یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف گائے کی بے حرمتی تو دور کی بات‘ گلی سے گزرتے ہوئے گائے کو ہاتھوں سے پرے کرنے والے مسلم نوجوان کو چھریوں اور ڈنڈوں کے وار کر کے قتل کر دیا جائے، اتر پردیش میں سڑک پر پیشاب کرتی گائے کے قریب سے گزرنے والے مسلمان بزرگ کو مہاسبھائی ہندو ڈنڈوں اور جوتوں سے پیٹنا شروع کر دیں‘ اس کی داڑھی نوچ لیں اور اس کی جان اس شرط پر چھوڑی جائے کہ وہ ان کے سامنے گائو موتر پیئے اور دوسری طرف مسلمان مقدس ہستیوں کی شان میں کی جانی والی توہین کو چپ چاپ قبول کر لیں؟
2014ء میں مودی حکومت آنے کے بعد سے‘ برسات کے مینڈکوں کی طرح گائے کے تحفظ کے نام پر ابھرنے والے سینکڑوں انتہاپسند گروہوں نے مسلمانوں اور دلتوں کی آبادیوں پر جگہ جگہ حملوں کو اپنا معمول بنا رکھا ہے۔ بھارت کے تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز اس بات کے گواہ ہیں کہ دو درجن سے زائد مسلمانوں کو اب تک محض اس وجہ سے قتل کیا جا چکا ہے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ دودھ لے کر جا رہے تھے مگر انتہا پسندوں کا مجمع اکٹھا ہو گیا اور الزام لگایا کہ ان ٹینکروں میں دودھ نہیں بلکہ گائے کا گوشت ہے۔ یہ سب کچھ پولیس کی ایف آئی آرز میں بھی موجود ہے۔ گائے کے گوشت کے شبہے میں بھارت میں کسی انسان کی جان لے لینا ایک معمول بن چکا ہے۔ بی بی سی کی وہ رپورٹ دل دہلا دینے والی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ایسے ہی ایک حادثے کے بعد جب شدید زخمی حالت میں ایک دلت کو ہسپتال لایا گیا تو ہندو ڈاکٹر جام کنبھار نے یہ کہہ کر اس کا علاج کرنے سے انکار کر دیا کہ پہلے اسے اچھی طرح نہلایا جائے۔ یہ وہ ''روشن بھارت‘‘ ہے جہاں اونچی ذات کے انتہا پسند ہندوئوں کے علاوہ دوسروں کو اپنی مرضی سے جینے کی آزادی بھی میسر نہیں۔ چند ہفتوں کی بات ہے کہ بھارت بھر کے انتہا پسند ہندو ایک مسلم طالبہ کے حجاب پر اس قدر آگ بگولہ ہو گئے کہ بھارت بھر کے تعلیمی اداروں کو حجاب سے پاک کرنے کے نعروں سے آلودہ کر دیا۔ چند لاکھ ہندوئوں کے سوا‘ بھارت کا انتہا پسند ٹولہ‘ حجاب اور برقع میں ملبوس خواتین کو راہ چلتے ظلم و ستم کا نشانہ بنارہا ہے۔بسوں، ٹرینوں اور ٹرام سمیت رکشوں میں بھی ان کو بٹھانے سے لوگ کترانے لگے ہیں کہ کہیں مہاسبھائی ہندو انہیں آگ نہ لگا دیں۔ گزشتہ برس نومبر میں دہلی میں بریانی بیچنے والے مسلمانوں کے ٹھیلوں پر شیو سینا اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے حملہ کیا اور ساری دیگیں یہ کہہ کر الٹا دیں کہ انہیں شک ہے کہ بریانی میں گائے کا گوشت استعمال کیا گیا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان نوپور شرما کی گستاخی پر پورے بھارت میں جس طرح انتہا پسند ہندوئوں نے جشن منایا اور ملعون نوپور کو دیوی کا لقب دیا گیا، سوشل میڈیا پر اس سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا، اس سے ایک طرف تو انتہاپسندی کی بڑھتی سوچ کی غمازی ہوتی ہے مگر دوسری طرف اس مہم نے جلتی پر اس طرح تیل ڈالنا شروع کر دیا کہ ہر مسلمان کے بدن کو جلا کر رکھ دیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ بی جے پی حکومت اور اس کی جماعتی لیڈر شپ نوپور شرما کی اس حرکت کا سخت نوٹس لیتی لیکن الٹا انہوں نے اس کی پیٹھ ٹھونکنا شروع کر دی۔ گویا اس نے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کر کے کوئی غلطی نہیں کی بلکہ بی جے پی قیادت کے دلی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ اودھے پور میں کنہیا لال نامی ایک درزی نے نوپور شرما کی تصاویر کو ہار پہناتے ہوئے اسے دیوی سے تشبیہ دیتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹ پر اس کی تصاویر اور اس کی حوصلہ افزائی پر مبنی پوسٹوں کی بھرمار کر رکھی تھی۔ اس نے اپنی دکان کے اندر اور باہر بھی نوپورر شرماکی تصویریں لگا رکھی تھیں۔ کچھ مسلمانوں کے ساتھ اس کی تکرار ہوئی، نتیجتاً وہ دو مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ ہمیشہ کی طرح بھارت نے کنہیا لال کے قتل کو پاکستان کے سر منڈھنے کیلئے گودی میڈیا کے ذریعے طوفان کھڑا کر دیا۔ اب تک جو درجنوں مسلمان، دلت، سکھ اور عیسائی انتہاپسندی کی آگ کی نذر ہو چکے ہیں‘ ان پر کوئی بات نہیں کرتا مگر کنہیا لال کے ایشو پر پورا گودی میڈیا یک زبان ہو چکا ہے۔ بی جے پی اور مودی کی شکل میں فاشست حکومت آنے کے بعد سے انتہا پسندی اور مسلمانوں سے شدید نفرت رکھنے والی برین واشڈ نسل بھارت بھر میں خودرو پودوں کی طرح نمودار ہوئی ہے۔ وہ گائے کو ہٹانے‘ اس کا دودھ لے جانے‘ اس کے گوبر اور پیشاب کے چھینٹوں اور بو سے بچنے کیلئے منہ اور ناک پر ہاتھ یا رومال رکھنے والوں پر بھی پل پڑتی ہیں اور لاتوں، گھونسوں، لوہے کے راڈوں اور اینٹوں سے مار کر ان مظلوموں کا سر کچل دیتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری جانب جب یہ کہا جائے کہ تم اپنے دینی شعائر، مقدس ہستیوں کی شان میں کی گئی گستاخی پر خاموشی اختیار کر لو، تمہیں احتجاج کا حق بھی نہیں‘ اگر تم احتجاج کرو گے تو کسی قانونی کارروائی کے بغیر‘ ماورائے قانون و عدالت‘ تمہارے گھر مسمار کر دیے جائیں گے، کسی ہندو پر انگلی اٹھانا تو دور‘ اسے گھور کر بھی مت دیکھو تو کیا یہ باتیں تسلیم کی جا سکتی ہیں؟ شیو سینا اور بی جے پی گائے کے احترام کے لیے کسی انسان بالخصوص مسلمان کا قتل ''شبھ کام‘‘ سمجھتی ہیں۔ کیا بھارت میں مسلمانوں کو اتنی بھی اجازت نہیں کہ وہ رحمۃ للعالمینﷺ کی شان اقدس میں کی جانے والی گستاخی پر رو سکیں‘ احتجاج کر سکیں؟ ہندو گلیوں اور چوراہوں میں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہوئے ان کے دینی شعائر کی گستاخی کرتے ہوئے نامناسب فقرے کستے جائیں اور محکوم و لاچار مسلمان اپنے ایمان کی کسوٹی پر پورا اترنے کیلئے احتجاج بھی نہ کر یں؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مقدس ہستیوں کی توہین پر مبنی تحریروں اور تقریروں سے مسلمانوں کو چھلنی کیا جائے اور پچیس کروڑ سے زائد تعداد میں بھارت میں بسنے والے مجبور مسلمان چپ چاپ بیٹھے رہیں؟
اپریل کے دوسرے ہفتے میں پٹیالہ میں شیو سینا کے انتہا پسند لیڈروں نے فیصلہ کیا کہ 29 اپریل کو‘ جب بھارت کے سکھ علامتی طور پر یومِ خالصتان مناتے ہیں‘ سکھوں کو خوف زدہ کرنے کیلئے ایک ریلی نکالی جائے۔ شیو سینا نے پٹیالہ کے قریبی علاقوں سے بھی اپنے عسکری ونگز کو اس ریلی میں شرکت کی ہدایات جاری کر دیں۔ شیو سینا کے غنڈے ہاتھوں میں تلواریں لہراتے اور سکھوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے اس طرح بازاروں میں نکلے کہ پولیس بھی ان کے قریب آنے سے خوف کھانے لگی۔ بات اگر ریلی تک ہی رہتی تو شاید معاملہ بگڑنے کی نوبت نہ آتی لیکن یہ ہتھ چھٹ قسم کے غنڈے جیسے ہی کسی سکھ کی دکان یا ان کے محلوں کے قریب سے گزرتے تو ان کے نعروں میں اس قدر تیزی آجاتی جیسے کسی توپ خانے سے گولہ باری کی جا رہی ہو۔ ''خالصتان مردہ باد ریلی‘‘ شہر کی بڑی سڑکوں اور بازاروں کا چکر لگاتی ہوئی پٹیالہ کے کالی ماتا مندر سے کچھ فاصلے پر تھی کہ سامنے سے کچھ سکھ آ گئے اور پھر شیو سینا کی فوج اور سکھوں کے مابین تصادم شروع ہو گیا۔ دونوں جانب سے تلواریں اور کرپانیں نکل آئیں۔ ایسے واقعات بھارت کے کسی نہ کسی شہر میں ہر روز وقوع پذیر ہو رہے ہیں۔
کچھ ماہ قبل جب ریاست اتراکھنڈ کے شہر ہری دوار میں بی جے پی کے سینئر رہنمائوں کی موجودگی میں انتہاپسند ہندوئوں نے کھلے عام ہندوئوں کو بھڑکاتے ہوئے انہیں مسلمانوں کے قتل پر اکسایا اور ان سے حلف لیا تو پوری دنیا اس منظر کو دیکھ کر چونک گئی مگر انتہاپسندوں کو اپنے کیے پر کوئی پشیمانی تھی نہ ندامت بلکہ ان کا کہنا تھا کہ کسی کو جیل جانے سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ اگر کچھ دنوں کیلئے جیل یاترا کرنی بھی پڑ جائے تو گھبرائیں مت۔ اسی جلسے میں آر ایس ایس کی ایک خاتون رہنما نے کہا تھا کہ اگر ہم میں سے ایک سو افراد رام کے سپاہی بن جائیں تو ایک لاکھ مسلمانوں کو قتل کر سکتے ہیں جبکہ ایک رہنما کا کہنا تھا کہ کم از کم بیس لاکھ مسلمانوں کو قتل کرناہو گا۔ انتہا پسند ہندو لیڈران فوج اور پولیس سمیت تمام سکیورٹی فورسز کو یہ کہہ کر اکسا رہے ہیں کہ وہ میانمار کی پولیس اور فوج کی طرح مسلمانوںکو قتل کرنے کیلئے ایک ہو جائیں۔ جینوسائڈ واچ کے بانی گریگوری سٹینٹن کی وارننگ یاد کریں۔ نسل کشی کے سارے اسباب گنواتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی محض دو قدم کے فاصلے پر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved