موجودہ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے اعلانات تو بہت کیے مگر ابھی تک عوام کو حقیقی سہولت نہیں مل سکی۔ یوٹیلیٹی سٹورز پر اشیائے ضروریہ پر دی جانے والی سبسڈی کا فائدہ بھی عام آدمی تک اس لیے صحیح معنوں میں نہیں پہنچ رہا کہ غریب آدمی اگر ایک کلوگرام چینی یاگھی کے لیے گھنٹوں قطار میں لگے گا تو پھر وہ کام کب کرے گا؟ ہر یوٹیلیٹی سٹور والے نے اپنے ہی قاعدے اور قوانین بنا رکھے ہیں۔ کوئی چینی یا گھی کے لیے دیگر اشیا کی خریداری کو لازمی قرار دیتا ہے تو کسی نے کم ازکم شاپنگ کی ایسی حد مقرر کر رکھی ہے جو غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی ہے۔ یوں اس سبسڈی کا زیادہ فائدہ غریب کے بجائے امیر طبقے یا تاجر برادری کو ہو رہا ہے جو سٹور کے عملے کی مبینہ ملی بھگت سے سستے داموں اشیائے ضروریہ خرید کر مہنگے داموں فروخت کرتی ہے۔ حکومت سبسڈی تو دے رہی ہے لیکن اس بات کو یقینی نہیں بنایا گیا کہ اس کا فائدہ عام آدمی تک پہنچ بھی رہا ہے یا نہیں۔
آج کل قوم ملکی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے کیونکہ تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود مہنگائی کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، اس کی بنیادی وجوہات میں ڈالر کی اونچی اڑان اور پٹرولیم مصنوعات کے عالمی نرخوں میں اضافہ شامل ہیں اور فی الحال یہ دونوں چیزیں ہماری سرکار کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ ان حالات میں پنجاب حکومت کی جانب سے صوبے میں 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں سے بل وصول نہ کرنے اور برقی توانائی مفت فراہم کرنے کا اعلان غریبوں کے لیے حقیقی ریلیف ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ پنجاب بھر میں 100 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والے خاندانوں کی تعداد 44 لاکھ سے 90 لاکھ تک ہے۔ ایک خاندان کے 6 افراد بھی شامل کریں تو اس سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والوں کی کل تعداد ساڑھے پانچ کروڑ افراد بنتی ہے جو لگ بھگ صوبے کی آدھی آبادی ہے۔ اعلان کے مطابق پچھلے 6 ماہ میں جن لوگوں نے 100 یونٹ تک بجلی استعمال کی ہے، پنجاب حکومت انہیں 100 ارب روپے کی سبسڈی سے مفت بجلی فراہم کرے گی۔ صوبائی حکومت کا یہ اقدام لائقِ تحسین ہے مگر سوال یہ ہے کہ آج کل کی شدید گرمی میں ایک چھوٹے سے گھر میں بھی دو پنکھوں اور دو ایل ای ڈی بلبوں کا بجلی کا خرچ ایک ماہ میں سو یونٹس سے بڑھ جاتا ہے، کبھی کبھار یہ کم ہو بھی سکتا ہے مگر چھ ماہ کی جو شرط عائد کی گئی ہے‘ اس کے بعد تو شاید ہی کوئی گھر ایسا بچتا ہو جو اس معیار پر پورا اترتا ہو لہٰذا یہ منصوبہ نام بڑے درشن چھوٹے کی مثال ثابت ہو گا۔ بعض افراد کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ کوئی بھی ایسا گھر جس میں فریج ہے یا پانی کی موٹر چلتی ہے‘ سو یونٹس سے کم بجلی استعمال کر ہی نہیں سکتا۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ حکومت ایسا ریلیف پیکیج بنائے جس سے ہر غریب و متوسط گھرانے کو فائدہ پہنچ سکے۔ اگر حکومت صوبے کے غریب افراد کو حقیقی ریلیف پہنچانا چاہتی ہے تو کچھ ایسا ٹیرف بنایا جائے جس میں 100 یونٹس تک 100 فیصد، 150 یونٹس تک بجلی کے استعمال پر 75 فیصد، 200 یونٹس تک 50 فیصد اور 250 یونٹس کے استعمال پر 25 فیصد تک ڈسکائونٹ ہو۔ بہرحال اس منصوبے کو بھی جاری رکھنا چاہیے کیونکہ اس تباہ حال معاشی نظام میں جہاں امیر اور طاقتور طبقہ بھاری مراعات اور ٹیکس سبسڈیز لے رہا ہے، وہاں اگر آٹے میں نمک کے برابر ہی غریب شہری مستفید ہو سکیں تو اس سے اچھی بات کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے شمسی توانائی (سولر سسٹم) کی فراہمی کا جائزہ لینے کا تذکرہ بھی کیا ہے جو میرے خیال میں بلوں پر سبسڈی دینے سے بھی زیادہ مفید اور دیرپا حل ہے، اس کے لیے حکومت کو ہر ماہ سبسڈی دینے کے بجائے ایک ہی بار سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ گھروں کو سولر پاور فراہم کرکے متبادل ذریعے سے بجلی فراہم کی جائے گی تو آنے والے لگ بھگ پچیس سالوں کے لیے ان کی بجلی مفت ہو جائے گی۔
اگر سولر پینل کی فراہمی کے لیے غریب اور متوسط طبقے کو سبسڈی دی جائے، 100 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والوں کو بل معاف کرنے کے بجائے مفت سولر سسٹم دے دیاجائے تو شاید یہ حکومت اور عوام‘ دونوں کے لیے زیادہ مفید ہو گا۔ اسی طرح 100 یونٹس سے 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے شہریوں کو آدھی قیمت پر شمسی توانائی کا سسٹم لگا دیا جائے جبکہ اس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے شہریوں کے لیے بھی رعایتی پیکیج یا آسان قرضوں کا اعلان کیا جائے اور ایسا قابلِ عمل منصوبہ بنایا جائے جس پر عمل درآمد بھی ہو سکے اور لوگوں کو فائدہ بھی ہو۔ شمسی توانائی سے جہاں شہریوں کو مہنگی بجلی اور بھاری بلوں سے نجات ملے گی وہیں گرین انرجی کو بھی فروغ حاصل ہو گا، ایندھن کی بھی بچت ہو گی اور سب سے بڑھ کر‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے جان چھوٹ جائے گی۔ اس اقدام سے عوام کو تو مالی فائدہ ہو گا ہی‘ خود حکومت کو بھی مستقبل میں بہت سیاسی فائدہ پہنچے گا۔
ملک بھر میں سولر سسٹم کی تنصیب کے لیے حکومت اور نجی شعبے‘ دونوں کو آگے آنا ہو گا، حکومت شمسی نظام کو کامیاب بنانے کے لیے نئی آبادیوں میں بجلی کے کنکشنز کی منظوری کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لیے موقوف کر دے تاکہ لوگ متبادل نظام اپنائیں۔ اسی طرح کاروباری مراکز اور شاپنگ مالز میں دکانوں اور سٹورز والوں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ اگر انہوں نے تین سے زائد لائٹس لگانی ہیں تو پھر وہ اپنا سولر پینل نصب کریں۔ بڑے شہروں کے پبلک پارکس اور شاہراہوں پر نصب لائٹس پہلے ہی سولر سسٹم پر چل رہی ہیں‘ اب شادی ہالز، سینما گھروں اور دیگر تفریحی مقامات کو بھی شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو حکومت ترجیحی بنیادوں پر سولر سسٹم فراہم کرے جبکہ نجی تعلیمی شعبے کو بھی شمسی نظام کے لیے خصوصی پیکیج دیا جائے تاکہ پرائیویٹ سکولز، کالجز اور جامعات بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ملک بھر میں شاہرات اور چوراہوں میں لگے ٹریفک سگنلز کو بھی سولر سسٹم پر منتقل کر کے نہ صرف بجلی کی بچت کی جا سکتی ہے بلکہ اس سے چوبیس گھنٹے ٹریفک کو کنٹرول کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ بڑے ہورڈنگ بورڈز کے لیے بھی بجلی کے استعمال پر پابندی ہونی چاہئے۔ سولر پینلز سے ڈیوٹی ختم کرنا اچھا اقدام ہے لیکن درآمد میں حائل دیگر رکاوٹوں اور مشکلات کو بھی دور کیا جانا چاہیے تاکہ سرمایہ کار اس طرف راغب ہو سکیں۔ حکومت سولر کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ داروں کو مراعات دے اور انہیں کم از کم ایک سال کے لیے ہر قسم کا ٹیکس معاف کر دے تاکہ اس شعبے کی حوصلہ افزائی ہو سکے اور لوگ کھل کر اس شعبے میں سرمایہ کاری کر سکیں۔ حکومت بینکوں کے ذریعے شہریوں کو سولر سسٹم کی خریداری اور تنصیب کے لیے بلاسود قرضے فراہم کرے۔ ان قرضوں کا حصول آسان اور ہر شہری کے لیے یقینی بنائے۔ نجی شعبے کو بھی‘ جو لوگ یہ نظام خریدنے کی سکت نہیں رکھتے‘ آسان اقساط پر پینل فراہم کیے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ بجلی کا متبادل نظام اپنا سکیں اور آسانی کے ساتھ ادائیگی بھی کر سکیں۔
پاکستان کی موجودہ معاشی حالت اور توانائی کے شدید ترین بحران کومدنظر رکھتے ہوئے شمسی توانائی کا حصول وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ اگر حکومت واقعی عوام کو بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بچانا چاہتی ہے تو ملک بھر میں ترجیحی بنیادوں پر اس متبادل نظام کی فراہمی اور تنصیب پر توجہ دینا ہو گی اور اس مقصد کیلئے لوگوں کو خصوصی پیکیج دینا ہوں گے جن میں غریب و متوسط طبقات کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ ڈالر کی اونچی اڑان اور پٹرولیم مصنوعات کی روز بروز بڑھتی ہوئی قیمتیں توانائی بحران کے حل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس وقت تباہ حال معیشت کے باعث فوری طور پر اس بحران سے نمٹنا ممکن نہیں لہٰذا ان حالات میں توانائی بحران پر قابو پانے کا واحد حل صرف اور صرف شمسی توانائی اور دیگر قابل تجدید انرجی ذرائع پر منتقل ہونا ہے جن سے شہریوں کو مفت اور سستی بجلی بھی ملے گی اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے جان بھی چھوٹ جائے گی۔ حکومت کو سنجیدگی سے اس منصوبے پرکام کرنا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved