دنیا بھر میں معاملات سمارٹ سے شروع ہوکر سمارٹ پر ختم ہو رہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ اوور سمارٹ بننے کے چکر میں عمومی سمارٹ بھی نہیں بن پارہے۔ دنیا ہے کہ ہر معاملے میں بھرپور ذہانت بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کو آسان سے آسان تر بنانے کی تگ و دَو میں مصروف ہے اور ہم ہیں کہ زندگی کو زیادہ سے زیادہ دشوار بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہر دور میں سوچنے والوں ہی نے کچھ پایا ہے۔ قدرت کسی کے لیے رحم دل ہے نہ سنگ دل۔ سب کو اپنے کیے کا پھل ملتا ہے۔ سوچ سمجھ کر کچھ کیا جائے تو مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں اور بے سوچے سمجھے کچھ بہت کچھ کرتے رہنے کی راہ پر گامزن رہا جائے تو زندگی دشوار سے دشوار تر ہوتی جاتی ہے۔
آج دنیا بھر میں اس حقیقت کو زندگی کی بنیادی اِکائی کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا ہے کہ ڈھنگ سے جینے کے لیے خالص شعوری سطح کی ذہانت ناگزیر ہے۔ زندگی پر توجہ دینے کا معاملہ بھی اب 24/7 ہے یعنی ہر روز، ہر گھڑی خبردار اور متحرک رہنا ہے۔ کوئی ایک غلطی بہت سے معاملات کو بگاڑ کی طرف لے جاتی ہے۔ معاملات اُس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ نظر چُوکی اور سب کچھ ہاتھ سے گیا سمجھیے۔ ایسے میں ہر وقت خبردار اور متحرک رہنے کے سوا کوئی بھی آپشن نہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں ہمیں سب کچھ اپنے درست مقام پر دکھائی دیتا ہے تو جان لیجیے کہ یہ کسی خود کار نظام کے تحت نہیں۔ یہ سب کچھ شعوری سطح پر ہے۔ سب اپنی اپنی ذمہ داریاں محسوس کرتے ہیں، اپنے وجود کو بہت سے معاملات میں غیر معمولی حد تک ذمہ دار تصور کرتے ہوئے چلتے ہیں‘ تب کچھ ہو پاتا ہے، زندگی کا توازن برقرار رہ پاتا ہے، ترقی کی راہ ہموار ہو پاتی ہے۔ دنیا میں کہیں بھی کچھ بھی خود بخود نہیں ہو رہا۔ کوئی یہ نہ سوچے کہ ترقی یافتہ معاشروں کا نظم و ضبط بھی خود بخود رونما یا واقع ہونے والا معاملہ ہے۔
معاشروں کو درست رکھنے پر متوجہ ہونا پڑتا ہے، ایک خاص نظم اپنانا پڑتا ہے۔ ایسا کیے بغیر خرابیوں کی راہ نہیں روکی جاسکتی۔ ہم ایک ایسی دنیا کے مکین ہیں جس میں قدم قدم پر الجھنیں ہیں۔ یہ الجھنیں ترقی یافتہ معاشروں کے لیے بھی ہیں۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں کو الجھنوں سے نمٹنے میں زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں نے اپنے بیشتر معاملات درست رکھے ہوئے ہیں اس لیے عمومی نوعیت کی الجھنیں اُنہیں زیادہ پریشان نہیں کرتیں۔ ہمارے جیسے معاشروں کا معاملہ بہت مختلف بلکہ گیا گزرا ہے۔ بہت سی عمومی نوعیت کی الجھنیں بھی ہمیں تگنی کا ناچ نچاتی ہیں۔ جب تیاری نہ کی ہو تو کوئی بھی صورتِ حال قیامت ڈھاسکتی ہے۔ آج دنیا بھر میں جاب مارکیٹ اِتنی تبدیل ہوچکی ہے کہ توجہ سے نہ دیکھنے والوں کی سمجھ میں بالکل نہیں آتی۔ یہ بھی بالکل فطری بات ہے۔ ہر معاملہ اپنی تفہیم کے لیے توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ اگر انسان متوجہ نہ ہو تو کوئی بھی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ جاب مارکیٹ ہی کو لیجیے۔ معاشی سرگرمیاں ہم سب کے لیے ناگزیر ہیں مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو اس معاملے کو پوری سنجیدگی سے لیتے ہیں، پورے شعور کے ساتھ اِسے برتنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کراچی، لاہور، راولپنڈی، ملتان، فیصل آباد اور حیدر آباد جیسے بڑے شہروں میں بھی غالب طبقے نے خود کو بدلنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ سمارٹ ورکنگ کا تصور ہمارے ہاں اب تک عہدِ طفولیت میں بھی داخل نہیں ہوا۔ سمارٹ ورکنگ یعنی اس طور کام کرنا کہ کم محنت میں زیادہ یافت یعنی آمدن ممکن ہو۔ دنیا کا ہر انسان یہی تو چاہتا ہے مگر اس کے لیے عملی طور پر کچھ کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ ہم بالعموم جس چیز کو تفکر سمجھ بیٹھتے ہیں وہ خوش فہمی، خام خیالی اور نری خواہش سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ کوئی بھی چیز محض خواہش کرلینے سے نہیں مل جاتی۔
سمارٹ ورکنگ کا تصور بہت وسیع ہے۔ ایک طرف تو تعلیم و تربیت کا معیار بلند کرنا پڑتا ہے اور دوسری طرف بہت سے دوسرے عوامل کے بارے میں بھی سنجیدہ ہونا پڑتا ہے۔ کراچی کی مثال اس سلسلے میں سب سے واضح ہے۔ شہر اتنا پھیل چکا ہے کہ لوگوں کو کام کرنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ یہ یومیہ معمول ہے یعنی ایک الجھن ہے کہ روز سامنے کھڑی ہوتی ہے اور اُس سے بالکل اُسی طور نمٹنا پڑتا ہے جس طور کسی بپھرے ہوئے بیل کو سینگوں سے پکڑ کر گرانا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ بدیہی طور پر ناگزیر سا لگتا ہے مگر فی الاصل یہ کچھ ایسا ناگزیر بھی نہیں۔ آئیے! اِس معاملے کا تھوڑا سا بے لاگ تجزیہ کریں۔ اگر کوئی شخص گھر سے پچیس تیس کلو میٹر دور کسی دکان پر کام کرتا ہے اور اُسے ماہانہ بیس‘ بائیس ہزار روپے ملتے ہیں تو روزانہ کام پر جانے اور وہاں سے آنے میں مجموعی طور پر تین گھنٹے ضائع کرنا پڑتے ہیں۔ آمد و رفت کا بھی اچھا خاصا خرچ آتا ہے اور تھکن کو آپ کس کھاتے میں رکھیں گے؟ بہت سے لوگ کام پر پہنچتے پہنچتے اتنے تھک چکے ہوتے ہیں کہ اُن سے کام ڈھنگ سے ہو نہیں پاتا یعنی مجموعی کارکردگی کا گراف گرتا ہے۔ اگر کوئی شخص پچیس ہزار روپے کی جاب کے لیے ماہانہ سات آٹھ ہزار موٹر سائیکل کے پٹرول پر خرچ کرنے پر مجبور ہو تو گھر کیسے چلائے گا؟ ایسے میں قرینِ عقل یہ ہے کہ وہ گھر سے محض دو تین کلو میٹر کے فاصلے تک کہیں کام تلاش کرے اور اگر اس سلسلے میں دو تین ہزار روپے کی قربانی بھی دینا پڑے تو کچھ ہرج نہیں۔ گھر سے پچیس کلو میٹر دور پچیس ہزار روپے کی جاب کرنے سے بہتر ہے کہ انسان گھر کے نزدیک پانچ ہزار کم کی جاب کرے۔ اِس صورت میں وہ کوئی اضافی کام کرنے کی پوزیشن میں ہوگا اور زندگی کا معیار کسی حد تک بلند کرنے میں کامیاب ہوسکے گا۔
سمارٹ ورکنگ محض یہ نہیں ہے کہ انسان کام کے سلسلے میں طویل فاصلے طے کرنے سے گریز کرے بلکہ اس میں کم محنت سے زیادہ کمانے کا تصور بھی نمایاں ہے۔ کسی بھی انسان کو زیادہ آمدن اُسی وقت ہوتی ہے جب وہ زیادہ تعلیم و تربیت یافتہ ہو۔ جس میں جتنی زیادہ قابلیت ہوتی ہے وہ اُتنا ہی زیادہ کامیاب ٹھہرتا ہے۔ چند ایک معاملات میں اگر کسی کو ناجائز سرپرستی کے ذریعے کچھ زیادہ کمانے کا موقع مل بھی جائے تو اِسے کسی بھی درجے میں کُلیے کے طور پر اپنایا نہیں جاسکتا۔ عمومی سطح پر تو وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو زیادہ ذہین اور زیادہ محنتی ہوتے ہیں۔ صرف ذہانت سب کچھ نہیں دیتی اور صرف محنت بھی تمام معاملات کو درست نہیں کرتی۔ ہمارے ہاں سمارٹ ورکنگ کا تصور اب تک عام اس لیے نہیں ہوسکا کہ لوگ بہت سے فضول معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ لوگ اپنی معاشی سرگرمیوں کا معیار بلند کرنے کے بجائے محض تفریحِ طبع کے نام پر سوشل میڈیا کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ جو وقت اپنے کام اور زندگی کا معیار بلند کرنے پر دینا ہے وہ وقت صرف اور صرف فضول سرگرمیوں کو دیا جارہا ہے۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے۔ ناگزیر ہے کہ صرف معاشرتی سرگرمیوں کو اہمیت نہ دی جائے بلکہ معاشی معاملات کا درجہ بھی بلند کیا جائے، اُن کی پیچیدگی بھی دور کی جائے۔ زندگی کا حُسن توازن میں مضمر ہے۔ کوئی ایک معاملہ بھی غیر متوازن ہو تو زندگی کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے، اپنی ڈگر سے ہٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
سمارٹ ورکنگ کا تصور پوری سنجیدگی سے اپنانے کا وقت آچکا ہے۔ نئی نسل کو کیریئر کے حوالے سے تیار کرتے وقت اُسے یہ سکھانا بھی لازم ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے بھرپور ذہانت کے ساتھ کرنا ہے اور معاشی معاملات میں تو ذہانت کو بروئے کار لائے بغیر چارہ نہیں۔ اس حوالے سے تعلیمات عام کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں معاشی سرگرمیوں کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے ماہرین جو کچھ سوچ رہے ہیں اُس کے بارے میں نئی نسل کو زیادہ سے زیادہ بتانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بہتر زندگی کے لیے معیاری انداز سے تیار ہوسکے۔ معاشی معاملات کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب کام کرنا ہی ہے تو ذہانت کے ساتھ کیوں نہ کیا جائے؟ یعنی سمارٹ ورکنگ ناگزیر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved