جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں ‘ بقر عید کا دن ہے اور قربانی کے علاوہ باقی سارے ہنگامے ماند پڑچکے ہیں ۔ عام طور پر عید الاضحی پر کپڑوں‘ جوتوں کی خریداری بھی اس طرح نہیں ہوتی جیسی عید الفطر پر۔کچھ تو یہ ہے کہ دو ماہ پہلے ہی یہ خریداری کی گئی ہوتی ہے ۔کچھ یہ کہ صاحبِ حیثیت لوگوں کا زیادہ اور بڑا خرچ قربانی کا ہوتا ہے اس لیے توجہ اور فکر اسی کی ہوتی ہے ۔ لیکن فکر تو بڑوں کو ہوتی ہے ‘بچوں کو تو بکروں‘ دنبوں ‘ گائیوں اور اونٹوں کی خوشی ہوتی ہے اور وہ کئی ہفتے سے اسی انتظار میں ہوتے ہیں۔ ہم بچے تھے تو اس کی بے چینی اور اشتیاق ہمیں بھی ہوتا تھا۔روز اپنے والدِمرحوم سے ضد کی جاتی تھی کہ بکرے کب لیں گے؟اور والدین بھی بچوں کی بے صبری اور بے چینی دیکھتے ہوئے ہتھیار ڈال دیتے تھے‘اور عید سے کئی روز پہلے ہی قربانی کے جانور خرید لیے جاتے تھے۔ویسے تو یہ معصوم جانور ہر بچے کے دوست بن جاتے ہیں ‘ لیکن شہری بچوں کے لیے یہ اشتیاق بہت زیادہ ہوتا ہے اور انہیں یہ تجربہ بھی سال میں صرف ایک بار ہوتا ہے۔ بکروں ‘دنبوں کے لیے چارہ لانا اور کھلانا ‘بچوں کا مل جل کر اپنے جانور گھمانے اور ٹہلانے لے جانا‘انہیں نہلانا ‘دھلاناان چند دنوں کی سرگرمیوں کا محور ہوتے ہیں ۔کچھ علاقوں میں اب تک یہ رواج ہے ‘مثلاً اندرون لاہور میں کہ مینڈھا یا بکرا ‘سال بھر پہلے ہی خرید لیا جاتا ہے ۔زیادہ جگہ تو ہوتی نہیں اس لیے اسے دہلیز پر باندھ کر اس کی خاطر مدارات کی جاتی ہے ۔ یا چھت پر رکھ لیا جاتا ہے۔ سارا سال یہ مینڈھا‘دنبہ یا بکرا گھر والوں کا مہمان رہتا ہے۔اور جب قربانی کا دن آتا ہے تو بچوں بڑوں کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں ۔ یہ اپنائیت‘ انسیت اور محبت دو طرفہ ہوجاتی ہے ۔ اور شاید یہی قربانی زیادہ اہم اور زیادہ مشکل ہے ۔
ذرا تصور کیجیے ‘ اس جلیل القدر پیغمبرحضرت ابراہیم علیہ السلام کا جن کی آل میں اللہ تعالیٰ نے پے درپے عظیم پیغمبر بھیجے ‘حتیٰ کہ یہ سلسلہ خاتم النبیین نبی اکرم محمدﷺ پر ختم ہوکر اپنی بلند ترین نسبت تک پہنچ گیا۔کچھ پیغمبر اتنے عظیم ہیں کہ ان کے ذکر سے قرآن کریم کو خاص محبت ہے اور وہ طرح طرح سے ان کی عظمت واضح کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایسے ہی عظیم پیمبر ہیں ۔ ذرا تصور کیجیے کہ بچپن سے بڑھاپے تک کیسی کیسی آزمائشیں ان پر آئیں اور کیسے وہ ہر بار ان میں سرخرو ہوئے ۔ بچپن ہی سے بت پرستی سے نفرت اور معبودِ حقیقی کی تلاش ان کی منزلوں کا تعین کرتی تھیں ۔ روایت کے مطابق ان کا باپ خود بت تراش تھا۔ ایک بت تراش کے یہاں بت شکن پیدا ہوا۔یہ اللہ کا نظام ہے کہ کس کے گھر میں کون ہستی جنم لے۔ نوح علیہ السلام کے گھر میں کافر بیٹا اور آزر کے گھر میں ابراہیم علیہ السلام‘ اسی کے کرشمے ہیں ۔مظاہرِ فطرت ستارے‘ چاند‘ سورج ہر دور اور قوم میں پرستش کے قابل سمجھے جاتے رہے ہیں ۔لیکن ابراہیم علیہ السلام کی حقیقت شناسی ان منزلوں سے کہیں آگے تھی۔ ذر اایک بار پھر اس زمانے کا تصور کیجیے جب انسان کی سب بڑی مادی پناہ گاہ اس کا گھر‘اس کا خاندان اور اس کا قبیلہ ہوا کرتا تھا۔ان سے لڑائی مول لینا اپنے ہاتھ پاؤں کاٹ دینے کے مترادف تھا‘لیکن جب حق حضرت ابراہیم علیہ السلام پر واضح ہوگیا تو کوئی مشکل انہیں اپنا گھر‘ قبیلہ چھوڑنے سے نہ روک سکی ۔
عمر کچھ اور گزری تو بادشاہِ وقت کا عتاب ان پر آگ کی طرح بھڑکا۔ بھڑکتے الاؤ میں ڈال دیے گئے لیکن یہ آزمائش قدم نہ لڑکھڑا سکی ۔ کتابِ سبز نے کہا ـ: اے آگ ! ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا۔ میرے عظیم داد احضرت مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ نے لکھا کہ یہاں سلاما کا لفظ استعمال کیاگیا ہے‘ کیوں کہ بہت ٹھنڈک بھی انسان کے لیے تکلیف دہ ہے اس لیے آگ کو سلامتی والی ٹھنڈک کا حکم دیا گیا۔پھر تصور کیجیے کہ مرادوں ‘ دعاؤں اور التجاؤں سے مانگے ہوئے بیٹے اور محبوب بیوی کو وطن سے بہت دور لق و دق ویرانے میں چھوڑ دینے کا حکم ہوا جہاں دہکتی چٹانوں اور سلگتی ریت کے سوا کچھ نہ تھا۔ کیا یہ آسان آزمائش تھی ؟پھر جب مرادوں والا بیٹا باپ کے ساتھ بھاگنے دوڑنے کے قابل ہوگیا ‘تو اسے اللہ کی راہ میں قربان کردینے کا خواب دکھایا گیا ۔جب وہ قربانی کے لیے تیار ہوئے تو اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اس استقامت کو اس طرح یاد کیا : فلما اسلما۔جب وہ دونوں اسلام لے آئے ‘یا جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کردیا)۔ یہ تو شاید سب سے بڑی آزمائش تھی۔ ایسی آزمائش کہ دل پھٹ جائیں ۔ اسی لیے تو قرآن کریم نے اسے ذبح عظیم(عظیم قربانی ) کے الفاظ سے یاد کیا ہے؛چنانچہ ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم کو ہم پنج گانہ یاد کرتے ہیں۔ اور اللہ کو ان سب کی ادائیں ایسی پسند آئیں کہ ان کے ایک ایک عمل کو رہتی دنیا تک قابلِ تقلید قرار دے دیا۔ ہم قربانی کریں ‘ یا صفا مروہ کے بیچ سعی کریں ‘ زمزم پئیں ‘یا بیت اللہ کا طواف کریں ‘ یہ سب اُسی خانوادے کی نشانیاں ہیں جو تا قیامت باقی ہیں ۔
اب ذرا اپنی طرف دیکھیے ۔ ہم بھی اسی اللہ کے بنائے ہوئے ہیں ۔ اسی کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں ۔اسی کے سامنے سر جھکانے کا دعویٰ رکھتے ہیں‘ لیکن کیاکوئی ایک آزمائش بھی ہے جس پر ہمارے پاؤں نہ لڑکھڑا جاتے ہوں ؟کوئی ایک حکم بھی ہے جس پر ہم اعراض شروع نہ کردیتے ہوں ؟ کوئی ایک سہولت بھی ہے جو ہم چھوڑنے کے لیے تیار ہوجاتے ہوں ؟ ہمیں جس قربانی کا حکم ہے وہ سہل ترین قربانی ہے ۔ اور وہ بھی صرف صاحبِ حیثیت لوگوں پر۔ ہم تین چار طرح ان دنوں کو گزارتے ہیں ۔وہ لوگ بھی الحمد للہ اچھے خاصے موجود ہیں ‘جو ان سب سے بچ کر اور دور رہ کر قربانی کرتے ہیں ۔اور وہی کامیاب لوگ ہیں۔ ان کے علاوہ یا تو ہمارے جیب میں سکے کھنکھنا رہے ہوتے ہیں لیکن ہمیں قربانی کی توفیق نہیں ہوتی ۔ یا ہم اس عمل پر ہی طرح طرح کے اعتراض کرنا شروع کردیتے ہیں ۔خود تو کرتے ہی نہیں ‘دوسروں کو بھی باز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور یا پھر ہماری قربانی ہمارے سٹیٹس کا اظہار اور ہمارے مال و دولت کی نمائش بن جاتی ہے ۔نمائش بھی پرلے درجے کے گھٹیا پن کے ساتھ اور کم حیثیت لوگوں کے دل دُکھا کر ۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ اللہ کے پاس نہ گوشت پہنچتا ہے ‘ نہ خون۔ اس کے پاس تو ہماری پرہیز گاری پہنچتی ہے ۔ اس نمود و نمائش میں جو چیز سرے سے غائب ہوتی ہے وہ تقویٰ ہی ہوتا ہے ۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ قربانی ایک جامد اور بے روح رسم یا رواج نہیں ‘ ایک فرض اور ایک سنت ہے اور اس گوشت پر ان لوگوں کا بڑا حق ہے جنہیں سارا سال گوشت میسر نہیں آتا۔ کیا ہم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ ہم قربانی میں اپنے پیسے بھی خرچ کر رہے ہوں ‘لیکن ہمارے اس عمل کا ایک دھیلے کا فائدہ نہ ہورہا ہو؟کیا ہم اس سے نہیں ڈرتے کہ یہ سب قربانیاں ہمارے منہ پر مار دی جائیں اور ہم سے وہ چیز ‘یعنی تقویٰ طلب کرلیا جائے ‘جوسرے سے ہمارے پاس ہے ہی نہیں۔ قربانی کا جانور خریدتے وقت یہ ذہن میں رکھیے کہ تقویٰ کہاں سے خریدیں گے ؟ہے کوئی بازار‘ کوئی دکان نظرمیں ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved