اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا میں مختلف قسم کے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد بدی کے راستے پر کاربند ہوکے جہاں انسانیت کو نقصان پہنچاتی ہے وہیں یہ لوگ آنے والی نسلوں میں اپنے سیاہ کارناموں اور انجام کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔ فرعون، قارون، ہامان، شداد اور ابولہب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے جہاں انجامِ بد سے دوچار ہوئے‘ وہیں آج تلک ان کو ان کے برے کردار کے سبب یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے مدمقابل بہت سی شخصیات اس دنیا میں اچھا وقت گزار کر رخصت ہو تی ہیں۔ یہ شخصیات اپنے کردار وعمل سے ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتی ہیں۔ اُن لازوال شخصیات میں جہاں پر صلحا، اولیا، اتقیا شامل ہیں‘ وہیں ان بے مثال شخصیات میں سب سے بلند تر رُتبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو عطا کیا ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت وکردار کے نقوش اپنے اپنے ادوار میں انسانیت پر ثبت رہے اور یہ عظیم ہستیاں اپنے کردار وعمل کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی جمعیت میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقام اس اعتبار سے انتہائی بلندوبالا ہے کہ آپ علیہ السلام نے جس انداز سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی خدمت کی، اور اپنے آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے لیے وقف کیے رکھا‘ وہ آنے والی تمام نسلوں کے لیے ایک مثال بن گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے جمیع انسانیت کے لیے ایک نمونہ بنادیا اور اُمت مسلمہ کے لوگوں کو ان کی ملت قر ار دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو روحانی باپ کا درجہ دے دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کارہائے نمایاں میں یہ بات شامل ہے کہ آپ علیہ السلام کسی قسم کے خوف کو خاطر میں نہیں لائے اور آپ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی سربلندی کے لیے ہر قسم کے دباؤ کو ٹھکرا دیا۔ آپ علیہ السلام نے نہ تو بستی والوں کی مخالفت کی پروا کی‘ نہ ہی اپنے والد آزر کی ناراضی سے مرعوب ہوئے اور نہ ہی آپ علیہ السلام نے حاکمِ وقت نمرود کی اطاعت کو قبول کیا۔ آپ علیہ السلام نے جوانی میں بت کدے میں جا کر کلہاڑا چلایا اور بستی والوں کی آمد پر ان بتوں کی بے وقعتی کو اُن پر واضح کر کے رکھ دیا اور اُن کو یہ سبق دیا کہ جو بت اپنا دفاع نہیں کر سکتے وہ انسانوں کے نفع ونقصان کے مالک بھی نہیں ہو سکتے۔ بستی والوں اور حاکم وقت کی مخالفت کی وجہ سے آپ علیہ السلام کو مختلف ابتلاؤں کو سہنا پڑا۔ آپ کے لیے آگ کو جلایا گیا اور اسے اچھی طرح بڑھکایا گیا اور اس میں آپ علیہ السلام کے وجود ِ اطہر کو اُتارا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ جلتی ہوئی آگ میں اُترنا گوارا کر لیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آگ کو آپ کے لیے سلامتی والی ٹھنڈک میں تبدیل کر دیاا ور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل کو رہتی دنیا تک کے لیے ایک نمونہ بنا دیا اور اس بات کو واضح کر دیا کہ اگر پوری دنیا بھی کسی انسان کو نقصان پہنچانا چاہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو محفوظ کرنا چاہے تو پوری دنیا مل کر بھی اس کے بال کو بیکا نہیں کر سکتی۔
آپ علیہ السلام نے جہاں بتوں کی بے وقعتی اور بے بضاعتی کو ثابت کیا‘ وہیں آپ نے اجرام سماویہ کی حقیقت کو کچھ اس انداز میں واضح کیا کہ آپ علیہ السلام نے تارے کو ڈوبتا دیکھ کر اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا اور چاند کو ڈوبتا دیکھ کر اللہ تبارک وتعالیٰ سے رہنمائی طلب کی اور سورج کو ڈوبتا دیکھ کر اس امر کا اعلان فرما دیا کہ میں اپنے چہرے کا رُخ اس اللہ کی طرف کرتا ہوں جس نے زمین وآسمان کو بنا دیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام دربارِ نمرود میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے علم کو اُٹھا کر داخل ہوئے اور نمرود پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی کبریائی کو واضح کیا کہ میرا رب وہ ہے جو مارتا بھی ہے اور زندہ بھی کرتا ہے، اس دلیلِ واضح کو قبول کرنے کے بجائے نمرود نے اس کی تاویل کی اور ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ایک مجرم کو آزاد کر دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے مقابلے میں یہ دلیلِ واضح پیش کی کہ میرا رب وہ ہے جو سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے پس تُو اس کو مغرب سے لے کر آ! جواب میں نمرود کے لبوں پر چپ کی مہر لگ جاتی ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور کبریائی کے پرچم کو سربلند کر دیا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے خوف کو خاطر میں نہ لائے‘ وہیں آپ علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے محبتوں کی بھی قربانیاں دیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور ننھے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو وادی ٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا۔ ہر شخص کو اپنی بیوی بچوں کے ساتھ پیار اور محبت ہوتی ہے اور کوئی بھی شخص ان کو ویرانوں میں چھوڑنا گوارا نہیں کرتا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو ویرانے میں چھوڑ کر اس بات کو ثابت کر دیا کہ آپ کے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی والہانہ محبت ہے اور آپ اس محبت پر دنیا کی کسی بھی محبت کو ترجیح دینے پر آمادہ وتیار نہیں۔ بعدازاںحضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو دیکھنے کے لیے مکہ مکرمہ میں تشریف لاتے رہے۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام دوڑ دھوپ کے قابل ہوئے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک خواب دکھلایا جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری کو چلا رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اس خواب کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سامنے رکھا اور اُن کی رائے طلب کی جس پر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے والہانہ جواب دیا کہ بابا!آپ اس بات پر عمل کر گزریے جس کا آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو لٹایا اور آپ علیہ السلام کے گلے پر چھری چلانے کے لیے آمادہ وتیار ہو گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی قربانی کو قبول ومنظور فرما کر جنت کے مینڈھے کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر قربان کر ا دیا اور رہتی دنیا تک کے لوگوں پر اس بات کوواضح کر دیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر اپنے تن‘ من‘ دھن کو نچھاور کرنا پڑے تو انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے اوامر کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرنا چاہیے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے آپ علیہ السلام کی اتباع کو جاری وساری کر دیا۔ عید الاضحی کے موقع پر بڑے ذوق وشوق کے ساتھ جانوروں کی خریداری کی جاتی ہے لیکن اس موقع پر قربانی کے حقیقی مقصد کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جذبے کو بھلا دیا جاتا ہے کہ جس جذبے کے ساتھ آپ علیہ السلام نے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر چھری کو رکھا تھا آج وہ عزم اور جذبہ قربانی کرنے والے لوگوں میں مفقود ہے۔ ہمیں قربانی کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طرزِ عمل سے استفادہ کرنے کی ضروت ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ محبت اگر ہونی چاہیے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے ہونی چاہیے اور نفرت اگر ہونی چاہیے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دشمنوں سے ہونی چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثالی زندگی کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اپنی ذات میں ایک اُمت قرار دیا ہے اور قرآن مجید میں آپ علیہ السلام کی تحسین فرماتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آپ نے کلمۂ توحید کو اپنے بعد آنے والے لوگوں کے لیے ایک زندہ دعوت بنا دیا ہے۔
یقینا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طرزِ عمل ہمارے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہمیں بھی زندگی کے نشیب وفراز کے دوران اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کاربند رہنا چاہیے اور قربانی کرتے وقت اس روح کو اپنے دل میں جگہ دینی چاہیے جس روح اور جذبے کے تحت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی چھری کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلوئے اطہر پر رکھا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طرزِ عمل سے استفادہ کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے، آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved