تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     06-07-2022

اتنی حسیاسیت کا اندازہ نہ تھا

مختلف جگہوں پر ذکر ہوچکا ہے کہ ایک صاحب ہمیں لاہور ملنے آئے۔تعارف کرایا کہ فلاںمحکمے سے تعلق ہے۔خوشگوار گفتگو ہوئی‘ کہنے لگے کہ ایک بات کہنی ہے۔ میں نے کہا: فرمائیے! تو کہنے لگے کہ سر ذراہاتھ ہولا رکھا کریں۔قدرے تعجب ہوا کہ یہ کیسا اندازِ گفتگو ہے، لیکن پوچھا کہ اُن کی مراد کیا ہے۔ اوپر کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرکے کہنے لگے کہ بس اُس جانب ذرا خیال رکھا کریں۔ اصرار پر نام بھی لے دیاکہ اُن کا اشارہ کس جانب ہے۔
میں نے ذرا حیران ہوکر کہا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، ہمارا اُس جانب کیا لینا دینا۔ملازمت اتنے ماہ رہ گئی ہے ، جن کے بارے میں اتنی فکر کا اظہار آپ کررہے ہیں اس عرصے کے بعد گھر چلے جائیں گے اورحالات نارمل ہو جائیں گے۔ کہنے لگے کہ آپ نہیں سمجھے ، بڑے اچھے کام ہو رہے ہیں اورملک کی دیرینہ سمت درست ہو رہی ہے۔میں نے کہا :یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہوگی لیکن ہمارا ایسے مسئلوں سے کیا تعلق اور ویسے بھی عمومی طور پر ہمارا رویہ اس قسم کی گفتگو میں محتاط ہی رہتا ہے۔کہنے لگے: بس خیال رکھا کریں اوراس نکتے پر ہماری میٹنگ ختم ہوئی اور ہم باہر لاؤنج کے دروازے تک مہمان کو چھوڑنے آئے۔
اس ملاقات کے کچھ دن بعد اسلام آباد کے ایک معروف ہوٹل میں اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایک سیمینار منعقد کررکھا تھاجس میں ہم بھی مدعو تھے۔ موضوع سیمینار کا 'رجیم چینج‘ تھا، یعنی عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے سے ہٹانے کا عمل۔ جب دعوت آئی تھی تو مجھے بتایا گیا کہ عمران خان بھی ہوں گے۔ میںنے کہا کہ رہنے دیجئے تقریریں سن سن کر تھک چکے ہیں اور مزید تقریریں سننے کی ہمت نہیں۔لیکن پھر کسی اور نے جن سے ہماری پرانی علیک سلیک ہے‘ فون پکڑا اور ہنس کے کہا کہ نہیں ایاز! تمہیں آنا ہوگا۔انکار ممکن نہ تھا اور گاؤں سے سیمینار میں شریک ہونے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے۔
سیمینار کے انتظامات بڑے اعلیٰ تھے۔ وکلا اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کی خاصی تعداد موجودتھی۔عموماً ایسی تقریبات میں مقررین کی فہرست لمبی ہوتی ہے لیکن صرف تین مقررین کو مدعوکیا ہوا تھا: لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی، سابق سیکرٹری خارجہ جناب شمشاد احمد خان اور مجھے۔آخر میں سابق وزیراعظم عمران خان صاحب نے بولنا تھا۔ابتدائیہ کلمات اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر جناب شعیب شاہین ایڈووکیٹ نے اداکیے۔نہایت عمدہ اور جامع اُن کی تقریر تھی۔جنرل صاحب کی تقریر بھی بہت اعلیٰ پائے کی تھی۔ شمشاد صاحب تو ویسے ہی بہت اچھا بولتے ہیں۔ اُن کی تقریر بہت ہی اچھی تھی۔ اپنی باری پر میں نے دو تین نکات اُٹھائے جن میں سے میرا خیال ہے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ میں نے عمران خان صاحب، جو میرے سامنے بیٹھے تھے ،سے مخاطب ہوکر کہا کہ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہو گیا اور وہ ہو گیا لیکن اس ضمن میں آپ سے پوچھنا بنتا ہے کہ توسیع دینے کا شوق آپ کے دل میں کیسے پیدا ہوا۔ یہ سن کر وہ ہنس پڑے اورٹی وی کیمرہ والوں کا کمال ہے کہ میں بول رہا تھا تو کیمروں کا رخ میری طرف ہوتا اور جب عمران خان ہنستے تو اُن کے چہرے کے تاثرات کو پکڑنے کیلئے فوراً اُن کی طرف گھومتے۔یعنی میری تقریر کے دوران یہ ہوتا رہا کہ میرا بولنا اورخان صاحب کا ردِعمل بڑی خوبصورتی سے دکھایا جاتا رہا۔
میں نے یہ بھی کہا کہ معاملاتِ حکمرانی میں روایات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ برطانیہ میں بہت سارے موضوعات پر باقاعدہ قانون سازی نہیں ہوئی لیکن صدیوں پرانی روایات ہیں جن پر عمل ہوتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ برطانیہ کا آئین غیر تحریرشدہ ہے۔میں نے کہا کہ ہمارے ہاں بھی اہم تقرریوں کے حوالے سے قانون اگر نہ بھی ہو تو روایات ہیں جن کو بنیاد بنا کر عمل ہوتا رہا ہے۔ لہٰذا جسے ہم مقتدرہ کہتے ہیں اُس کی تقرریوں پر سپریم کورٹ جانے کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن کوئی شخص سپریم کورٹ گیا اور وہاں سے یہ کلمات آئے کہ اہم تقرری کے بارے میں کوئی قانون ہی نہیں ہے اور اس مسئلے پر کچھ غورہونا چاہئے۔
عمران خان صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے میں نے کہا کہ یہاں پر حکومت کو سٹینڈ لینا چاہئے تھا کہ جو روایات چل رہی ہیں وہی کافی ہیں اور اس مسئلے پر قانون سازی کی کوئی ضرورت نہیں۔ لیکن آپ نے ایسا سٹینڈ نہ لیا ، مسئلہ قومی اسمبلی میں گیا جہاں ایک ایسے قانون کی منظوری ہوئی جس نے روایات کو تبدیل کرتے ہوئے یہ لکھ دیا کہ یہ اہم تقرری کچھ زیادہ عرصے کیلئے ہو سکتی ہے۔جب میں یہ گزارشات پیش کررہا تھا تواس دوران ٹی وی کیمرے عمران خان کی طرف جاتے رہے اور دکھاتے رہے کہ وہ مسلسل ہنس رہے ہیں۔کچھ اور موضوعات بھی میں نے اُٹھائے پراپرٹی ڈیلروں کے بارے میں ، ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے بارے میں ، سیمنٹ فیکٹریوں کے بارے میں لیکن آخر میں یہ عرض کیا کہ جو بھی ہے پاکستان کیلئے آپ ہی ایک آپشن رہ گئے ہیں۔ پاکستان نازک حالات سے گزررہا ہے ، ملک کو سنبھالنے کی اشد ضرورت ہے۔ میری دعا ہے کہ جو تاریخی موقع ملک کے سامنے ہے آپ اُس پر پورا اتریں۔
تقریر ختم ہوئی تو سامعین ہال میں موجود مختلف لیڈران سے ملنے اور سلفیاں بنانے میں مصروف ہو گئے۔ میرے ساتھ چکوال سے ملک زعفران ایڈووکیٹ اور معروف کاروباری شخصیت راجہ نذیر آئے ہوئے تھے۔ ہم چپکے سے وہاں سے نکلے اور ابھی ہوٹل کی لابی میں ہی تھے کہ اُس شخص کا میسج آیا جو ہم سے لاہور ہوٹل کے کمرے میں ملنے آیا تھا۔میسج میں یہ لکھا تھا کہ سر آپ نے پھر ہماری بات نہیں مانی۔مجھے میسج کے الفاظ اچھے نہ لگے لیکن تب تک فون پر تقریر کے حوالے سے پیغامات آنے شروع ہوگئے تھے۔ ہم وہاں سے نکلے اور اسلام آباد کلب کی طرف چائے پینے چلے گئے۔ کچھ دیر بعد اُنہی صاحب کا پھر میسج آیا کہ سر میں نے پوری تقریر سنی ہے اور آپ کی تقریر بڑی متوازن اور مثبت ہے۔ میں نے ان پیغامات کو کوئی خاص اہمیت نہ دی اوردوسرے دن اپنا ٹی وی پروگرام کرنے کیلئے لاہور روانہ ہو گیا۔
رات کو مقررہ وقت پر ہمارا پروگرام ختم ہوا اور جب ہوٹل میں جانے کیلئے اپنی گاڑی میں بیٹھا تو فون میں میری اسلام آباد کی تقریر کے حوالے سے پیغامات کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ میں اُن کو دیکھنے میں مصروف ہو گیا اور اقبال جو ہماری گاڑی چلاتا ہے ہوٹل کی طرف روانہ ہوا۔ دنیا نیوز کا دفتر پرانی ایبٹ روڈ پر واقع ہے۔ گیٹ سے گاڑی ہماری نکلی اور سڑک پر بائیں جانب مڑی۔دفتر کے سامنے چہل پہل رہتی ہے لیکن بائیں مڑتے ہی ڈی جی پی آر کا دفتر ہے اوراُس سے ملحقہ پاکستان ٹیلی ویژن سٹیشن واقع ہے۔اور اُس کے آگے دائیں طرف تو چند دکانیں ہیں لیکن بائیں جانب غالباً ریڈیو پاکستان کی دیوار ہے اور یہ مخصوص علاقہ رات کے وقت ذرا سنسان رہتا ہے۔میں تو فون دیکھنے میں مصروف تھا لیکن اسی اثنا ہماری گاڑی کا راستہ ایک اور گاڑی نے روکا۔ دائیں بائیں کچھ لوگ نمودار ہوئے اور وہ واقع پیش آیا جو خبروں کی زینت بن چکا ہے۔
حملے کے ساتھ ساتھ میرے اور اقبال کے فون اٹھا لئے گئے۔ دوسرے دن نیا فون لینا پڑا اور ہم نے اپنی پرانی سِم چالو کروائی۔ سم میں تمام پرانا ڈیٹا محفوظ تھا لیکن جو صاحب ہمیں ملنے آئے تھے اُن کی کالز اور پیغامات غائب تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved