کوئی ایک دُکھڑا ہو تو روئیے۔ کوئی ایک کہانی ہو تو بیان کیجیے۔ کسی ایک معاملے میں دل جلانا ہو تو جلائیے۔ یہاں تو رونا ہی رونا رہ گیا ہے۔ بات بات پر نوبت گلے شکوے تک جا پہنچتی ہے۔ ہر سطح کی حکومت کا یہ حال ہے کہ اُس سے کوئی بھی امید وابستہ کرتے ہوئے اپنے آپ سے شرم محسوس ہوتی ہے۔ ملک بھر میں حکومتی مشینری ایسی بے حسی اور سنگ دِلی کا نمونہ بنی ہوئی ہے کہ کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ کس کس بات کی فریاد کیجیے اور کس سے کیجیے۔ سمجھنے والوں کو تو عنقا سمجھیے‘ یہاں تو اب سننے والے بھی نہیں رہ گئے۔ کوئی بھی ذمہ داری لینے‘ شرمندہ ہونے کو تیار نہیں۔
ایک زمانے سے یہ ''روایت‘‘ چلی آرہی ہے کہ ہر موسم ہم پر قیامت ڈھاتا ہے۔ گرمی پڑتی ہے تو پورے ملک میں بجلی کا بحران ہماری خبر لینے پر تُل جاتا ہے۔ شدید گرمی میں لوگ چین سے سو بھی نہیں پاتے۔ آدھی کچی آدھی پکی نیند پوری کرکے لوگ جب کام پر پہنچتے ہیں تو کارکردگی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ سردی کا زمانہ بھی خوب خوب لتے لیتا ہے۔ خیر‘ سردی تو کسی نہ کسی طور برداشت کرلی جاتی ہے کہ اِس سے طبیعت متلاتی تو نہیں۔ گرمی میں تو انسان کھانے پینے کا رہتا ہے نہ سونے جاگنے کا۔ بجلی نہ ہو تو شدید گرمی میں کام کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ دکانوں، کارخانوں اور دفاتر میں بجلی کے بغیر لوگ ڈھنگ سے کام نہیں کر پاتے۔ ہر ادارہ اتنا مضبوط نہیں کہ اپنی بجلی خود پیدا کرسکے۔
بارش کا معاملہ بھی عجیب رہا ہے۔ یہ تو اب سدا کا رونا ہے۔ جس طور بہت سے فلمی اور غیر فلمی گیت سدابہار ہوتے ہیں بالکل اُسی طور بارش کے حوالے سے ہم کراچی والوں کا رونا بھی اب سدابہار کیفیت کا نام ہے۔ ایک طرف تو ہم پانی کی شدید قلت کو روتے رہتے ہیں۔ پانی کی شدید قلت سے دوچار علاقوں میں کروڑوں افراد پینے کے صاف پانی کو ترستے ہیں اور فصلوں کے لیے بھی پانی میسر نہیں ہو پاتا۔ المیہ یہ ہے کہ دِلوں سے نکلی ہوئی دعاؤں کی بدولت بارش ہوتی ہے تو بھی جان پر بن آتی ہے۔ پانی کا نہ ہونا بھی عذاب اور بہت زیادہ ہونا بھی عذاب۔ ایک زمانے سے شور مچایا جارہا ہے کہ بارش کے پانی کو دریا بُرد ہونے سے روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیم بنائیے تاکہ سال بھر استعمال کے لیے پانی کا ذخیرہ رہے اور لوگ سکون سے جی سکیں۔ یہ رونا بیکار ہی جاتا رہا۔ ریاستی مشینری سے جُڑے اربابِ اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
موسم کی کیفیت کے ہاتھوں پیدا ہونے والی پریشانیاں پورے ملک کے لیے ''سوغات‘‘ کا درجہ رکھتی ہیں۔ ریاستی اور حکومتی مشینری کی نا اہلی‘ بے نیازی اور بے حسی کے ہاتھوں پیدا ہونے والی مشکلات عوام کو ہر سال، ہر موسم میں جھیلنا ہی پڑتی ہیں۔ ملک کا کوئی ایک بھی بڑا یا چھوٹا شہر ایسا نہیں جسے ہر اعتبار سے قابلِ تقلید نمونہ قرار دیا جاسکے۔ اگر کہیں انتظامی معاملات درست بھی ہیں تو کرپشن بہرحال ضرور پائی جاتی ہے اور عوام کو ٹیکس گزاری کی بدولت وہ سب کچھ نہیں مل پاتا جو بہر صورت ملنا چاہیے۔
نا اہلی، بدانتظامی، بے حسی اور بدعنوانی کے ہاتھوں ویسے تو پورے ملک ہی کا حال بُرا ہے مگر یاروں نے مل کر جو رنگ کراچی میں پیدا کیا ہے وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتا۔ تھوڑی سی دیر کی بارش بھی اس شہر کو کچھ کا کچھ کر دیتی ہے۔ بارش کے موسم میں شہرِ قائد کے ندی نالے بھرنے اور اُبلنے میں زیادہ وقت نہیں لیتے۔ تین سال قبل کراچی میں بارش کے دوران ایسے دل سوز مناظر دکھائی دیے تھے کہ اب بھی یاد کیجیے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کئی علاقوں میں اتنا پانی بھرگیا تھا کہ لوگ اپنے ہی گھروں میں یوں پھنس کر رہ گئے کہ اُن تک امداد پہنچانا اور بھی مشکل ہو گیا۔ بعض مقامات پر گھروں کا سامان بہہ گیا اور مکین بے بسی سے دیکھتے ہی رہ گئے، کچھ کرنے کے قابل ہی نہ ہوسکے۔ تب آرمی چیف اور وزیر اعظم‘ دونوں نے باری باری کراچی کا دورہ کرکے شہر کی صورتِ حال پر انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کاروباری برادری اور سماجی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے دوران یقین دلایا تھا کہ کراچی کو ایک نئی زندگی دی جائے گی، شہر کا حلیہ تبدیل کیا جائے گا، اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ موسلا دھار بارش کے دوران برساتی نالے نہ اُبلیں، تمام بنیادی سہولتوں کی بروقت اور معقول فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ دونوں مقتدر شخصیات نے شہرِ قائد کے لیے 1100 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔ یہ رقم کراچی ٹرانفارمیشن پلان کے تحت خرچ کی جانی تھی۔ وہ پیکیج کیا ہوا کچھ معلوم نہیں۔ کراچی کو بدلنے کے ارادے کہاں کھوگئے کوئی نہیں جانتا۔ اب اگر کسی سے پوچھئے تو کوئی جواب نہیں ملتا۔ 1100 ارب کو تو گولی ماریے، یہاں تو 100 ارب بھی کہیں لگے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ اگر اس پیکیج کا نصف بھی شہر پر لگ جاتا تو شہر کا حلیہ ایسا تبدیل ہوتا کہ دنیا دیکھتی رہ جاتی۔
کراچی قومی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی بھی ہے اور اب نسلی تنوع کے اعتبار سے حقیقتاً منی پاکستان بھی۔ اب اس شہر کی سماجی حیثیت کو بھی ذہن نشین رکھا جانا چاہیے۔ یہاں ملک بھر کے لوگ رہتے ہیں۔ اُن کی معاشی سرگرمیوں سے اُن کے آبائی علاقوں کی معیشت بھی پنپتی ہے۔ کراچی کا پنپنا پورے ملک کا پنپنا ہے۔ کوئی نہ مانے تو اور بات ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ کراچی کو نظر انداز کرکے در حقیقت پورے ملک کو نقصان سے دوچار کیا جا رہا ہے۔ سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طور لاپروائی سے کی جانے والی حکمرانی نے ملک کو پستی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ کراچی کو بھی مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ایک زمانے سے یہاں کے سیاسی اور سماجی رہنما اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا نظام بہتر بنایا جائے، لوگوں کو سکون سے دو وقت کی روٹی کمانے اور کھانے کا موقع دیا جائے مگر اربابِ اختیار کسی بھی معاملے پر توجہ دینے، کوئی بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں۔
تین سال قبل چند گھنٹوں کی موسلا دھار بارش نے جو قیامت ڈھائی تھی کچھ ویسی ہی قیامت ایک بار پھر اِس شہر پر ٹوٹی پڑی ہے۔ جنہیں اس شہر کے لیے کچھ کرنا ہے وہ یکسر لاتعلق بیٹھے ہیں۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے کی بارش نے تمام برساتی نالے بھر دیے۔ اُنہیں تو بھرنا ہی تھا کیونکہ مون سُون کی آمد کے باوجود اُن کی صفائی نہیں کی گئی تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ دو دنوں میں تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے ہونے والی بارش نے پورے شہر میں سیلابی کیفیت پیدا کردی ہے۔ لوگوں کو کام پر جانے اور گھر واپس آنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ شہر کی تمام بڑی شاہراہیں دریا کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ شارعِ فیصل شہر کی کلیدی شاہراہ ہے کیونکہ اِسی پر ایئر پورٹ بھی واقع ہے۔ اس شاہراہ کا یہ حال ہے کہ جگہ جگہ اِتنا پانی کھڑا ہے کہ آدھی موٹر سائیکل ڈوب جائے۔ محض تین چار کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے میں بھی بعض افراد کو دو دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ شہر کی مضافاتی بستیوں میں جگہ جگہ پانی کھڑا ہے۔ اس پانی کی نکاسی کا کوئی معقول انتظام نہیں۔ اب سورج آگ برسائے گا تو یہ برساتی پانی سوکھے گا۔ اِس کے بعد وہاں دلدل رہ جائے گی جو لوگوں کے لیے پیدا ہونے والی مشکلات کو کم بہرحال نہیں ہونے دے گی۔
کراچی میں کئی بار بارش نے تباہی برپا کی ہے۔ تھوڑی سی توجہ اور تھوڑی سی محنت سے بہت کچھ درست کیا جاسکتا ہے۔ سوال وسائل سے زیادہ نیت کا ہے۔ جن کے ہاتھ میں شہر کا نظم و نسق ہے وہ اگر نیک نیتی سے کچھ کرنا چاہیں تو کچھ نہ کچھ ہو رہے گا۔ اگر توجہ صرف مال پیٹنے پر رہے گی تو شہر کے زخم بالآخر ناسُور بن جائیں گے۔ اِتنے بڑے شہر سے ایسی بے اعتنائی اچھی نہیں۔ شہرِ قائد کا حلیہ درست کرکے اِسے ایک بین الاقوامی شہر کے طور پر تجارت اور سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ سیاحت کا بہت بڑا مرکز بھی بنایا جاسکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved