سوات میں عوامی نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی کے انتقال کی وجہ سے خالی ہونے والی نشست پر مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی سمیت پی ڈی ایم کی تمام چھوٹی‘ بڑی جماعتوں کے علاوہ جماعت اسلامی کے متفقہ امیدوار کی تحریک انصاف کے ایک غیر معروف کارکن کے ہاتھوں شکست نے سیاسی حلقوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ پورا خیبر پختونخوا عمران خان کے بیانیے کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑا ہے۔
1976ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں غیر ملکی اشاروں پر پاکستان قومی اتحاد کی بنیاد رکھی گئی جس کی چلائی گئی خونیں تحریک کے نتیجے میں پہلے بھٹو کی حکومت اور پھر ان کی جان کی قربانی دی گئی۔ موجودہ حالات دیکھ کر بے شمار مبصرین اور چشمِ بینا رکھنے والے طبقات متنبہ کر رہے ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بالکل وہی کھیل اب عمران خان کے خلاف کھیلا جائے گا جس کی بنیادیں رکھی جا چکی ہیں۔ بھٹو کو راستے سے ہٹانے اور ''نشانِ عبرت‘‘ بنانے کے عمل کو گو 43 سال بیت چکے ہیں لیکن دیکھا جائے تو گزشتہ چند ماہ سے سیاسی حالات اسی رخ کروٹ لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کی گیارہ چھوٹی بڑی سیاسی پارلیمانی جماعتیں تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے تمام تر اختلافات اور مفادات کو پس پشت ڈال کر ایک چھتری تلے اسی طرح پناہ لینے پر مجبور کر دی گئی ہیں جس طرح قومی اتحاد کی ایک دوسرے سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والی نو جماعتیں یکجا کر دی گئی تھیں۔ جب بھٹو کے خلاف سازش کا آغاز ہوا تو اس و قت فارلینڈ بطور امریکی سفیر پاکستان میں تعینات تھے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا بھر میں کئی ممالک میں حکومتیں گرانے اور ٹارگٹ کیے گئے ملکوں میں تحریکیں چلانے کا موصوف کو وسیع تجربہ تھا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کا ایک ہی نعرہ ہوتا تھا ''گو بیک فارلینڈ‘‘۔ بھٹو کے خلاف چلائی جانے والی تحریک سے پہلے اور اس دوران مسٹر فارلینڈ پولیس، بیورو کریسی، پرنٹ میڈیا اور سیاسی و تجارتی شخصیات سے کھلم کھلا ملاقاتیں کیا کرتے تھے جبکہ ہنری کسنجر بھٹو کو نشانِ عبرت بنانے کی دھمکی بھی دے چکے تھے۔ جس طرح آج آڈیو، وڈیو کا راگ الاپا جا رہا ہے اور سبھی جماعتوں کی جانب سے تحریک انصاف کو بالخصوص ٹارگٹ کیا جا رہا ہے‘ آثار بتا رہے ہیں کہ جلد ہی عمران خان کو اس شکنجے میں جکڑ لیا جائے گا جس کی تیاریاں اپنے آخری مراحل میں ہیں۔ اس منصوبے کی راہ میں اگر کوئی دیوار کھڑی ہو سکتی ہے تو میری نظر میں وہ اوور سیز پاکستانیوں کی سیسہ پلائی دیوار ہو گی۔ اگر وہ منظم ہو کر باہر نکل پڑے تو دنیا بھر کے سامنے یہ رجیم چینج‘ جسے عمران سے نجات کا آپریشن بھی کہا جا رہا ہے‘ زیا دہ دیر ٹھہر نہیں سکے گا۔
رجیم چینج کے بعد عمران خان کیلئے اٹھنے والی بے پناہ عوامی ہمدردی اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ عمران خان ملکی سیاست میں اس وقت بھی پی ڈی ایم کی ہر جماعت کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہیں اور ان کا مقابلہ کرنا کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں رہ گئی۔ ان سیاسی جماعتوں کا خوف ان کے چہروں پر نمایاں ہے۔ جلسہ کراچی میں ہو یا سوات میں‘ ساری سیاسی جماعتوں کی تنقید کا ہدف عمران خان کی ذات ہے۔ دو ماہ سے زائد عرصہ بیت چکا ہے‘ ابھی تک پی ٹی آئی حکومت اور چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف کوئی ریفرنس نہیں بنایا جا سکا، آ جا کر سب کی تان توشہ خانہ پر ٹوٹتی ہے‘ جس میں سے‘ سب کو معلوم ہے کہ نکلنا کچھ بھی نہیں۔ سوات کے بعد اب پنجاب کے بیس صوبائی حلقوں کے ضمنی انتخابات میں عمران خان کا مقابلہ کرنے کیلئے سب سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہیں۔ خبریں ہیں کہ انتظامیہ کے کچھ افسران تحریک انصاف کے امیدواروں‘ حامیوں اور سپورٹرز کو اس طرح دھمکیاں دے رہے ہیں جیسے کہ وہ خود الیکشن لڑ رہے ہوں۔ تحریک انصاف کے کتنے ہی لوگوں کو من گھڑت مقدمات میں گھروں سے اٹھا لیا گیا ہے۔ یہ رجحان کسی طور بھی ملکی سیا ست کیلئے اچھا نہیں۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس نے بھٹو کے دورِ حکومت اور ضیاء الحق کے مارشل لا کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ملکی تاریخ میں انہی دو ادوار میں سیاسی مخالفین کو سب سے زیادہ انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ موجودہ دور میں صحافیوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے‘ ان پر جس طرح سنگین غداری اور بغاوت کے مقدمے بنائے جا رہے ہیں‘ اس سے ان سب افراد‘ جنہوں نے ضیا مارشل لا دیکھ رکھا ہے‘ کے ذہنوں میں اسی سیاہ دور کی تلخ یادیں ابھر رہی ہیں جب سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی کمر پر بھی کوڑے برسائے گئے تھے۔ ایاز امیر صاحب، عمران ریاض خان کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ یا ارشد شریف اور دیگر صحافیوں اور اینکرز کو جس طرح ڈرایا، دھمکایا جا رہا ہے‘ وہ کل کو اس حکومت کے ماتھے کا کلنک بن جائے گا۔
بھکر، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خان تو بہت دور کی بات‘ خبر ہے کہ لاہور اور شیخوپورہ سمیت راولپنڈی اور خوشاب میں بھی پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کو بلا کر سختی سے وارننگز دی گئی ہیں کہ اگر نتائج صوبائی حکومت کی منشا کے مطابق نہ آئے تو ان سے پوسٹنگز چھین لی جائیں گی بلکہ کچھ کو تو بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ٹرانسفر کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ اہلکار ہر وہ حربہ ا ستعمال کر رہے ہیں جس کی قانون اور اخلاقیات کے باب میں کوئی گنجائش نہیں۔ سابق صوبائی وزیر یاسمین راشد سمیت چند افراد نے جو الزامات لگائے ہیں وہ حساس نوعیت کے ہیں۔ متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ تحریک انصاف کی قیادت کو بلا کر یہ غلط فہمیاں دور کی جائیں کیونکہ ادارے کسی حکومت یا سیاسی جماعت کے نہیں بلکہ ملک و ریاست کے ہوتے ہیں۔ کسی طبقے کے دل میں اداروں کے بارے میں غلط سوچ کا پنپنا ملک کی بہتری اور قومی اتفاق کیلئے اچھا نہیں ہوتا۔ جو عناصر تلخیوں کو ہوا دے رہے ہیں‘ ان پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ریاستی ادارے اور عوام ایک دوسرے کی طاقت ہوتے ہیں اور یہ سب مل کر وہ مکا بناتے ہیں جو دشمن کا منہ توڑ دیتا ہے۔ اس اتحاد کو ایک مکا ہی رہنے دیں‘ اس کی انگلیوں کو الگ الگ مت کیجئے۔
سوات میں پی ڈی ایم کی کامیابی کی خواہش اس لیے بھی پوری نہیں ہو سکتی تھی کہ وہاں تحریک انصاف کی حکومت تھی۔ دوسرا، عوام ہر قسم کی دھاندلی کا راستہ روکنے کیلئے چارج ہو چکے تھے۔ اس کے برعکس پنجاب میں انتظامیہ کی مدد سے دھاندلی کا جو منصوبہ بنایا گیا ہے‘ اس کا بروقت اور مناسب توڑ کرنا ہو گا۔ بعض حلقوں میں صوبائی حکومت اپنے امیدواروں کی کامیابی کیلئے ہر ناجا ئز حربہ استعمال کر رہی ہے اور یہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ تمام انتخابی حلقوں کے ترقیاتی منصوبوں میں یکدم تیزی آ گئی ہے جو الیکشن پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہے، لاہور میں ضمنی انتخاب والے حلقوں کو لوڈشیڈنگ فری قرار دیا جا چکا ہے۔ یوٹیلیٹی سٹورز سے گھی‘ چینی اور آٹے کے درجنوں ٹرک مسلم لیگ نواز کے امیدواروں کے گھروں‘ دفاتر اور ڈیروں پر کھڑے کر دیے گئے ہیں جہاں شناختی کارڈ کے بدلے یہ تینوں ''نایاب اشیا‘‘ غریب ووٹرزکو قطاروں میں کھڑا کر کے ان میں تقسیم کی جا رہی ہیں۔ دس‘ دس ہزار کے چیکس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔ یہ سب کچھ الیکشن کمیشن کی نظروں کے سامنے کیا جا رہا ہے۔ یہ یقینا پری پول رِگنگ کے حربے ہیں؛ تاہم اطلاعات ہیں کہ اصل کھیل الیکشن والے دن کھیلا جائے گا۔ اگر ان ضمنی انتخابات میں 2018ء کی طرح ہر پولنگ سٹیشن کے باہر اور اندر فوج تعینات نہ کی گئی تو سمجھ لیجئے گا کہ دھاندلی کا منصوبہ پوری طرح بروئے کار لایا جا رہا ہے اور حکومت اپنی مرضی کے انتخابی نتائج حاصل کر کے ہی دم لے گی۔ فوج کی تعیناتی سے انکار رِگنگ اور من پسند نتائج کا نقارہ ہو گا۔ خدشہ ہے کہ 17 جولائی کو ایک مرتبہ پھر عوام کے ڈالے گئے ووٹ کسی گندے نالے کی نذر کر دیے جائیں گے۔ الیکشن کمشنر سے گزارش ہے کہ ہر ضمنی الیکشن میں فوج کی تعیناتی لازمی قرار دی جائے ورنہ 'خون آشام انتخابات‘ قوم کا مقدر بنتے رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved