چین کے اعلیٰ سفارت کار یانگ جیچی نے اپنے حالیہ دورۂ پاکستان میں دونوں ممالک کے مابین ہمہ موسمی تزویراتی تعاون پر مبنی شراکت داری کا اعادہ کرنے کے علاوہ جنوبی ایشیا میں قیامِ امن اور اقتصادی ترقی کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی پہ تبادلۂ خیال کیا۔ اسلام آباد میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات میں یانگ جیچی نے کہا کہ چین نے سفارت کاری میں ہمیشہ ہمسایہ ممالک سے تعلقات کو اولیت دی ہے‘ پاکستان کے ساتھ کثیر الجہتی امور میں تعاون بڑھانے کے علاوہ خطہ کے ترقی پذیر ممالک سے مشترکہ معاشی مفادات کے نظام کو زیادہ مربوط بنانے کی کوشش کریں گے۔ کمیونسٹ پارٹی کے پولیٹکل بیورو کے رکن یانگ جیچی نے واضح کیا کہ چین پاکستان کو پڑوسی دوست اور قابلِ اعتماد بھائی کے طور پر دیکھتا ہے، چاہے عالمی منظر نامے میں کسی نوع کی تبدیلیاں رونما ہوں‘ باہمی اعتماد پہ مبنی پاک چین دوستی چٹان کی طرح مضبوط رہے گی۔ چین باہمی سٹریٹیجک اعتماد کو آگے بڑھانے اور پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر میں عملی تعاون کومزید گہرا کرنے کے لیے مواصلات اور حکمت عملی کو مزید مضبوط بنانے کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے تاکہ مشترکہ مستقبل کی خاطر پاک چین سماجی تعلقات کی استواری کیلئے بھی ہاتھ ملایا جا سکے۔ چین نے گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو کیلئے پاکستان کی حمایت کو سراہا۔یانگ جیچی اور شہبازشریف نے باہمی ملاقات میں علاقائی سلامتی کے تحفظ اور انسدادِ دہشت گردی کیلئے باہمی تعاون کومضبوط بنانے پر اتفاق سمیت افغانستان کی صورتحال خاص طور پر انسانی اور معاشی بحران پر بھی تبادلۂ خیال کیا۔ دونوں ممالک نے انسانی تباہی سے بچنے اور افغانوںکی مشکلات کو کم کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون اورافغان اثاثوں کو غیر منجمد کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو گیم چینجر منصوبہ ہے۔ بلاشبہ رائے عامہ کی مثبت تشکیل اس پروجیکٹ کی کامیابی کو یقینی بنا سکتی ہے۔ چین مغرب کی جانب عظیم اقتصادی سفر شروع کرنے سے قبل اپنے آبائی براعظم ایشیا میں علامتی قیادت کی خواہش رکھنے کے علاوہ یورپ کے اتحادوں کے مشرق کے اقتصادی ارتقا میں شمولیت کے احساسات کا بھی خیرمقدم کرے گا، جنہیں یوریشیا اور بحر ہند میں پرکشش معاشی مواقع اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ بلاشبہ چین کی اقتصادی پیش رفت میں پہلا پڑاؤ جنوبی ایشیا ہی ہو گا۔ خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی پہلے ہی جنوبی ایشیا کو نئی شکل دے رہی ہے جو بیک وقت ایک ایسے خطے کے طور پر ابھر رہا ہے جہاں ہمالیہ کی بلندیوں سے لے کر بحر ہند کی گہرائیوں تک امریکا اور چین کے مابین ہمہ جہت مبارزت نئی صف بندی میں ڈھل رہی ہے، جس میں پاکستان، افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، مالدیپ، نیپال، سری لنکا اور بھارت کے علاوہ بحر ہند کا مشرقی منطقہ زیادہ متاثر ہو گا۔ اکیسویںصدی کے آغازکے ساتھ ہی جب بیجنگ کے جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ تعلقات تیزی سے وسیع اور گہرے ہونے لگے تو افغانستان میں امریکی جارحیت کے نتیجہ میں ابھرنے والی تشدد کی لہریں سدِ راہ بن گئیں؛ تاہم افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا نے چین کے جنوبی ایشیا اور یورپ کی طرف اقتصادی سفرکی راہ ہموار کر دی۔ صدر شی جن پنگ نے 2012ء میں‘ جب اوباما انتظامیہ نے دوحہ مذاکرات کے ذریعے افغان جنگ سے نکلنے کی ابتدا کی، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹوکے ذریعے پُرجوش طریقوں سے جنوبی ایشیا کے ساتھ اپنے روابط کو جس تیزی سے تعمیرکیا اس سے یورپی ممالک کو بھی مشرق سے اقتصادی تعاون کی ترغیب ملی لیکن جنوبی ایشیا میں چین کو ایسے متحرک خطے کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں جتنے پُرکشش مواقع ہیں اتنے ہی مقامی مسائل بھی موجود ہیں۔
جنوبی ایشیا ایسا منطقہ ہے جہاں کی کنزیومر سوسائٹی میں انسانی ترقی کے وسیع امکانات کے باعث وسطی ایشیا کے تیل کی سب سے بڑی مارکیٹ موجود ہے مگر اس کے علاوہ جوہری ہتھیاروں سے لیس اور پُرتشدد تنازعات کا الاؤ بھی یہاں پوری طرح بھڑک رہا ہے۔ یہاں فعال آبادیاتی منافع کی حامل ریاستوں کی معاشی نمو کورونا وبا سے قبل کافی مضبوط تھی مگر یہاں کی متحرک ریاستیں اب بھی جمہوری طرزِ حکمرانی کے چیلنجوں سے نبردآزما ہیں۔ اگرچہ امریکا اور چین‘ دونوں جنوبی ایشیا کو اہم سمجھنے کے باوجود اس خطے کو اپنی اولین جغرافیائی سیاسی ترجیح نہیں سمجھتے، وہ اپنے مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے مشرقِ وسطیٰ جیسے تیل کی دولت سے مالال علاقوں کو زیادہ مرکزی حیثیت کا حامل خیال کرتے ہیں؛ تاہم وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ جنوبی ایشیا کا سٹریٹیجک جغرافیہ اور بڑھتی ہوئی آبادی، جوہری ہتھیاروں اور دہشت گردی کے خطرات کے باعث توجہ اور وسائل کی خاصی مقدار مختص کرنے کے قابل ہے۔ واشنگٹن کے آزاد اور کھلے انڈو پیسفک کی تعمیر کے ہدف کے حوالے سے جنوبی ایشیا نہایت اہم علاقہ قرار دیا گیا اور بیجنگ کا بھی یوریشین پر نظرثانی کرنے کا سیاسی اور سکیورٹی آرڈر اور ایشیا میں سرکردہ طاقت بننے کی کاوش خطے کی اہمیت کو ظاہر کرتی ہے۔ چین وامریکا کی تزویراتی مسابقت کا ابھرتا ہوا تازہ دور‘ جو کئی دہائیوں تک جاری رہ سکتا ہے‘ جنوبی ایشیا میں امریکا اور چین کے جائزوں اور مصروفیات‘ دونوں کی تشکیلِ نو کا وسیلہ بنے گا۔ اس دوطرفہ مسابقت اور تصادم نے جنوبی ایشیا میں تعاون کو‘ بشمول بڑے بحرانوں کے دوران‘ کافی حد تک پیچیدہ بنا دیا ہے۔
پُرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے‘ پاک بھارت سٹریٹیجک استحکام اورافغانستان کے انسانی بحران کے انتظام کو یقینی بنانے کے علاوہ علاقائی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے میں دونوں ممالک کا باہمی مفاد موجود ہے لیکن اس کے باوجود خطے میں ایک دوسرے کی سرگرمیوں کے بارے میں دوطرفہ تناؤ اور باہمی شکوک و شبہات کسی بھی پائیدار تعاون کے امکانات کو ہر وقت محدود کرتے ہیں۔ انسانی بحران سے نمٹنے، ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ اور دہشت گردی کے بارے میں دونوں ممالک مختلف نقطہ ہائے نظر رکھتے ہیں۔ چین زیادہ تر پاکستان کا ساتھ دیتا ہے اور امریکا اپنا وزن بھارت کے پلڑے میں ڈالتا ہے۔ یہی دھڑے بندی مشترکہ کوششوں پر اتفاق اور عمل درآمد کو مشکل بناتی ہے۔ چین اور پاکستان کا محور بتدریج مضبوط ہو رہا ہے جس کے پاکستان میں گورننس اور معاشی اصلاحات کی کوششوں پر مثبت اثرات پڑیں گے۔ چین کی مالی اعانت سے چلنے والے ترقیاتی منصوبے پاکستان میں معاشی و سیاسی مسائل کو حل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوںگے۔ بیجنگ پاک چین اقتصادی راہداری میں بی آر آئی کے ممکنہ جڑائو اور بحر ہند تک اوورلینڈ ٹرانزٹ روٹ کے لیے بھی بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے؛ تاہم اب بھی یہاں CPEC کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ یہ اقتصادی تعاون عسکری تعلقات اور سفارتی حمایت سے بھی بڑھ کر ہے۔ بھارت اور پاکستان کے تنازعات کے حوالے سے پاکستان کی پشت پناہی چین کو ایشیا میں بھارتی طاقت کو محدود کرنے میں مدد دیتی ہے۔ خاص طور پر پچھلے سال، چین نے کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت میں دوگنا اضافہ کیا ہے۔ تاریخی طور پر بیجنگ کا مؤقف تعمیری غیر جانبداری سے پاکستان کے لیے فعال حمایت تک پھیلا ہوا ہے۔
امریکا کو خدشہ ہے کہ چین بھارت پر دباؤ ڈالنے اور بیجنگ کے علاقائی دعووں کو آگے بڑھانے کے لیے مستقبل کے بحرانوں میں پاکستان کا ساتھ دے گا جبکہ امریکا نے خود ہمیشہ لائن آف کنٹرول کے ساتھ بھڑک اٹھنے والے تنازعات میں بھارت کے موقف کی حمایت کی ہے۔ بلاشبہ بیجنگ کے پاس پاک، بھارت تنازعات کے جامع حل کو ممکن بنانے کے لیے طاقتور ترغیبات موجود ہیں۔ علاقائی دعووں خاص طور پر کشمیر کے موقف پر چین کی حمایت پاکستان کے لیے تقویت کا باعث بنتی ہے۔ پاکستان کو چین کی صورت میں طاقتور پارٹنر کی حمایت کے ساتھ ترقیاتی فنانسنگ بھی حاصل ہوتی ہے کہ ہماری متزلزل اقتصادی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام اسی تعاون کا متقاضی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved