تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     08-07-2022

Pity the Nationجبران اور منٹگمری…(3)

تیسرے جھروکے میں جھانکنے سے پہلے Pity the Nationکی طرف واپس چلئے‘ اُن اشعار کی جانب جو جسٹس کھوسہ نے کمال مہارت سے چُنے۔ ان اشعار کا ترجمہ فیض احمد فیض نے یوں کیا‘
Pity the nation whose statesman is a fox
قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے نام نہاد سیاستدان لومڑیوں کی طرح مکار اور دھوکے باز ہوں
whose philosopher is a juggler and whose art is the art of patching and mimicking
جس کے دانشور محض شعبدہ باز اور مداری ہوں
ذکر چل رہا تھا موبائل کال کا‘ YRGنے بتایا: تھوڑی دیر بعد کیس کی سماعت ہے‘ سپریم کورٹ جارہا ہوں۔ آپ سے لاسٹ موومنٹ ایڈوائس لینی ہے۔ باقی باتیں پرائیویٹ گفتگو میں آتی ہیں۔ اتنا بتاتا ہوں میرا مشورہ تھا عدالت سے وقت مانگیں‘ Endgame کی طرف مت بھاگیں۔ سوال ہوا: وقت سے کیا ملے گا؟ جواب دیا: سوچنے کا موقع کہ یہاں سے آگے کون سا دفاعی راستہ کھلتا ہے۔ جواب آیا:پلیز ہولڈ کریں! (پھر کھسر پھسر اور سرگوشیوں جیسی آوازیں آئیں) چند لمحے بعد میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: مجھے ایڈوائس ملی ہے کہ اڈیالہ جیل میں بھی وزیراعظم میں ہی رہوں گا۔ میں نے ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کی۔ ساتھ کہا: واہ کیا بات ہے! آپ توہین عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی اڈیالہ پہنچ گئے۔
اسی فیصلے میں The dissenting judge نے Pity the Nationکے مفہوم کو مطالعہ پاکستان کا نیا باب بناڈالا۔ جسٹس کھوسہ کہتے ہیں‘
Pity the nation that demands justice for all
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو (بظاہر) انصاف سب کے لیے کا نعرہ لگاتی ہے
but is agitated when justice hurts its political loyalty
مگر اُس وقت احتجاج کرتی ہے جب اُس کی سیاسی وفاداری انصاف کی زَد میں آتی ہے
Pity the nation that achieves nationhood in the name of a religion but pays little heed to truth, righteousness and accountability
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو مذہب کے نام پر ریاست حاصل کرتی ہے لیکن سچائی‘ راست بازی اور احتساب کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتی
which are the essence of every religion
حالانکہ یہی اصول ہر مذہب کا خاصہ ہیں
Pity the nation whose servants treat their solemn oaths as nothing more than a formality before entering upon an office.
قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے نوکر اپنے مقدس حلف اُٹھانے کے عمل کو محض ''رسمی تکلف‘‘ سمجھتے ہیں‘ جو عہدے پہ پہنچنے تک محدود ہے
Pity the nation that is led by those who laugh at the law and who see no shame in crime
قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے رہبر قانون کو بے معنی سمجھ کر اُس پہ ہنستے ہیں اور جرم کو باعثِ شرمندگی نہیں سمجھتے
Pity the nation that punishes its weak and poor but is shy of bringing its high and mighty to book
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو صرف کمزور اور غریب کو سزا دیتی ہے مگر اپنے اعلیٰ منصب والے طاقتور لوگوں کو کٹہرے تک کھینچ لانے سے آنکھیں چراتی ہے
Pity the nation that thinks from its heart and not from its head Indeed, pity the nation that does not discern villainy from nobility.
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو اپنے دماغ سے سوچنے کا کام لینے کے بجائے دل سے مغلوب ہو کر سوچتی ہے‘ بلا شک و شبہ‘ قابل رحم ہے وہ قوم جو ولن اور راست باز کرداروں میں تفریق کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔
1958ء میں برٹش آرمی کا سربراہ فیلڈ مارشل برنارڈ منٹگمری ریٹائرمنٹ کے بعد وزیراعظم سے ملا۔ درخواست کی کہ پنشن کے سوا کوئی آمدن نہیں‘ کرائے کا گھر ہے۔ بار بار مکان کی تبدیلی بہت تکلیف دہ ہے۔ گزارش ہے کہ مجھے ایک مکان اور تھوڑی سی زرعی زمین الاٹ کریں تاکہ بڑھاپا سکون سے گزرے۔ Harold Macmillan نے تحمل سے بات سنی اور بولا: مسٹر منٹگمری! آپ قومی ہیرو ہیں‘ عالمی جنگ میں تاجِ برطانیہ کے لیے شاندار خدمات سے انگریز قوم آپ کی معترف ہے لیکن جنرل صاحب‘ اس قومی خدمت کا آپ نے معقول معاوضہ لیا۔ حکومت نے کسی مہینے آپ کی تنخواہ لیٹ کی‘ نہ روکی۔ اب آپ ریٹائر ہو کر برطانیہ کے لیے کوئی خدمت سرانجام نہیں دے رہے۔ اس کے باوجود برطانوی عوام کے ٹیکسوں کی رقم سے آپ کو ہر ماہ معقول پنشن ملتی ہے۔
برٹش پرائم منسٹر نے مزید کہا: مسٹر منٹگمری بطورِ وزیراعظم میں عوام کے خزانے کا محافظ ہوں‘ عوام کے ٹیکسوں کے پیسے کو اپنے لیے یا کسی دوسرے کے لیے خرچ کرنے کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں۔ میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔ منٹگمری فیلڈ مارشل تھا۔ برطانوی حکومت کو کئی عالمی اور علاقائی جنگیں جیت کر دے چکا تھا۔ وہی منٹگمری جو جاگتا تھا تو قوم سکون سے سوتی تھی۔ اس کے باوجود وزیراعظم کا انکار سن کر منٹگمری نے غصہ نہیں کیا۔ اس نے اپنے پرائم منسٹر کا شکریہ ادا کیا۔ اُس کے ساتھ بیٹھ کر کافی پی۔ Harold Macmillan سے ہاتھ ملا کر اپنے کرائے کے گھر میں واپس چلا گیا۔
خلیل جبران‘ برنارڈ منٹگمری اور اپنے سماج کی راج نیتی تاریخ دیکھتے دیکھتے‘ نجانے کب دھیان مغربی بارڈر کے اُس پار احمد آباد شہر کی طرف چلا گیا۔ جہاں ایک عام سے محلے کے فٹ پاتھ پر 90برس کا مقناطیس نما ضعیف آدمی بیٹھا ہوا پایا۔ نہ دھن جس کے پاس تھا نہ دولت۔ وہ مالک مکان کا پانچ مہینے سے کرایہ ڈیفالٹ کررہا تھا۔ ایک دن مالک مکان نے اس بزرگ کا کُل سامان اپنے گھر سے اُٹھا کر باہر پھینک دیا۔ سامان میں ایک عدد چارپائی‘چند بوسیدہ برتن اور پلاسٹک کی ایک بالٹی تھی۔ بارعب بزرگ کی بیچارگی دیکھ کر محلے کے کچھ لوگوں کو ترس آیا۔ مالک مکان کے پاس درخواست لے کر گئے کہ اس لاوارث بزرگ کو دو ماہ واپس گھر میں رہنے کی اجازت دیں۔ کہیں نہ کہیں سے اُدھار پکڑ کر اُس کا کرایہ ادا ہو جائے گا۔ مالک مُکر گیا‘ مگر قدرت کو بزرگ کی بے بسی پر رحم آگیا۔ ہوا یوں کہ اُسی فٹ پاتھ کے سامنے سے ایک اخباری رپورٹر گزر رہا تھا‘ جہاں نوّے سالہ بزرگ کے گرد لوگ جمع تھے۔ رپورٹر نے بیگ سے کیمرہ نکالا‘ بزرگ کی پکچرز لیں‘ لوگوں سے بات چیت کی اور یہ معمولی سی بے ضرر سٹوری لے کر اپنے ایڈیٹر کو جا بتایا‘ کس مشکل سے محلہ داروں نے کرائے کے مکان سے بے دخل لاچار آدمی کودو ماہ کا وقت لے دیا۔ ایڈیٹر کی نظر محلے داروں کی تصاویر دیکھتے دیکھتے 90سالہ بوڑھے کی تصویر پر پڑی تو اُس کا دل اُچھل کر حلق میں آگیا۔ اُس کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved