تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     05-07-2022

ضمیر کے چور

خلیل جبران کا قول ہے ''جو اپنے آپ سے انصاف نہیں کرتے وہ احمقوں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ جبر و استبداد کے خلاف بغاوت نہ کرنے والے اپنے ضمیر کے چور کہلاتے ہیں‘‘۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہمیں ذہنی غلامی اچھی لگتی ہے‘ اندھی تقلید ہمیں راحت بخشتی ہے۔ ان راہوں پر چلتے ہوئے ہمیں کبھی اَنا کے سانپ ڈستے ہیں اور کبھی جہالت کے بھیڑیے ہمیں بھنبھوڑتے ہیں۔ کبھی نفرت کا زہر پیا جاتا ہے اور کبھی جھوٹ کی پذیرائی کرتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ہمارے اصل مسائل ہمارا مسئلہ ہی نہیں ہیں۔ ہم غالباً دنیا کی واحد قوم ہیں جنہیں مہنگائی، بیروزگاری، لاقانونیت، اقربا پروری، ناانصافی، کرپشن اور حکمرانوں کی وعدہ خلافیاں بھی یکجا نہیں کر سکیں۔ ہم پہلے بھی گروہوں میں بٹے ہوئے تھے اور آج بھی تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ ہم ایک ملک کے باسی ضرور ہیں مگر کیا ہم ایک قوم ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ کیا قومی مفادات پر ہماری سوچ ایک ہے؟
گزشتہ چند ماہ میں ہماری معیشت کے ساتھ چھ المیے ہوئے جن کے باعث ہماری معیشت کی چولیں ہل گئیں اور مہنگائی نے خاص و عام کی چیخیں نکال دیں۔ پہلا المیہ اکتوبر 2021ء سے مارچ 2022ء کے درمیان پیش آیا۔ پی ٹی آئی حکومت نے سیاسی ناؤ کو ہچکولے کھاتے دیکھا تو ترقی کی شرح بڑھانے کے لیے درآمدات میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ ترقی کی شرح تو بڑھ گئی مگر ڈالرز کے ذخائر کم ہو کرسترہ ارب ڈالر پر آ گئے جس سے روپے پر بوجھ بڑھا اور اس کی قدر مسلسل گرتی گئی۔ اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ مالی سال میں تجارتی خسارہ 30.96 ارب ڈالر تھا جو اس سال بڑھ کر 48.66 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ گزشتہ مالی سال میںکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.18 ارب ڈالر تھا جو اب ایک ہی جست میں تقریباً سولہ ارب ڈالر پر چلا گیا ہے۔ اگر ڈالر کا یوں بے دریغ استعمال نہ ہوتا تو روپے کی قدر گرتی نہ ہی مہنگائی کا طوفان اتنی تباہی مچاتا۔ معیشت کے ساتھ دوسرے المیے کا دورانیہ 28 فروری 2022ء سے 27 مئی2022ء تک ہے۔ حکومت نے جنوری میں آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا اور ایک ارب ڈالر کی قسط لے کر معاہدے کی خلاف ورزی کر دی۔ فنانشل ورلڈ میں ایسی خلاف ورزی اپنے ہاتھوں تباہی کے مترادف ہوتی ہے کیونکہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی کا مطلب ہے کوئی ادارہ آپ کو نیا قرض دے گا نہ ہی کوئی ملک مدد کو آئے گا۔ پوری دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اوپر جا رہی تھیں مگر پی ٹی آئی حکومت نے پٹرول، ڈیزل اور بجلی پر چار سو ارب روپے کی سبسڈی دے دی۔ سبسڈی دینے کے لیے حکومت کے پاس پیسے تھے نہ وسائل۔ اگر یہ سبسڈی جاری رہتی تو سالانہ ایک ہزار ارب روپے خرچ ہونا تھے۔ صوبہ بلوچستان کا کل بجٹ لگ بھگ چھ سو ارب روپے ہے اور خیبر پختونخوا کا 1332 ارب روپے۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ ہماری معیشت اتنی بڑی سبسڈی کا بوجھ کیسے اٹھا سکتی تھی؟ اس سبسڈی نے روپے کو کمزور کیا اور ڈالر کو مضبو ط۔ آج جو معیشت کی زبوں حالی ہے اس میں اس فنڈڈ سبسڈی کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔ تیسرا المیہ عالمی سطح پر ہونے والی مہنگائی ہے۔ اس سال کے ابتدا میں عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت 70 ڈالر فی بیرل تھی جو اب 114 ڈالر ہے۔ اسی طرح ایل این جی، کوئلہ، خوردنی تیل اور دیگر کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں بھی دگنی ہو چکی ہیں۔ اس عالمی مہنگائی نے ہماری معیشت کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طرف سے مہنگائی کی چیخ و پکار سنائی دے رہی ہے۔
معیشت کے ساتھ چوتھا المیہ میاں شہباز شریف کے وزیراعظم بنتے ہی شروع ہوگیا۔ مسلم لیگ (ن) اور اتحادی جماعتوں کو حکومت تو مل گئی تھی مگر وہ ذہنی طور پر شاید حکمرانی کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہیں مہنگائی کا سیلاب عوام کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا تھا۔ اسی کشمکش میں انہو ں نے ڈیڑھ ماہ ضائع کر دیے اور یوں سبسڈی ختم ہوئی نہ روپے کو سنبھالا مل سکا۔ ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں حکومت تھی بھی اور نہیں بھی۔ اگر شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم حکومت پہلے دن ہی اپنے کام میں جُت جاتی، سبسڈی ختم کرتی، آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرنے کے لیے تگ و دو کرتی تو یقینا آج معیشت کے حالات قدرے مختلف ہوتے۔ پانچویں المیے کی ابتدا اس دن ہوئی جب حکمران اتحاد نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ٹرم پوری کریں گے اور الیکشن 2023ء میں ہوں گے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کرنے کے لیے ایک دم سے پٹرولیم مصنوعا ت کی قیمتیں بڑھا دیں، سبسڈی ختم کی اور بجٹ میں ٹیکسز کی بھرمار کر دی۔ مہنگائی جو گزرے تین ماہ سے مصنوعی طور پر روکی گئی تھی، اسے آزادی ملی تو ہرطر ف دہائی مچ گئی۔ آئی ایم ایف نے معاہدے کی خلاف ورزی کی پوری سزا دی اور اپنی شرائط مزید کڑی کر دیں۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آنے سے پہلے جو دعوے کر رہی تھی وہ آئی ایم ایف کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں کم کرنے کے بجائے انہیں مزید بلکہ ہوشربا حد تک مہنگا کرنا پڑا اور مہنگائی کے خلاف مارچ کرنے والوں نے مہنگائی دوچند کر دی۔
معیشت کے ساتھ چھٹا المیہ سب سے زیادہ تلخ اور قابل مذمت ہے۔ ہم مانتے ہیں عالمی سطح پر مہنگائی ہے، ہمیں معلوم ہے پٹرول، ڈیزل، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا ناگزیر تھیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب سے یہ قیمتیں بڑھی ہیں حکومت کا مقامی منڈیوں اور بازاروں پر سے کنٹرول بھی ختم ہو گیا ہے۔ ہر چیز کے نرخ بڑھ گئے ہیں۔ عام دکانوں سے لے کر شاپنگ مالز تک‘ ہر کوئی من مانی قیمتیں وصول کر رہا ہے۔ انتظامیہ بے بس ہے اور حکومت لاچار۔ کھانے پینے کی وہ اشیا جن کا عالمی مارکیٹ سے کچھ لینا دینا نہیں‘ وہ بھی ڈبل نرخوں پر بیچی جا رہی ہیں۔ یوں گمان ہوتا ہے گویا مہنگائی کا سیلاب حکومتی رِٹ کو بھی بہا کر لے گیا ہے۔ اگر انتظامیہ فعال کردار ادا کرے تو بیس سے پچیس فیصد تک مہنگائی پر قابو پایا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا تعلق عالمی منڈی سے نہیں بلکہ بدانتظامی سے ہے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ جون میں مہنگائی کی شرح 21.32 فیصد رہی جو تیرہ سال کی بلند ترین سطح ہے۔ صرف ایک مہینے میں مہنگائی کی شرح میں 6.34 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ مہنگائی کا رجحان ٹرانسپورٹ کے شعبے میں دیکھا گیا جس میں 62.17 فیصد اضافہ ہوا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں مہنگائی کی بلند ترین سطح 14.6 فیصد تھی۔
مہنگائی کے اس قضیے میں سب سے افسوس ناک ساتواں المیہ ہے۔ ہم مہنگائی پر آہ و بکا کرتے ہیں مگر ہمارا مؤقف ایک دوسرے سے مختلف رہتا ہے۔ ہم مہنگائی کو لے کر بھی یک زبان نہیں ہیں۔ ہم میں ان شخصیات کی بھی کمی نہیں جو مذکورہ بالا چھ المیوں کا دفاع کرتے ہیں۔ کسی کو تحریک انصاف سے محبت ہے تو کوئی مسلم لیگ (ن) کا دیوانہ ہے۔ کوئی پیپلز پارٹی کے سحر میں گرفتار ہے تو کوئی جے یو آئی ایف سے لگاؤ رکھتا ہے۔ میرا جذباتی تاثر ہے کہ ہمارے اندر جذبۂ قومیت کا فقدان ہے۔ ہم سیاسی جماعتوں کا دفاع کرتے کرتے قومی مفادات کی بھی پروا نہیں کرتے۔ مسائل ہمارے اندر کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں۔ اگر ہم سدھر جائیں تو حکمرانوں کو سدھرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ہمیں ثابت کرنا ہو گا کہ ہم اپنے لیے انصاف مانگتے ہیں۔ ہم احمقوں کی صف میں کھڑے ہیں نہ ہی ضمیر کے چور ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved