سارا کمال سوچ کا ہے۔ جو سوچتے ہیں وہی عمل کی دنیا میں ڈھنگ سے قدم رکھتے ہیں۔ سوچنے کے فن میں حاصل کی جانے والی مہارت سے زندگی کا معیار ایسا بلند ہوتا ہے کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی ہے۔ سوچنے ہی کی بدولت انسان عمومی روش ترک کرکے خصوصی راہوں کی طرف بڑھتا ہے۔ سوچ ہی تو ہے جو کسی بھی انسان کو گروہ کے باقی ارکان سے الگ اور ممتاز کرتی ہے۔ سوچنے کا عمل ترک کرنے سے زندگی ٹھہرے ہوئے پانی کی مانند ہو جاتی ہے یعنی اُس میں کائی جمنے لگتی ہے، تعفن اٹھنے لگتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سوچ ہے کیا؟ کس عمل کو ہم تفکر کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہمارے ذہن کے پردے پر اُبھرنے والی ہر بات سوچ کے زُمرے میں شامل ہے؟ عام آدمی ذہن کے پردے پر اُبھرنے والی ہر بات کو سوچ سمجھ بیٹھتا ہے۔ سوچ ایک باضابطہ عمل ہے جو انسان کو شعوری سطح پر انجام دینا ہوتا ہے۔ ہم اپنے ماحول میں جو کچھ دیکھتے ہیں اُس کے نتیجے میں ہمارے ذہن میں کچھ نہ کچھ ردِعمل پیدا ہوتا ہے۔ یہ ردِعمل سراسر فطری ہے کیونکہ ہم جیتے جاگتے حیوان ہیں، محسوس کرنے والی مخلوق ہیں نہ کہ پتھر کی سِل۔ ہم میں زندگی بھی ہے، احساس بھی اور جذبات بھی۔ کسی بھی چیز کو دیکھ کر جو پہلا اور بدیہی یعنی بالکل سامنے کا ردِعمل ہوتا ہے وہ احساس کہلاتا ہے۔ احساس کو تھوڑا پروان چڑھائیے تو جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ احساسات اور جذبات کی منزل سے آگے بڑھیں تو خیالات کی منزل آتی ہے۔ کسی بھی معاملے میں سوچنا ایک باضابطہ عمل ہے جسے شعوری سطح پر انجام دینے ہی پر مطلوب نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ محض محسوسات اور جذبات کو سوچ یا خیالات کا نام دینے سے دل کی جھوٹ موٹ کی تشفی تو ہوسکتی ہے، حقیقی تسکین کا اہتمام نہیں ہو پاتا۔ ہم زندگی بھر تفاعل کی منزل سے گزرتے رہتے ہیں۔ تفاعل یعنی دوسروں سے معاملات۔ کوئی بھی انسان تنہا نہیں جی سکتا۔ معاشرے سے ہٹ کر، کٹ کر جینا کسی بھی درجے میں جینا نہیں ہوتا۔ ڈھنگ سے جینا اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب انسان اخلاص کے ساتھ اپنے معاملات نمٹاتا ہے، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھتا ہے، اپنے حقوق کا احساس دلاتا ہے اور اپنے فائدے کے لیے کسی کا نقصان یقینی بنانے سے گریز کرتا ہے۔ عام آدمی زندگی بھر اپنے محسوسات اور جذبات ہی کو خیالات سمجھ کر خوش ہوتا رہتا ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ میں نے کچھ سوچا ہے تو وہ دراصل کسی بھی معاملے میں اپنے احساسات اور جذبات کی بات کر رہا ہوتا ہے۔ سوچنا قدرے پیچیدہ عمل ہے جو پلک جھپکتے میں شروع نہیں ہو جاتا۔ کسی بھی معاملے میں جب حقائق ہمارے پاس ہوں اور معقول فرصت بھی میسر ہو تب کچھ سوچا جاسکتا ہے۔ سوچنے کے عمل میں ذہن عمومی سطح سے بلند ہوکر وہاں پہنچتا ہے جہاں اُسے اپنے اور دوسروں کے معاملات قدرے واضح دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں وہ اپنے آپ کو باقی گروہ سے بلند رکھ کر دیکھتا ہے۔ جب معاملات بالکل واضح دکھائی دے رہے ہوں تب انسان سوچنے کے قابل ہو پاتا ہے۔
ماحول میں جو کچھ پایا جاتا ہے اُس کے تجزیے سے سوچنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ہم اپنے روزمرہ معمولات میں بہت سے لوگوں سے گفت و شنید کرتے ہیں، کسی کو کچھ دیتے ہیں، کسی سے کچھ لیتے ہیں۔ زندگی لین دین کا نام بھی تو ہے۔ یہ سب کچھ ہماری نفسی ساخت کو متاثر کرتا ہے۔ متاثر کرنے کا مطلب نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اثر انداز ہونا ہے۔ جب ماحول ہم سے کسی شدید ردِعمل کا تقاضا کرتا ہے تب سوچنے کی ضرورت پیدا ہوتی ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی معاملے میں فوری اور شدید ردِعمل ہی کو سوچ سمجھ کر اپنا دل بہلانے لگتا ہے۔ محض ردِعمل کو سوچ قرار دینے سے کسی بھی معاملے کا حق ادا نہیں ہو جاتا۔ بات اِس سے آگے کی ہے۔ سوچنے کا عمل انسان کو دوسروں سے بلند کرتا ہے۔ سوچنے ہی کی بدولت انسان اپنی زندگی میں وہ نظم پیدا کرنے کے قابل ہو پاتا ہے جس سے حقیقی تبدیلی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ یہ معاملہ چونکہ تھوڑا سا پیچیدہ ہے اس لیے عام آدمی اِس سے کتراتا، جان چھڑاتا ہے۔ وہ اِس بات کو بہت اچھی طرح سمجھتا ہے کہ سوچنے ہی سے زندگی کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ اس عمل سے بھاگتا ہے کیونکہ ذہن پر دباؤ پڑتا ہے، کسی سے مشاورت بھی کرنا پڑتی ہے، پڑھنا بھی پڑھتا ہے، مشاہدات کو بھی بروئے کار لانا پڑتا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جو سوچنے کے عمل کو پروان چڑھاکر بہت کچھ ممکن بناچکی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ جو کچھ بھی ہے وہ سوچ ہی سے ہے۔ وہاں عام آدمی کو بھی سوچنے اور غور کرنے کے قابل بنانے پر توجہ دی گئی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں عام آدمی اِسی لیے عام کہلاتا ہے کہ وہ عمومی سطح پر رہتا ہے مگر ترقی یافتہ معاشروں میں عمومی سطح بھی کمزور معاشروں کی خصوصی سطح سے خاصی بلند ہوتی ہے اس لیے وہاں عام آدمی بھی کسی کمزور معاشرے کے عام آدمی سے زیادہ شعور کا حامل دکھائی دیتا ہے۔ یہی خصوصیت اُسے سوچنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہونے میں بھی مدد دیتی ہے۔ ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو یہ دیکھ کر صرف مایوسی ہی ہوتی ہے کہ لوگوں نے بالکل عمومی سطح پر سوچنا بھی ترک کردیا ہے۔ کسی بھی خصوصی معاملے کو غیر معمولی سوچ درکار ہوتی ہے۔ مستحکم سوچ انسان کو ہر اعتبار سے مستحکم ہونے اور رہنے میں مدد دیتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ خصوصی معاملات کو بھی اب ہم قابلِ غور و فکر نہیں سمجھتے۔
کیریئر کسی بھی انسان کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہوتا ہے۔ جس شعبے میں پوری معاشی زندگی بسر کرنی ہو اُس کا تعین سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ صرف ذوق و شوق نہیں دیکھا جاتا بلکہ اِس سے کئی قدم آگے جاکر مستقبل میں امکانات پر بھی غور کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں نوجوانوں کی اکثریت سوچنے کی زحمت گوارا کیے بغیر کسی بھی ایسے شعبے کو زندگی بھر کے لیے اپنانے کی سمت چل پڑتی ہے جس میں ذرا سی بھی دلچسپی پیدا ہوئی ہو۔ پھر کیا ہوتا ہے؟ کچھ ہی دنوں میں دل بھر جاتا ہے تو کوئی اور شعبہ اپنایا جاتا ہے۔ بیشتر نوجوان ایسے تین چار تجربے کرنے کے بعد کوئی شعبہ حتمی طور پر منتخب کر پاتے ہیں۔ بہت سوں کو آپ زندگی بھر شعبے بدلتے ہوئے پائیں گے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوتا ہے کہ مربوط انداز سے سوچنے کا ہنر سیکھنے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ منظم زندگی کے لیے مربوط سوچ ناگزیر ہے۔ مربوط سوچ اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب معاملات کو مثبت رجحان کے ساتھ سمجھنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ مختلف معاملات پر سوچنے کے ساتھ ساتھ خیالات کو آپس میں جوڑنے کا ہنر بھی سیکھنا پڑتا ہے۔ جب خیالات آپس میں ڈھنگ سے جُڑتے ہیں تب مربوط سوچ پیدا ہوتی ہے۔ یہ سوچ انسان کو مطلوب نتائج تک پہنچنے میں غیر معمولی حد تک مدد کرتی ہے۔
سوچنے کے فن میں مہارت اور خیالات کو ڈھنگ سے جوڑنے کی اہلیت انسان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔ ایسا انسان اپنے بیشتر کام ڈھنگ سے کرتا ہے، معاشی سرگرمیوں کو بطریقِ احسن انجام تک پہنچاتا ہے۔ مربوط سوچ شخصیت کو متوازن رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ تعلیم، کیریئر اور معاشرتی معاملات میں مربوط سوچ ہی انسان کو راہ دکھاتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں حکومتیں اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ لوگ سوچنے کی صلاحیت سے بالکل ہی عاری نہ ہو جائیں۔ اُنہیں ڈھنگ سے سوچنے کی تحریک دی جاتی ہے۔ یہ تحریک مختلف شکلوں میں ہوسکتی ہے۔ عام طور پر سکول اور کالج کی سطح پر سوچ کو پروان چڑھانے کا ہنر سکھایا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ بچے محض رٹّو طوطے ہوکر نہ رہ جائیں بلکہ سوچنے کے فن میں بھی طاق ہوں۔ اور اگر طاق نہ بھی ہوں تو ماہر ضرور ہوں۔ یہ مستقل نوعیت کی مشق کا معاملہ ہے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے سوچنے کی روایت ابھی عہدِ طفولیت میں ہے۔ فکر سے عاری معاشرے تباہ ہونے میں دیر نہیں لگاتے۔ ہمارے ہاں بھی فکر سے عاری رہنے کا چلن عام ہوچکا ہے۔ یہ بہت خطرناک علامت ہے جس کے حوالے سے سنجیدہ ہونا لازم ہے۔ معاملہ تو یہ ہے کہ پانی گلے تک آچکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved