کوئی شک تھا تو دور ہوگیا ہے کہ دیہاتی ہی لٹتے ہیں۔ ہم پینڈو ساری عمر پینڈو ہی رہتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے یونیورسل سپورٹ فنڈ سے دیہاتی علاقوں میں آئی ٹی کی ترقی کے لیے جو باسٹھ ارب روپے رکھے تھے وہ خاموشی سے اٹھا کر انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کو دے دیے ہیں۔ اس کے پیچھے پوری ایک فلم ہے۔ دنیا ٹی وی کے مارننگ نیوز شو ’’خبر یہ ہے‘‘ میں میرے دوست قاضی سعید کا مشہور فقرہ ہے کہ اربوں روپے ادا کر کے اندھیرے خرید لیے گئے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وزارت ٹیکنالوجی میں موجود یونیورسل سپورٹ فنڈ کو دیکھ کر حکمرانوں کی آنکھوں میں ہوس اتر آتی ہے؟ یونیورسل سپورٹ فنڈ سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے 2006ء میں قائم کیا تھا جس کا مقصد دیہی علاقوں کے کروڑوں پس ماندہ دیہاتیوں تک آئی ٹی کا انفراسڑکچر پہنچانا تھا تاکہ ملک میں ترقی کا پہیہ تیز کر کے ان علاقوں کو شہروں کے برابر لایا جاسکے۔ اس فنڈ کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بھی گرانٹس دینی تھیں۔ ریڈیو سپیکٹرم کی نیلامی سے حاصل ہونے والی آمدن بھی اس میں شامل ہونی تھی۔ اس کے علاوہ آئی ٹی کمپنیوں کی بھاری رقومات پر عائد ٹیکس بھی اسی فنڈ میں جانا تھا۔ تاہم جونہی سیاسی حکومتوں یا دوسرے لفظوں میں جمہوریت سے انتقام لینے کا دور شروع ہوا تو وزارت خزانہ نے اس اہم ادارے کی گرانٹس کم کردیں۔ معلوم ہوا ہے کہ 2011-12ء میں 55 فیصد گرانٹس کم ہوئیں جس کے نتیجے میں دیہاتی علاقوں کے لیے آئی ٹی کے انفراسٹرکچر پر کام کی رفتار سست ہوگئی۔ رواں سال کے دوران اُن سیاستدانوں اور بیوروکریٹس نے جو یونیورسل فنڈ میں کام کر رہے تھے‘ اپنے اخراجات میں 35 فیصد اضافہ کر لیا۔ یوں اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بابوئوں کی عیاشی ہوگئی۔ یونیورسل سپورٹ فنڈ پر سب سے پہلے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نظر کرم پڑی۔ پتا چلا کہ آئی ٹی کی وزارت گرے ٹریفک کے ذریعے مال کمانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ لہٰذا اپنے ایک محبوب بابو کو اس کا سیکرٹری بنادیا گیا۔ اس کے بعد کچھ اور لوگوں کی رال بھی ٹپکنا شروع ہوگئی۔ ادھر سابق اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ کے خلاف سپریم کورٹ میں شکایات ہونے لگیں کہ وہ ججوں کے نام پر پیسے پکڑ رہے ہیں جس پر انہیں اس عہدے سے ہٹا کر کسی وزارت میں کھپانا مقصود تھا۔ لہٰذا انہیں آئی ٹی کی وزارت کا مشیر مقرر کر دیا گیا۔ شاید انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہاں ان کی دال نہیں گلے گی کیونکہ وہاں پہلے ہی کئی لوگ مال پانی پر مست ہوچکے تھے۔ شاید کھوسہ صاحب نے سوچا کہ اگر یہ بات ہے تو پھر کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے۔ یوں وزیراعظم گیلانی اور ان میں ٹکرائو شروع ہو گیا۔ آخر لطیف کھوسہ نے صدر زرداری کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا اور لکھا کہ یونیورسل فنڈ کا پیسہ ذاتی عیاشیوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ پتا چلا کہ ایک گورنر کی آئی ٹی کمپنی کو بھی کروڑوں روپے دیے گئے۔ کھوسہ صاحب نے لکھا تھا کہ بورڈ کے ممبران اپنی کمپنیوں کو کنٹریکٹ لے کر دے رہے ہیں اور مزے کر رہے ہیں۔ دوسری جانب گیلانی صاحب نے بڑے واضح انداز میں اپنے سیکرٹری کو بتا دیا تھا کہ انہوں نے کھوسہ صاحب کے کہنے پر کوئی کام نہیں کرنا؛ چنانچہ یہی کچھ ہوا۔ اگر کھوسہ صاحب کے ساتھ کچھ بانٹ کر کھایا جاتا تو شاید ’’برکت‘‘ زیادہ ہوتی اور معاملات اس حد تک نہ پہنچتے۔ کھوسہ صاحب نے میڈیا کو بھی وہ خط جاری کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ کیسے یونیورسل سپورٹ فنڈ کو کھایا جارہا تھا۔ اس دوران اس فنڈ میں موجود رقوم کو استعمال کرنے کا نیا طریقہ ڈھونڈا گیا۔ وزیراعظم گیلانی نے بلوچستان کا دورہ کیا تو یونیورسل سپورٹ فنڈ سے 44 لاکھ روپے نکال کر اخبارات میں اشتہارات دیے گئے جن میں جناب وزیراعظم کی تشریف آوری کا خیرمقدم کیا گیا تھا۔ وزیراعظم گیلانی کی کابینہ کا 100 واں اجلاس ہوا تو مجھ جیسے کسی خوشامدی نے مشورہ دیا کہ جناب کمال کرتے ہیں، بھٹو صاحب بھی ایک سو اجلاس نہیں کر سکے تھے۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ اشتہارات کے ذریعے قوم کو بتایا جائے گا کہ جناب کمال ہوگیا ہے۔ لہٰذا یونیورسل سپورٹ فنڈ سے مزید 93 لاکھ روپے نکال کر کابینہ ’’کمپنی‘‘ کی مشہوری پر خرچ کردیے گئے۔ ایک صاحب کے لیے نئی لینڈ کروزر (پراڈو) خریدی گئی اور اس فنڈ سے ایک کروڑ ستر لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی۔ ایک اور صاحب کے کہنے پر میڈیا مہم شروع کی گئی اور اس کے لیے اپنی مرضی کی ایک پارٹی کو بارہ کروڑ روپے کے اشتہارات دلوائے گئے۔ ایک جنرل منیجر نے سنا کہ فنڈ سے لوٹ مار ہورہی ہے تو انہوں نے فرمایا کہ ان کے اعزاز میں ایک افطاری کا بندوبست کیا جائے۔ اس ’’کارِخیر‘‘ پر پانچ لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ بورڈ کے ایک اور ممبر نے لوٹ مار ہوتی دیکھی تو ان سے رہا نہ گیا اور فرمائش کی کہ ان کی ایک اپنی ایسوسی ایشن ہے‘ اس کے لیے پانچ لاکھ روپے چندہ دیا جائے جو اس فنڈ سے دے دیا گیا۔ یونیورسل فنڈ کے بورڈ کے ایک ممبر کی اپنی آئی ٹی فرم کو باسٹھ کروڑ روپے اس لیے ادا کیے گئے کہ وہ ملک میں آئی ٹی کی ترقی کا کام کرے گی۔ بورڈ میں بیٹھے افسروں کو محسوس ہوا کہ ان کے دفاتر کے کمرے چھوٹے ہیں جو ان کے شایانِ شان نہیں۔ چنانچہ بڑے دفتر لینے کے لیے اخبارات میں اشتہارات دیے گئے اور بار بار دیے گئے‘ آخر جو دفتر لیا گیا اس کی لاگت پچھلے دفتر سے تین کروڑ روپے زیادہ تھی۔ پتا چلا کہ جس کام کے لیے یونیورسل سپورٹ فنڈ بنایا گیا تھا وہ اپنے مقاصد پورے نہیں کر پایا۔ 2007ء میں دیہی علاقوں میں فائبر اور براڈ بینڈ کے لیے جو کام شروع کیے گئے تھے‘ چھ برس گزرنے کے باوجود ان میں سے ایک بھی کام پورا نہیں ہوا۔ اربوں روپے بنکوں میں پڑے رہے یا پھر اس سے کچھ لوگوں کی عیاشیاں ہوتی رہیں۔ اس پس منظر میں اگر اسحاق ڈار نے دیہاتوں میں آئی ٹی کی ترقی کے لیے مختص یونیورسل سپورٹ فنڈ سے 62 ارب روپے نکال کر وزارت خزانہ کے حوالے کر دیے ہیں تاکہ یہ رقم آئی پی پیز کو ادا کردی جائے تو اس پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اربوں روپے پہلے دیہات پر کہاں خرچ ہورہے تھے‘ وہ تو مختلف بنکوں میں پڑے تھے اور اس پر بھاری مارک اپ کا ہر ماہ اضافہ ہورہا تھا۔ اسحاق ڈار صاحب نے ای سی سی کے پہلے اجلاس کی صدارت کی تو انہوں نے سب سے پہلے جو حکم جاری کیا وہ یہی تھا کہ یونیورسل فنڈ کے باسٹھ ارب روپے ان کی وزارت کو دے دیے جائیں اور وہ دے دیے گئے۔ آئی ٹی وزارت میں کسی نے سوال پوچھنا گوارا نہ کیا کہ کیوں اتنی بڑی رقم وزارت خزانہ کو دی جارہی ہے۔ سب خاموش رہے۔ شوکت عزیز کے دور میں دیہی علاقوں میں براڈ بینڈ اور فائبر پراجیکٹس شروع کرنے کا سات برس بعد یہ انجام ہوا ہے۔ اربوں روپے ایک ہی ہلے میں فارغ ہوگئے۔ میرے دیہاتی اور پینڈو دوستو، دل چھوٹا نہ کرو۔ آپ نے آئی ٹی میں ترقی کر کے کیا کرنا تھا۔ یہ پیدائشی حق تو شہری بابوئوں کا ہے۔ پہلے بھی تو وہ اربوں روپے بنکوں میں پڑے تھے‘ کون سے تمہاری ترقی پر خرچ ہورہے تھے۔ اب وہی اربوں کچھ اور لوگوں کی جیبوں میں چلے گئے ہیں جو تم سے زیادہ ضرورت مند ہیں۔ نیا کیا ہوا ہے؟ کچھ بھی نہیں‘ ماسوائے اس کے کہ ہم دیہاتی ایک دفعہ پھر لُٹ گئے ہیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved