ساون کے مہینوںمیں کئی بار اور مہاوٹوں کے موسم میں ایک دو بار ایسے دن آتے ہیں جب گھٹا اس طرح جھوم کر لاہور پر چھاتی ہے کہ دن میں بھی اندھیرا چھا جاتا ہے اور سڑکوں پر گاڑیوں کو بتیاں روشن کرنا پڑتی ہیں۔ اس وقت پتا چلتا ہے کہ گھٹا ٹوپ اندھیرا کیوں کہا گیا ہے اور اس کی صحیح تصویر کیا ہے۔ لیکن ذرا ٹھہریے! زمانہ بدلا ہے تو پہلے جملے میں جو ''مہاوٹوں‘‘ کا لفظ آیا ہے وہ بہت لوگوں کو اب اجنبی اجنبی سا لگ رہا ہوگا۔ لہٰذا یہ بتانا ضروری ہے کہ مہاوٹ سردیوں کی بارش کو کہتے ہیں۔ خیر بتانا تو یہ تھا کہ آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں‘ گیارہ بجے‘ دن کے وقت کالی گھٹا ایسی اُفق تا اُفق چھائی کہ نہر کی طرف سے فیروز پور روڈ پر قرطبہ چوک کا رخ کرتے ہی ایسا لگا جیسے کسی سیاہی مائل سرمئی سرنگ میں داخل ہونے والا ہوں۔ دور دور تک ایک ہی منظر تھا جس میں درخت اور پودے ٹھنڈی ہوا میں جھوم رہے تھے۔ بارش ابھی شروع نہیں ہوئی تھی لیکن جھلستی زمین کو جیسے قرار سا آگیا تھا۔ راہ گیروں اور گاڑی سواروں کے چہروں پر بھی جھنجلاہٹ‘ کوفت اور غصے نے اپنی لکیریں مٹا دی تھیں اور ان کی جگہ مسکراہٹ‘ بشاشت اور تازگی نے لے لی تھی۔ میں خود بھی اپنا حال بہتر محسوس کر رہا تھا اور امید تھی کہ فشارِ خون یعنی بلڈ پریشر بھی آج بہتر رہے گا۔ ہمارے عزیز دوست پشاور کے جناب عزیز اعجاز نے بات تو ٹھیک کہی ہے کہ
جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اندر ہوتا ہے
اندر کا موسم باہر کے منظر کو بھی اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔ لیکن یہ بھی تو ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ باہر کا موسم اندر کے موسم کو اچھا یا برا کرنے پر قادر ہے۔ بلکہ بلا ارادہ اکثر و بیشتر کر بھی دیتا ہے۔ یہ دو طرفہ اثر ہے جو فریقین ایک دوسرے پر لازماً ڈالتے ہیں۔ لاہور بلکہ پاک و ہند کے بیشتر علاقوں میں بارش اور گھٹا ایک خوشگوار علامت بن کر آتی ہیں۔ ساون کے گیت ہوں یا پکوان یا میلے اور رواج‘ سب ایک خوشی اور سرشاری میں لہلہاتے ہیں۔ خاص طور پر پاک و ہند کے شمالی اور وسطی علاقوں میں یہاں سے وہاں تک ایک سر مستی کی لہر سی دوڑ جاتی ہے۔ لیکن یہ ایک منظر ہے۔ دوسرا منظر ان کچے گھروں اور جھونپڑیوں کا ہے جہاں جھلستی گرمی میں بارش اس وقت تک اچھی لگتی ہے جب تک چھتیں نہ ٹپکنے لگیں۔ یہ زندگی ہے اور زندگی یک رنگ‘ یک رخ کہاں ہوتی ہے۔
آم اور جامن برسات کے خاص تحفے ہیں۔ ہم لوگوں کو اس سال آم ہمیشہ سے زیادہ مہنگا لگ رہا ہے۔ اور پچھلے برسوں سے مہنگا یقینا ہے۔ اور کون سی چیز ایسی ہے جو پچھلے برس یا چند ماہ پہلے تک سے زیادہ مہنگی نہیں ہوچکی۔ لیکن یہ سن کر سر چکرا جاتا ہے کہ آموں کا بادشاہ چونسا‘ امریکہ میں فی کلو گرام 40ڈالر کے حساب سے ملتا ہے۔ یعنی پاکستانی 8ہزار روپے سے بھی زیادہ۔ قیاس کن ز گلستان من بہار مرا۔ یہ سن کر تو پاکستان میں ہر مہنگا پھل بھی کوڑیوں کے دام لگنے لگتا ہے۔ لیکن بات صرف پھلوں کی نہیں‘ ساون کے پکوانوں میں گلگلے یعنی میٹھے پکوڑے‘ دال بھری روٹیاں‘ آم کی چٹنی وغیرہ میرے بچپن اور لڑکپن کے ذائقوں میں سے ہیں۔ سموسے اور پکوڑے تو خیر سدا بہار ہیں۔ ہر موسم میں بہار پر رہتے ہیں۔
کیا ممکن ہے کہ بہار اور برسات کا ذکر ہو اور شاعری اس ذکر سے باہر رہے؟ کیا شعر ہے منیر نیازی کا:
بجلی چمک کے تیغ شرر بار سی گری
جیسے گھٹا میں رنگ کی دیوار سی گری
اور انہی کا یہ شعر بھی :
گھٹا دیکھ کر خوش ہوئیں لڑکیاں
چھتوں پر کھلے پھول برسات کے
چھتوں پر برسات کے پھول کھلنا اس عہد کے شہروں اور ایک پورے دور کی غمازی کرتا ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ نئی آبادیوں میں یہ پھول چھتوں پر اس طرح نہیں کھلتے۔ اب باغوں‘ سڑکوں اور پارکوں میں پانی کے پھول بھی کھلتے ہیں اور حسین چہروں کے بھی۔ آپ کسی ہرے علاقے میں یا باغ میں چلے جائیے۔ ہرے رنگ کا سیہ مست ہونا غالب کے مصرعے سمیت آپ کو نظر آجائے گا۔
پوچھ مت وجہ سیہ مستیٔ اربابِ چمن
وہ جو کہا جاتا ہے نا‘ استعمال سے پہلے اور استعمال کے بعد‘ وہ بات ساون کی بارشوں پر بھی پوری اترتی ہے۔ بارش سے پہلے کا اور بعد کا حبس دم گھوٹنے والا ہوتاہے۔ لیکن بارش سے کچھ پہلے اور اس کے دوران کی فرحت بخش فضا اس موسم کا حاصل ہے۔ ویسے تو شہروں میں برسات کا لطف بہت ہے لیکن سچ یہ ہے کہ پہاڑوں کی بارش کا کوئی ثانی نہیں۔ پہاڑی قصبوں میں رس ٹپکاتے‘ گھومتے پھرتے بادل‘ جو کبھی آپ کے سر پر سائبانوں سے اور کبھی آپ کے پیروں تلے کھائیوں سے آوازیں دیتے ہیں۔ اس موسم میں لینڈ سلائیڈز کے خطرات اپنی جگہ لیکن ان مناظر کی کشش ایسی جان لیوا ہے کہ اپنی طرف کھینچ ہی لیتی ہے۔ یوپی کی برساتیں تو مشہور ہیں اور یوپی کی برساتوں کی بات ہو تو نظیر اکبر آبادی کی عوامی شاعری کیسے یاد نہ آئے۔
بادل ہوا کے اوپر ہو مست چھا رہے ہیں
جھڑیوں کی مستیوں سے دھومیں مچا رہے ہیں
پڑتے ہیں پانی ہر جا جل تھل بنا رہے ہیں
گلزار بھیگتے ہیں سبزے نہا رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
جو وصل میں ہیں ان کے جوڑے مہک رہے ہیں
جھولوں میں جھولتے ہیں گہنے جھمک رہے ہیں
جو دکھ میں ہیں سو ان کے سینے پھڑک رہے ہیں
آہیں نکل رہی ہیں آنسو ٹپک رہے ہیں
کیا کیا مچی ہیں یارو برسات کی بہاریں
وصل‘ فراق‘ دکھ سکھ‘ آنسو‘ قہقہے۔ یہ زندگی ہے اور زندگی یک رنگ‘ یک رخ کہاں ہوتی ہے۔ نظیر اکبر آبادی ایسا عجیب شاعر ہے کہ اس نے خیالی دنیاؤں کے بجائے عملی اور عوامی زندگی کے رنگ پیش کیے ہیں۔ زندگی پینٹ کرنے والے کا نام بھی اسی لیے زندہ ہے۔ اور اگر ہر دور میں برسات اور بارش نے اپنے رنگ شاعری میں بکھیرے ہیں تو ہم بھلا کیوں پیچھے رہیں۔ اس لیے اے ساون بھادوں! تمہارے نام ایک غزل سعود عثمانی کی بھی۔
تیز لہکتی بارش ہے‘ رسی پر کپڑے بھیگتے ہیں
آؤ! ہم بھی ایسے بھیگیں‘ جیسے بچے بھیگتے ہیں
سبز سنہری بیلڑیوں پر نقرئی کلیاں کھل اٹھیں
ایک گلابی سرشاری میں پھول اور پتے بھیگتے ہیں
دیکھو یوں بھیگا جاتا ہے رات کے سنگ مرمر پر
دھوپ اور بارش ساتھ ہیں دونوں اور اکٹھے بھیگتے ہیں
کھڑکی کے باہر کا منظر بالکل کمرے جیسا ہے
رخساروں پر بہتی بوندیں جیسے شیشے بھیگتے ہیں
جانے آنسو ہیں یا بارش‘ کون اب اس پر دھیان کرے
ہم تو بس بھیگے موسم میں آنکھیں میچے بھیگتے ہیں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved