باصلاحیت افراد ہر دور کی تہذیب اور معاشی ترقی میں نمایاں کردارادا کرتے رہے ہیں ۔ ادب ‘ فلسفہ‘ سائنس اورحکمرانی کے انداز ہوں یا قوم اور ریاست سازی کا عمل‘ قدیم سے جدید تاریخ تک نامور افراد نے اپنے نقوش چھوڑے ہیں ۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ بڑے لوگ سماج میں کسی طور پیداہونے والی حرکیات کا ثمر ہیں یا وہ اپنی فطری استعداد ‘ افتادِ طبع ‘ علم و دانش اور جذبے کے زور پر تاریخ کا دھارا تبدیل کرتے ہیں۔ جانے پہچانے اکابرین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ان کے کردار کے حوالے سے توبات ہوتی رہتی ہے جو ہر ملک میں قومی ہیرو کا درجہ رکھتے ہیں ‘ مگر عام آدمی اپنے گردو پیش ‘اپنی سماجی اور اقتصادی ضروریات کے ہاتھوں مجبور ہوتا ہے۔اس پر شاید ہی کبھی کوئی بات ہوتی ہو کہ وہ کیسے انقلاب برپا کر سکتا ہے؟ خصوصاً کاشت کار‘ کسان جو مٹی سے کھیلتا ہے‘ اسے الٹ پلٹ کرتا ‘ اس میں موسم اور زمین کی ساخت اور اپنی ضرورت کے مطابق بیج بوتا ہے اور فصل کو ہمارے دستر خوان کی زینت بناتا ہے ۔ ہمارے شہروں کے فلسفیوں اور دانشوروں کی نظرمیں بس مٹی سے زیادہ کچھ نہیں ۔ صنعتی دور کی پیش رفت اور علمی دھارا کاشت کار اور کسان کو گزرے زمانوں کی باقیات قرار دیتا ہے ۔ کارل مارکس اور اس کے نظریاتی چشمے سے سیراب ہونے والے‘ جن کی کمی نہیں ‘ زمین سے پیداوار حاصل کرنے والوں کو دقیانوسی اور قدامت پسندمانتے ہیں ۔ ان کا انقلابی مرد کارخانوں کا مزدور تھا۔ سرمایہ داری اور صنعتی انقلاب کی پیدا کردہ مخلوق جو مارکسی انقلابیوں کے نزدیک اس نظام کو تباہ کرکے انسان کو آزادی دلائے گی۔ اس پر بہت سا مواد موجود ہے‘ اور بہت کچھ لکھا اور پڑھا جاچکا ہے۔ بہت سے ایسے انقلابوں کے حوالے نظر سے گزر چکے ۔لیکن ہمارے معاشرے میں کسان ہو یا صنعتی مزدور‘ دونوں کی حالت قابلِ رحم ہے ۔
دورِ جدید کے تناظر میں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر نوع کی علمی ‘ سیاسی طرزِحکمرانی میںمعاشرے کا کردار اولین حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن جدید معاشرے جدید ریاست کی پیداوار ہیں۔ ریاست کی ہیئت‘ نظریاتی جہت‘ ترقیاتی ساخت‘ وسائل کی فراہمی اور سماجی انصاف سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔ اچھی ریاست‘ اچھا معاشرہ‘اور کمزور اور ناکام ریاست ناکام افراد ہی چلاتے ہیں‘ جیسا کہ ہمارے حکمران‘ سیاست دان‘ نوکرشاہی اور ریاستی ادارے۔ ان دونوں میں تعلق مرغی اور انڈے والا بھی ہے ۔ اچھے افراد یا استعداد اور اخلاقی معیار کے حامل اور عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار افراد ریاسی طاقت کو استعمال کرکے معاشرے اور فرد کو کہاں سے کہاں پہنچا سکتے ہیں ۔ آج کا چین ہو یا جنوبی کوریا‘ ریاست کی حکمت عملی کی وجہ سے ترقی یافتہ ہیں۔ کسی دور میں ہم ان دونوں ممالک سے زیادہ ترقی یافتہ تھے ۔ اس میں اس وقت کی پاکستانی ریاست کا کردار تھا۔ بعد کی کہانیاں آپ کے سامنے ہیں کہ یہ ریاست کس طرح کے کرداروں کے ہاتھ لگ گئی اور کس فن کاری کے ساتھ اس کے اداروں ‘ معاشرے اور معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا گیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ریاست کا اقتدارِ اعلیٰ کس کے پاس ہے اور وہ اس طاقت کو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے استعمال کرتا ہے یا عوامی خدمت کے لیے وقف کرتا ہے ؟ ایک طرف کئی ریاستوںکی خیرہ کن ترقی کا ریکارڈ ہمارے سامنے ہے‘ دوسری طرف گرتی‘ ڈگمگاتی اور مزید کمزور ہوتی مفلوک الحال ریاستوں کے منا ظر ہیں ۔ ہمارا شمار اب دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ریاستوں میں ہوتا ہے ۔ جن کی وجہ سے یہ نوبت آئی ‘ وہی آج نعرے لگارہے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیاہے ۔ کمال کی بات ہے ۔ اس سیاسی فنکاری نے لوٹ کھسو ٹ کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔دنیا کا ہر ادارہ جو بدعنوانی اور حکمرانی پر نگاہ رکھتا ہے ‘ اس بات کی گواہی دیتاہے کہ ہم بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔ جب ریاستیں ناکام ہوتی ہیں یا کر دی جاتی ہیں تو بدعنوان حکمرانوں کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا۔ سب سے بڑی دلیل اور ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ دولت کے انبار ملک کے اندر اور باہر لگائے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے ہاتھ اور ضمیر‘ اور ان کا ماضی اور حال بالکل صاف ہے ۔ ان کے ہاتھ صاف ‘ہاتھ کی صفائی کے کرشمے کی وجہ سے ہیں۔ اب تو یہ سوال اٹھانے سے بھی ڈر لگتا ہے کہ آخر آپ کے پاس جو دولت ہے ‘ وہ آپ نے کن ذرائع سے کمائی ہے ؟ اس کا ریکارڈ انکم ٹیکس کے سالانہ گوشواروں میں ہر ملک میں موجود ہوتا ہے ۔ یہاں غلط فہمی اور ابہام پھیلانے والے بہت ہیں جوکہتے ہیں کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدالت میں جا کر ثابت کرے کہ حکمرانوں نے جو دولت اور جائیداد اپنے اور اپنے ملازموں کے نام لگارکھی ہیں‘ وہ ناجائز ذرائع سے بنی ہیں۔ کسی بھی ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔ دولت اور جائیداد آپ کی ہے تو یہ آپ کی ذمہ داری بھی ہے کہ آپ وہ ذرائع قانون اور انصاف کے اداروں کے سامنے رکھیں۔ اب تو اوپر سے لائی جانے والی اتحادی حکومت نے اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہوتے ہی احتساب کے قانون میں جو ترامیم کی ہیں‘ ان کے ذریعے ان کے خلاف بدعنوانی ثابت نہ کرپانے والے اہل کاروں کو سزا ہوسکے گی ۔ جس ملک کی عدالتوں میں سینکڑوں میں سے دوچار کو سزا ملے ‘ وہاں کرپشن کا کیس لانے کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکے گا۔
موجودہ حکومت کے کچھ معزز ین کا کہنا ہے کہ ہماری ریاستی اور دیگر ناکامیوں کی وجہ بدعنوانی نہیں بلکہ پالیسیوں کا عدم تسلسل ہے ۔ تاریخ‘ منطق اور ترقی یافتہ قوموں کے تجربے کی رُو سے سیاسی بیان ہے‘ کوئی دلیل یا ثبوت نہیں ۔ یونانی فلسفہ انسان کی اخلاقی بالیدگی‘ علم ‘ دانش اور سماج کی اجتماعی فلاح کا احاطہ کرتا ہے۔ اسلامی مفکرین ہوںیا دیگر مذاہب کے پیروکار‘ قانون ‘ اخلاق اور حکمرانوں کے طرزِ عمل کو ہی مرکزی عامل قرار دیتے ہیں۔ جدید فلسفیوں میں مارکس ہوں یا بیسویں صدی کے سماجی انصاف کے مفکرین‘ سب ریاستی کردار کو اہمیت دیتے ہیں ۔ ایسی ریاست جو انصاف قائم کرے‘ معاشی ناہمواری دور کرے‘ فرد اور معاشرے کو تعلیم کی روشنی سے منور کرے اور اس کے حکمران باکردار اور باصلاحیت ہوں۔ مغرب کی ترقی کا تاریخی جائزہ لیں یا چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ریاستوں میں مختصر عرصے میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں کا‘ حکمرانوں کا ذاتی معیار‘ نظریہ اور قوم کو نیچے سے اوپر اٹھانے کا جذبہ ہر جگہ کارفرما نظر آتا ہے ۔ ممکن ہے آپ کو یہ بات ناگوار گزرے لیکن کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ جو ملک پر مسلط کیے گئے ہیں اور موروثی سیاست کے وارث اور ان کے گماشتے ریاست پر قابض ہیں‘ اب اسی کھائی میں گریں گے جہاں چوالیس سال سے پڑے ہوئے ہیں۔ آپ جاگیں گے تو ہی یہ بھاگیں گے۔ سیاسی تمازت بڑھے گی تو یہ ٹھنڈے ممالک کی طرف روانہ ہوں گے ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved