ جہاز ہائی جیک کر لیا۔ کراچی کے ہوائی اڈے پر ائیر مارشل نور خان جو کہ اس وقت پی آئی اے کے چیئرمین تھے‘ ہائی جیکر سے مذاکرات کے لئے اغوا شدہ جہاز کے اندر گئے۔ بات چیت کے دوران ہی اس پر جھپٹ پڑے ۔اسی کشمکش کے دوران گولی چل گئی جو ان کی کمر پر لگی لیکن انہوں نے ہائی جیکر پر قابو پا لیا۔ اس وقت پورے پاکستان میں ایک بھی عقلمند ایسا نہیں تھا‘ جسے نور خان کا یہ جراتمندانہ کارنامہ‘ بے وقوفی نظر آیا ہو۔ ہوتا بھی کیسے؟ اس وقت پاکستانی قوم کے حوصلے بلند تھے اور اس کے ادارے‘ دہشت گردوں سے خوفزدہ نہیں تھے۔ اس کارنامے پر ائیر مارشل کو ہلال شجاعت دیا گیا۔ آج دہشت گردوں کے خوف سے لرزتے ہوئے لوگ ‘ ذرا سی جرات مندی پر بھی تھرتھر کانپنے لگتے ہیں کہ اگر یوں ہو جاتا تو کیا ہوتا؟ اور وہ ہو جاتا ‘ تو کیا ہوتا؟ تب ایک نور خان نے جہاز اغوا ہونے سے بچا لیا۔ آج پورے پاکستان کو دہشت گردوں نے اغوا کر رکھا ہے۔ کیا خبر؟ زمرد خان کی ایک جست ہمیں ‘ دہشت گردوں کے خوف سے نکال دے اور وہ خوف جو ہمارے لوگوں پر‘ دہشت گردوں نے مسلط کر رکھا ہے‘ وہ دہشت گردوں پر مسلط ہو جائے۔ ذرا تصور کیجئے کہ زمرد خان کا یہ جذبہ رندانہ‘ پوری قوم کے اندر پیدا ہو جائے اور انہیں ہر ہجوم‘ ہر بازار‘ ہر مسجد‘ ہر محلے اور ہر اجتماع میں کسی نہ کسی زمرد خان کی موجودگی کا اندیشہ ہو جائے‘ تو خوفزدہ کون ہو گا؟ دہشت گرد کی ساری بہادری اور دلیری‘ عوام کی خوفزدگی میں ہے۔ عوام بے خوف ہو جائیں اور ہر شہری‘ دہشت گردوں پر نورخان یا زمرد خان کی طرح اچانک جھپٹ پڑے‘ تو میں دیکھوں گا‘ دہشت گرد کس طرح ہمارے شہروں کا رخ کرتے ہیں؟ زمرد خان سے حکومتی چمچوں کو نہیں‘ دہشت گردوں کو ڈرنا چاہیے۔ زمرد خان کی مثال دیکھ کر اگر چند ہزار نوجوان بھی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے‘ دہشت گردوں پر جھپٹ پڑنے کا عزم کر لیں‘ تو ان کے چھکے چھوٹ جائیں گے۔ رہ گئے زمرد خان‘ تو وہ غوغائے رقیباں کی پہنچ سے بہت دور جا چکے ہیں۔ 17 اپریل 1993ء کو نوازشریف نے ایک تاریخی تقریر کی تھی۔ اس تقریر نے انہیں راتوں رات عوام کا مقبول لیڈر بنا دیا تھا۔ اس وقت میں نے کہا تھا کہ ’’اب نوازشریف‘ مخالفین کی پہنچ سے بہت دور نکل گئے ہیں۔ اب کوئی تیر‘ کوئی پتھر‘ کوئی غلیلہ اور کوئی گولی‘ ان کے قریب نہیں جا سکے گی۔ وہ ایئربیریئر کراس کر گئے ہیں۔‘‘ زمرد خان نے بھی ایئربیریئر کراس کر لیا ہے۔ کسی کی آہ بھی اس کے پار نہیں جا سکتی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved