ہر روز سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی فیملی کی مبینہ طور پر ایک نئی آڈیو سامنے لائی جا رہی ہے۔ ان لیکڈ آڈیوز کی حقیقت کیا ہے اس پر بعد میں بات کروں گا لیکن اس سے پہلے اپنے ملک کے اداروں کے سامنے دو اہم باتیں‘ جنہیں ثبوت کہہ لیں یا اشارے‘ رکھنا چاہوں گا کیونکہ یہ کوئی سیاسی معاملہ نہیں ہے۔ اسے عمران خان کی ذات یا ان کی کردار کشی کے پہلو سے نہیں دیکھا یا پرکھا جا سکتا بلکہ یہ معاملہ ملکی سلامتی سے متعلق ہے اور اسے سیاست یا ذاتی پسند و ناپسند کی کسوٹی پر پرکھنا خطرناک ہو گا۔ لگ بھگ ایک سال پہلے‘ 20 جولائی2021ء کو ملک کے دو بڑے انگریزی اخبارات کے اول صفحے پر ایک خبر اس عنوان کے ساتھ دیکھنے کو ملی تھی:
India tried to hack PM Imran's phone
اس خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لگ بھگ پچاس ہزار فونز کا ڈیٹا ہیک کیا گیا اور یہ موبائل فون اسرائیل کے Spyware پیگاسس سے لنکڈ تھے۔ اسی حوالے سے ''پیگاسس سکینڈل‘‘ کافی مشہور ہوا تھا۔ دنیا بھر کے 600 سے زائد سیاستدان، حکمران اور اعلیٰ سرکاری افسران، عرب شاہی خاندان کے افراد، 189 صحافیوں، 64 بڑی کاروباری شخصیات اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے 85 کارکنان سمیت 50 ہزار سے زائد افراد کے فون کا ڈیٹا ہیک کیا گیا تھا، انہی 50 ہزار افراد میں ایک نام اس وقت کے وزیراعظم پاکستان عمران خان کا تھا۔
اب یہ شبہات بے جا نہیں کہ اگر بھارت اور اسرائیل کے نیٹ ورکس نے عمران خان کے موبائل کا ڈیٹا ہیک کیا تو پنجاب کے بیس صوبائی حلقوں میں انتخابات سے پہلے نئی آڈیوز کا سامنے آنا کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا کوئی غیر ملکی طاقت عمران خان کی کردار کشی کرتے ہوئے ان انتخابات پر اثر انداز ہو نا چاہتی ہے؟ انتخابات میں غیر ملکی مداخلت کسی کی سیا سی جیت نہیں بلکہ یہ اداروں کی کار کردگی پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے۔ واشنگٹن سے جاری ہونے والی متذکرہ خبر کے مطابق اسرائیل کے اس جاسوسی نیٹ ورک کے ذریعے سابق وزیراعظم عمران خان کے زیر استعمال ایک موبائل فون کو ہیک کیا گیا۔ یہ کوئی معمولی سپائی ویئر نہیں تھا بلکہ یہ نہ صرف میسجز، ای میلز اور تصاویر اور وڈیوز تک مکمل رسائی رکھتا تھا بلکہ وٹس ایپ پر ہونے والی گفتگو اور کال کو ریکارڈ کرنے، کیلنڈر، جی پی ایس ڈیٹا، فون ڈائریکٹری کے علاوہ کسی بھی وقت مائیک اور وڈیو کو آن کرنے اور وائس ؍ وڈیو ریکارڈ کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ یہ تفصیلات کسی شخص نے نہیں بلکہ واشنگٹن پوسٹ، دی گارجین، فرانس کے لی مونڈے اور دوسرے معروف میڈیاہائوسز نے تحقیقات کے ساتھ شیئر کیں۔
اس سافٹ ویئر کو بنانے والے اسرائیلی ادارے NSO کا نام سب سے پہلے2016ء میں ہیڈ لائنز میں آیا تھا جب اس پر کچھ ریسرچرز کی جانب سے الزام لگایا گیا تھا کہ یہ ادارہ مشرقی ممالک میں ریاست سے اختلاف رکھنے والے افراد کی جاسوسی میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ ضمنی انتخابات میں مبینہ مداخلت کی بات واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ سامنے رکھ کر کی جا رہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فرم کے کلائنٹس میں بشمول بھارت دس ممالک شامل ہیں۔ 20 جولائی2021ء کو جب یہ سیکنڈل سامنے آیا تو پاکستان کے سیاسی حلقوں اور میڈیا میں بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا اور کچھ پروگرامز بھی اس ایشو پر ہوئے تھے۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ بھارت اور اسرائیل کے جاسوسی اور دفاعی نیٹ ورکس ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے مابین باقاعدہ معاہدے بھی ہو چکے ہیں۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ سابق وزیراعظم کی جو بھی آڈیوز اور وڈیوز سامنے لائی جا رہی ہیں‘ ان کے پیچھے ان دو ممالک کا ہاتھ ہے؟ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان ممالک کا اس میں کیا مقصد ہے یا وہ اس کے ذریعے کس کو فائدہ اور کسے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان کی جاسوسی کب کی گئی؟ اگر عمران خان کی بحیثیت وزیراعظم گفتگو ریکارڈ کی جا رہی تھی تو کیا یہ مان لیا جائے کہ موجودہ سیٹ اَپ ان کی دسترس میں نہیں ہو گا۔ کیا یہ اجتماعی نقصان نہیں؟ کیا یہ قومی معاملہ نہیں کہ پتا چلایا جائے کہ کون ہے جو انتہائی حساس قسم کے معالات کو ریکارڈ کرتا رہا یا کسی بیرونی ادارے کا معاون بنا؟
جس رات حکومت کی تبدیلی عمل میں آئی‘ اسی رات پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل کے نگران ڈاکٹر ارسلان خالد کے گھر تیس کے قریب سویلین لباس میں ملبوس افراد نے دھاوا بولا تھا۔ ڈاکٹر ارسلان تو اس وقت گھر نہیں تھے مگر ان کی فیملی کے ساتھ جو کچھ کیا گیا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ ڈاکٹر ارسلان کی سابقہ خاتون اول کے ساتھ رجیم چینج اور سائفر سے متعلق گفتگو کی آڈیوز‘ جو گزشتہ دنوں منظر عام پر لائی گئی ہیں اور جس پر حسب معمول دھڑا دھڑ پروگرام کیے جا رہے ہیں‘ ہو سکتا ہے کہ حقیقی ہوں‘ جیسے کہ حکومت کے مرکزی اور صوبائی وزرا گرجتے برستے ہوئے بتا رہے ہیں، لیکن اس آڈیو اور اب تک سامنے آنے والی آڈیوز یا وڈیوز کی صحت سے متعلق کچھ شبہات ضرور ہیں۔
یہ بات موجودہ حکومت کے علاوہ عدالت کے ریکارڈ میں بھی موجود ہے اور ملک بھر کے اخبارات کے ذریعے عوام تک بھی یہ اطلاعات پہنچ چکی ہیں کہ ڈاکٹر ارسلان کے گھر جب دھاوا بولا گیا تھا تو جاتے جاتے وہاں موجود تمام لیپ ٹاپس، کمپیوٹرز حتیٰ کہ ان کے اہل خانہ کے موبائل فونز بھی زبردستی ضبط کر لیے گئے تھے۔ باقی موبائلز اور ڈیوائسز کا کیا بنا‘ یہ تو خیر ایک الگ معاملہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ڈاکٹر ارسلان کے موبائل اور ان کے لیپ ٹاپس واپس کیے گئے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ سوشل میڈیا ٹیم کا ہیڈ ہونے کے ناتے نجانے ارسلان خالد نے سابق وزیراعظم عمران خان سے کتنی ہی بار گفتگو کی ہو گی۔ اب ڈھائی ماہ کے بعد‘ بیرونِ ملک سے بھاری مشاہروں پر بلائے گئے آئی ٹی ایکسپرٹس کیا مختلف الفاظ کو آپس میں لنک کر کے نئی ریکارڈنگ نہیں بنا سکتے؟ آواز کا کیا ہے‘ پاکستان میں اس وقت کئی درجن بلکہ سینکڑوں ایسے فنکار موجود ہیں جو کسی کی بھی ہو بہو آواز نکال سکتے ہیں۔ لاہور ہی میں ایک خاتون کارٹون کریکٹر ڈورے مون کی ہو بہو نقل کر رہی ہے۔ کوئی بھی آئی ٹی ماسٹر کسی بھی انسان کی گفتگو کو جس سے چاہے جوڑ سکتا ہے‘ جو چاہے الفاظ بنا اور نکلوا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ارسلان خالد کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون‘ جو گزشتہ تین ماہ سے جدید ترین لیبارٹریز میں موجود ہیں‘ وہاں بیٹھے ماہرین جو چاہے بنا اور سنا سکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالا میں جاسوسی کے آلات نصب کرتا ایک شخص پکڑا نہیں گیا؟ کیا کئی مہینوں سے مسلسل ''ڈیپ فیک‘‘ ٹیکنالوجی کے ذریعے جعلی آڈیوز اور وڈیوز بنانے اور سامنے لانے کے حوالے سے آگاہ نہیں کیا جا رہا؟ آئی ٹی ماہرین بخوبی جانتے ہیں کہ ڈیپ فیک کے ذریعے کسی بھی شخصیت کی نقلی آڈیوز اور وڈیوز تیار کی جا سکتی ہیں۔ ہالی وُڈ کے مشہور ایکٹر پال واکر کی جب ایک کار حادثے میں موت ہو گئی تھی تو اس وقت وہ مشہور ایکشن فلم سیریز ''فاسٹ اینڈ فیوریس‘‘ کے نئے پارٹ میں کام کر رہے تھے۔ ان کی ہلاکت کے بعد فلم ڈائریکٹر نے ایک سین ان کے بھائی سے کرایا اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے مدد سے بھائی کے چہرے پر پال واکر کا چہرا لگا دیا۔ یہ ٹیکنالوجی اس قدر حیران کن ہے کہ آج بھی فلم دیکھنے والا کوئی شخص اس سین کی نشاندہی نہیں کر سکتا جو پال واکر کے بھائی پر فلمایا گیا۔
ہمارا ایشو یہاں یہ ہے کہ اسرائیلی نیٹ ورک عمران خان کے موبائل فون کو نشانہ بنانے میں کامیاب کیسے ہوا؟ اب اگر عمران خان اور ان کے اہل خانہ کی آڈیوز سامنے لانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو پھر ذہنوں میں اٹھنے والے ان شبہات کو کیسے جھٹلایا جائے گا کہ اسرائیل اور بھارت جیسے ممالک کی عمران خان سے ہی دشمنی کیوں ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved