میں آج تک ایک بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب بھی معاشرے کے نادار‘ پسماندہ اور غریب ترین افراد کی فلاح کے لیے کوئی منصوبہ سامنے آتا ہے تو اس کو سراہنے کے بجائے اس پر سیاسی تنقید کیوں شروع ہو جاتی ہے؟ حال ہی میں وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے صوبے میں 100 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے تقریباً 90 لاکھ گھرانوں کے لیے بجلی مفت کرنے کا اعلان کیا تو اس پر تحریک انصاف کی جانب سے سیاسی بیانات کے نشتروں سے چاند ماری شروع ہوگئی اور یہ کہا گیا کہ یہ منصوبہ ضمنی انتخابات میں ووٹرز کو لبھانے کی کوشش ہے‘ اور وہ اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے۔ اگر پیچیدہ ترین معاشی چیلنجز کی شکار حکومت نے پنجاب کے قریباً نصف یعنی ساڑھے 5کروڑ افراد کو ریلیف دیا ہے تو اس میں مضائقہ کیا ہے؟ کالم کی انہی سطور میں (ن) لیگ پر متعدد بار تنقید ہوچکی ہے‘ انہیں ان کی پالیسیوں کے ثمرات کے حوالے سے آئینہ بھی دکھایا جا چکا ہے لیکن جہاں حکومت کوئی اچھا کام کرتی ہے تو اس کو کریڈٹ دینا بھی لازم ہے۔ پنجاب میں اگر 17 جولائی کو 20 صوبائی حلقوں میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی حلقوں میں بسنے والے کروڑوں شہریوں کو بھی نظر انداز کردیا جائے‘ وہ بھی ایسے وقت میں جب عام آدمی دو وقت کی روٹی پوری کرنے میں ہلکان ہو رہا ہے؟
حیرت یہ ہے کہ جب ہمارے یہاں اشرافیہ کو ریلیف ملتا ہے‘ چاہے وہ بینکوں سے اربوں روپے معاف کروانے کی صورت میں ہو‘ فیکٹری مالکان کے لیے بجلی یا گیس کی قیمتوں پر سبسڈی کی صورت میں ہو‘ امیر آدمی کے کاروبار کے لیے راتوں رات پالیسیاں تبدیل کرنے کا معاملہ ہو‘ تب کوئی مطالبہ کیوں نہیں کرتا کہ چند افراد کے خلاف قومی خزانے سے اربوں روپے کا فائدہ اٹھانے کا نوٹس لیا جائے؟ لیکن اگر غریب آدمی کے لیے میٹرو بس سروس شروع کی جائے‘ اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ دیا جائے یا پھر انہیں ہیلتھ کارڈ جیسی سہولت دی جائے‘ تبھی کیوں سب کے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں؟ ہم اشرافیہ کو اربوں روپے کا فائدہ دے کر خوش ہیں‘ وہی اشرافیہ جو بڑی حد تک ہمارے ملک کے مقروض ہونے اور اس کی معاشی بدحالی کی ذمہ دار ہے‘ اس کے اٹھائے قرضے کا سود بھی ہم غیر ملکی قرضہ لے کر ادا کرنے میں مطمئن ہیں‘ لیکن اسی قومی خزانے کے 100ارب روپے سے اگر ہم غریب کو بجلی مفت دیتے ہیں تو ایک ہیجان برپا ہوجاتا ہے‘ تاویلیں گھڑی جاتی ہیں‘ مصلحتیں بیان کی جاتی ہیں کہ ایسے فیصلوں کا کتنا نقصان ہوگا حالانکہ ملک کو اس حالتِ زار تک پہنچانے کا ذمہ دار ہمارا عام آدمی ہرگز نہیں۔ اگر اس ملک میں خوشحالی کے کچھ چھینٹے گرتے ہیں تو وہ ہمارے مزدوروں‘ کسانوں اور محنت کشوں کے ثمرات کے باعث ہیں۔ ان بیچاروں نے تو ملک کے اثاثے گروی رکھ کر قرضے نہیں اٹھائے‘ یہ تو دو وقت کی روکھی سوکھی کھاکر بھی بے مزہ نہیں ہوتے لیکن ان کی فلاح کے لیے کچھ کرنا ہو تو بے جا تنقید کے باعث وہ کام کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتا ہے۔
حال ہی میں ہمسایہ ملک بھارت کی ریاست پنجاب میں 300 یونٹ استعمال کرنے والوں کو بجلی مفت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق سیاسی جماعت ''عام آدمی پارٹی‘‘ نے ریاست پنجاب میں اقتدار میں آنے کے بعد تمام شہریوں کیلئے 300 یونٹ تک بجلی مفت فراہم کرنے کے اپنے وعدے کو پورا کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ بھارتی پنجاب بھگونت مان نے کہا کہ لوگوں کو اب 300 یونٹس تک مفت بجلی فراہم کی جائے گی۔ ان کے اس اعلان پر مخالف جماعتوں کانگریس یا بی جے پی نے کوئی شور نہیں مچایا کیونکہ اس کا فائدہ براہِ راست عام آدمی کو پہنچ رہا ہے جس میں ہر جماعت کا ووٹر شامل ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر فلاحی منصوبے کو سیاست کی عینک سے دیکھنے کی روش ترک کر دیں جس کا رواج وطن عزیز میں بہت بڑھ چکا ہے۔ بہرحال وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے روشن پروگرام منصوبے کی بات کریں تو دو چیزیں نہایت اہم ہیں‘ ایک تو یہ کہ پنجاب حکومت نے ایک سال بعد مستحق افراد کو سولر پینل دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے‘ جس سے غریب آدمی پر سے بجلی کے بل کا بوجھ مستقل طور پر کم ہو سکے گا جبکہ حکومت کو بھی مزید سبسڈی نہیں دینا پڑے گی۔ پاکستان‘ جہاں سال کے 10مہینے سورج پوری آب و تاب سے چمکتا ہے‘ وہاں انرجی کے متبادل ذرائع کے طور پر سولر انرجی کا استعمال آج بھی خطے کے باقی ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ حیرت تو خوشحال اور مراعات یافتہ طبقے پر ہوتی ہے جو افورڈ کرنے کے باوجود اپنے گھروں اور دفاتر کو سولر انرجی پر منتقل کرنے پر تیار نہیں۔ اس سے نہ صرف وہ خود بجلی کے بھاری بلوں سے بچیں گے بلکہ اضافی بجلی واپڈا کو فروخت بھی کر سکیں گے جس سے قومی خزانے پر مہنگا فرنس آئل اور تیل امپورٹ کرکے بجلی گھر چلانے کا بوجھ بھی کم ہو گا۔ یہ سب سے پہلے ان کے اپنے فائدے کی بات ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ ان پر عائد ایک سماجی ذمہ داری بھی ہے تاکہ ہم سب مل کر ملک کا بوجھ بٹائیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت کو یہ بھی دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں غریبوں کو دی گئی اس سہولت کا معاشرے کے دوسرے طبقات فائدہ نہ اٹھائیں، مثلاً سنگل فیز میٹر عموماً 3 سو یونٹ تک استعمال کرنے والے گھرانوں میں لگایا جاتا ہے‘ یعنی معاشرے کے کم مراعات یافتہ طبقے کے ہاں یہ میٹر لگائے جاتے ہیں کیونکہ 3 سو یونٹ تک استعمال کے ریٹ کے ''پیک آور‘‘ کا ریٹ کم رکھا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں شہری متعلقہ عملے کو ساتھ ملا کر ایک ہی گھر میں 2 سے 4 سنگل فیز میٹر لگا لیتے ہیں تاکہ وہ بجلی کی قیمت کے حوالے سے دی گئی سبسڈی کا ناجائز فائدہ اٹھائیں اور ان کو کم بل اور کم ٹیکس ادا کرنا پڑے۔ اب خدشہ یہ ہے کہ پنجاب حکومت کی دی گئی اس سہولت کا کہیں یہ لوگ فائدہ نہ اٹھانا شروع کر دیں کہ ایک ہی گھر میں لگے کئی میٹروں میں سو سو یونٹ تک بجلی استعمال ہو‘ اور لوگ افورڈ کرنے کے باوجود بل ادا کرنے سے مستثنیٰ قرار پاکر دھوکا دہی کے مرتکب ہوں کیونکہ بہرحال ہمارا مجموعی کریکٹر کچھ ایسا ہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف لاہور میں تیرہ لاکھ سے زائد کنکشنز پر وزیراعلیٰ کے اس پروگرام کا اطلاق ہو گا یعنی ان صارفین کو ماہانہ تقریباً 50 کروڑ روپے کی سبسڈی ملے گی۔ حکومت پنجاب کو چاہیے کہ سبسڈی کے ساتھ یہ بھی یقینی بنائے کہ یہ سہولت وہی لوگ استعمال کریں جو اس کے واقعی مستحق ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved