تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     20-08-2013

دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی

ایک زمانے سے چلن یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کی ذِلّت میں عِزّت تلاش کرتے آرہے ہیں۔ ہم کِسی ٹورنامنٹ میں آگے نہ بڑھ سکیں تو بھارت میں عوام خوش دکھائی دیتے ہیں۔ پھر ہماری دُعا صرف یہ ہوتی ہے کہ بھارت بھی آگے نہ بڑھے، اور جب اُس کی ٹیم بھی ٹورنامنٹ سے نکل جاتی ہے تو دِل کو سُکون سا ملتا ہے کہ ہم ڈوبے ہیں تو کیا ہوا، وہ بھی تو ڈوب ہی گئے! ہم دو ہمسایوں میں سے ہر ایک کی شادمانی کا مدار دوسرے کی ناکامی پر ہے! روایتی حریفوں کی خوشیاں ایسی ہی باتوں سے برقرار رہا کرتی ہیں۔ شرمندگی تھی کہ کم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ یہ کیا کہ ہم ایٹمی طاقت بھی ہوں اور معمولی اشیاء کی قِلّت پر قابو نہ پاسکیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ہم آلو، پیاز، ٹماٹر اور دیگر معمولی اشیائے خور و نوش کے اسیر تھے اور پلکوں کے ساتھ ساتھ گردن بھی جُھکی رہتی تھی۔ دُنیا ہنستی تھی کہ ایٹمی ہتھیار بنانے والے سبزی کی پیداوار بھی طلب کی سطح پر لانے کے قابل نہیں! توانائی کا بحران بھی ایسی حالت کو پہنچ گیا کہ ہمارے پاس شرمندہ ہونے کے سِوا چارہ نہ رہا۔ لِکھنے والے بھی تو ذلیل ہی کرتے رہتے ہیں۔ ’’بے چاری‘‘ حکومت ایٹمی طاقت ہونے کا طوق گردن میں ڈالے خجالت کا شکار رہی۔ اب شاید اسلام آباد کے یخ بستہ کمروں میں رہنے والوں کو سُکون کی تھوڑی سی گرمی میسر آئی ہو۔ بات یہ ہے کہ خود کو علاقائی سُپر پاور گرداننے والے بھارت میں بھی حکومت کو پیاز اور ٹماٹر نے پچھاڑ دیا ہے۔ ایک طرف تو دِلّی کی مرکزی حکومت ہے اور دوسری طرف دِلّی کی ریاستی (صوبائی) حکومت۔ اور دونوں کو تِگنی کا ناچ نچایا ہے پیاز، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں نے۔ دِلّی کی وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشٹ کو اپوزیشن نے اُتنا تنگ نہیں کیا جتنا پیاز نے رُلایا ہے! جی ہاں، ایک ذرا سی پیاز نے۔ کبھی سوچیے تو سہی کہ پیاز کی اوقات ہی کیا ہے؟ چھلکے اُترتے جاتے ہیں اور پیاز ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی ٹائیں ٹائیں فِش۔ اِس پر بھی پیاز کا غَرّہ ملاحظہ ہو کہ حکومت کو ہلانے پر تُلی رہتی ہے۔ اِس معمولی سے اشک آور پیاز کے ہاتھوں شیلا ڈکشٹ کو یہ دیکھنا پڑا کہ اُن کے گھر کے آگے اپوزیشن ارکان نے ٹھیلے لگاکر پیاز بیچی! اِس خطے کی سیاست بھی کیسے کیسے تماشے کھڑے کرتی ہے اور دُنیا کو کِس کِس طرح ہنسنے کے مواقع فراہم کرتی ہے! اِسے بلا خوفِ تردید انگریزی میں politicomedy قرار دیا جاسکتا ہے! شیلا ڈکشٹ کی ساری ’’گڈ گورننس‘‘ دھری کی دھری رہ گئی اور اب اُنہیں ’’گڈز‘‘ گورننس کی فکر لاحق ہے۔ شیلا جی کو اِس ڈھلی ہوئی عمر میں پیاز اور ٹماٹر جیسی ٹکے ٹکے کی چیزوںکے ہاتھوں یہ دن بھی دیکھنا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی واقعی اپوزیشن والے مزاج کے ساتھ پیدا ہوئی ہے۔ بات کا بتنگڑ بنانے کا صرف موقع ملنا چاہیے۔ باقی کام اُس کا ہے۔ پیاز اور ٹماٹر نے بی جے پی کو حکومت کی صرف اُنگلی پکڑائی، کلائی اُس نے خود پکڑ لی اور اِس طرح کہ حکومت کی کلائی مُڑی جارہی ہے مگر جان نہیں چُھوٹ پارہی۔ متعدد بھارتی ریاستوں میں کئی ماہ سے پیاز کا بحران ہے، اور ٹماٹر نے بھی اُس کا خوب ساتھ دیا ہے۔ مگر خیر، دونوں میں مُسابقت بھی رہتی ہے۔ کبھی پیاز برتری پاتی ہے اور کبھی ٹماٹر سَر چڑھ کر ناچنے لگتا ہے۔ جس طرح کوئی ضِدّی بچہ پیڑ پر چڑھ کر اُترنے کا نام نہیں لیتا، بالکل اُسی طرح پیاز اور ٹماٹر کے دام چڑھ جائیں تو نیچے آنے کے ذِکر سے بھی چِڑتے ہیں! عام آدمی کے گھریلو بجٹ کی تو مِٹّی پلید ہوکر رہ گئی ہے۔ بے چارہ بنیادی اشیاء کا غلام ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک کو مناؤ تو دوسری روٹھ جاتی ہے۔ دوسری کو منانے کی فکر کیجیے تو تیسری کا مُنہ پھول جاتا ہے۔ کیا زندگی اِسی میں گزر جائے گی؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ دو ایٹمی طاقتیں سبزی ترکاری کی غلام ہوکر رہ گئی ہیں۔ توانائی کا بحران تو سمجھ میں آتا ہے کہ تکنیکی معاملہ ہے، تِگنی کا ناچ نچا بھی سکتا ہے۔ مگر اب کیا ٹکے ٹکے کی سبزیاں بھی ہم سے کِھلواڑ کریں گی؟ اور کریں گی کیا، کر رہی ہیں! دُنیا ہمیں دیکھتی اور ہمارے بارے میں پڑھتی ہوگی تو کیا سوچتی ہوگی؟ اور کیا سوچنے کے قابل رہ پاتی ہوگی؟ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو جاتی ہوگی! دو قومی نظریے کی تکذیب کی خاطر اور 1947ء کی تقسیم کو غلط ثابت کرنے کے لیے بھارتی سیاست دان یہ کہتے نہیں تھکتے کہ دونوں ممالک کے جغرافیائی حالات، ثقافتی پس منظر سب کچھ ایک سا ہے۔ اُن کی بات آلو، پیاز اور ٹماٹر کی حد تک تو درست ثابت ہوگئی ہے! یہ تمام اشیاء کبھی گھروں میں رُلتی پھرتی تھیں اور کوئی پوچھتا نہ تھا۔ اب یہی چیزیں پہنچے ہوئے عاملوں کی طرح دونوں حکومتوں کا ناک میں دَم کر رہی ہیں۔ جس طرح دیگ پکنے کے بعد دَم پر رکھی جاتی ہے بس کچھ اُسی طرح پاکستان اور بھارت کی حکومتیں بھی اِن معمولی سبزیوں کے ہاتھوں دَم پر ہیں! صورتِ حال کی سنگین نوعیت کا تقاضا ہے کہ کچھ کیا جائے۔ ؎ ہم کو بھی غم نے مارا، تم کو بھی غم نے مارا ہم سب کو غم نے مارا، اِس غم کو مار ڈالو! ہم بھارت کو دُشمن گردانتے ہیں، وہ ہمیں دُشمن نمبر ون سمجھتا ہے۔ مگر دونوں ممالک کی قیادت کو یہ اندازہ نہیں کہ اِن دونوں کے مشترکہ دُشمن پیاز اور ٹماٹر ہیں! کبھی کبھی اِن دونوں کے ساتھ ساتھ آلو، مرچ، ادرک، لہسن وغیرہ بھی دُشمنی میں حِصّہ ڈالتے ہیں! غریب آدمی بے چارہ کبھی پیاز ٹماٹر سے کچومر بناکر پیٹ بھرلیا کرتا تھا، اب کچومر بھی فائیو اسٹار ہوٹلز کا آئٹم ہوکر رہ گیا ہے۔ جن چیزوں کو کھاکر غریب پیٹ بھرا کرتا تھا وہ چیزیں اب غریب کا بجٹ کھاکر اُسے بھوکا رہنے پر مجبور کر رہی ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے اقدامات سے قبل پیاز، ٹماٹر اور اِن دونوں کے ’’ہم نواؤں‘‘ کو شکستِ فاش دی جائے۔ یہ چھوٹے چھوٹے ٹنٹے ختم ہوں گے تو ہم ایٹمی جنگ کی بات کرتے ہوئے کچھ اچھے بھی لگیں گے! صوفی تبسم نے خوب کہا ہے ؎ ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کرسکو! جو کچھ کرنا ہے، فوری کرنا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ پانی بھی سَر سے گزر جائے اور ہم صرف دیکھتے رہ جائیں۔ نمرود کے لیے مَچّھر پیدا کیا گیا تھا اور ہمارے لیے پیاز، ٹماٹر کو میدان میں لایا گیا ہے۔ جب بھی حکومت کا دماغ خراب ہوتا ہے تو پیاز اور ٹماٹر کے نِرخ بُلند ہوکر اُسے درست کرنے پر تُل جاتے ہیں! ہم جب پیاز اور ٹماٹر کے نِرخ نیچے لانے میں کامیاب نہیں ہو پارہے تو امریکی ڈرون کِس طرح گرائیں گے؟ ہر سال رمضان کے آخری عشرے میں ٹماٹر بھی کہیں چُھپ جاتا ہے اور لوگ اُس کی رویت کو بھی ترستے رہتے ہیں۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ اب عید پر رویتِ ہلال کے ساتھ ساتھ رویتِ ٹماٹر کے لیے بھی کمیٹی بنانی پڑے گی! ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو ممالک کے لیے پیاز اور ٹماٹر جیسی اشیاء چیلنج بن گئی ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ یہ مِل بیٹھیں اور پیاز، ٹماٹر کو جامع مذاکرات کے ایجنڈے میں سرِفہرست رکھیں تاکہ دُنیا کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے! جن چیزوں سے دو ایٹمی طاقتوں کی بَھد اُڑ رہی ہے اُنہیں شکست دینے کے لیے مِل بیٹھ کر ہی کچھ کرنا ہوگا۔ قدم قدم پر دو معمولی سبزیوں کے ہاتھوں ذلیل ہونا کوئی ایسی بات نہیں جسے برداشت کیا جائے۔ اچھا ہے دونوں ممالک ایک بار ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر پیاز، ٹماٹر اور دیگر سبزیوں کو اُن کی اوقات پر لے آئیں۔ اِن دو تین چیزوں کے ہاتھوں دونوں ہی حکومتوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ع دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی! یہ آگ بُجھے تو ہم تھوڑا سُکھ پائیں، عالمی برادری میں ناک اُونچی رکھنے کا کچھ تو سامان ہو۔ رہا جنگ و جَدل کا معاملہ تو اُس کی تیاریوں کے لیے تو عمر پڑی ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved