تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     10-07-2022

امریکہ کا بندوق کلچر اور وبائی جنگ

بات چل رہی تھی امریکہ میں ہونے والے فائرنگ کے بڑے واقعات (Mass Shooting) کی تو کچھ لوگوں نے اپنے فیڈ بیک میں کچھ تعجب کا اظہار ہی نہیں کیا بلکہ پیش کیے گئے اعداد و شمار کو نا قابلِ یقین قرار دیا اور اس پر سوال اٹھائے۔ مثال کے طور پر ہم نے بتایا کہ جولائی کے شروع تک امریکہ میں ان واقعات کی تعداد تین سو ہو چکی ہے‘ اس ضمن میں عرض یہ ہے کہ یہ وہ حقائق ہیں جو امریکی میڈیا خود پیش کر رہا ہے اور ان کی اپنی ویب سائٹس پر بھی موجود ہیں۔ لیکن ایک بات بہت اہم ہے کہ امریکی ان تمام واقعات کو‘ جن میں سے کئی ایک سکولوں میں پیش آئے ہیں‘ صرف فائرنگ کے واقعات کہتے ہیں۔ بات کرنے کا مطلب اور مقصد یہ ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں اسے دہشت گردی کی کوئی ابتدائی شکل قرار دینے کو تیار نہیں ہیں۔ جبکہ اقوام متحدہ کی طرف سے وضع کردہ معیار کے مطابق یہ بحر حال دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی دہشت گردی کی بیان کردہ تعریف یا معنی کے مطابق ایسی کوئی بھی مسلح کارروائی‘ جس میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا جائے‘ اس کا ذریعہ صرف بم ہی نہیں ہے یہ بندوق یا کسی اور ہتھیار سے فائرنگ بھی ہو سکتی ہے‘ دہشت گردی ہی کی فہرست میں شمار ہوتی ہے۔ ایسی کسی بھی کارروائی سے عام شہریوں میں خوف و ہراس پھیل جاتا ہے‘ وہ زخمی ہوتے ہیں یا ہلاک۔ اگر دہشت گردی کے نقصانات کے ان درجات کو مدنظر رکھیں تو امریکہ آخری درجے میں آتا ہے کیونکہ وہاں فائرنگ کے واقعات میں ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہاں ایک بات کا حوالہ بہت ضروری ہے اور یہ حوالہ ہے نیوزی لینڈ میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعہ کا جس میں ایک مسجد میں نمازیوں پر حملہ کیا گیا تھا اور بہت سارے نمازی شہید ہو گئے تھے۔ اس واقعہ کو دہشت گردی قرار دینے میں مغربی میڈیا نے بہت وقت لیا تھا اور تقریباً ڈیڑھ دن کے بعد اس کو دہشت گردی کا نام دیا تھا۔ اب یہاں جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ Perception کا ہے۔ جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ Perceptions حقیقت سے زیادہ طاقت رکھتی ہیں۔
امریکہ کی صورت حال پر مزید بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ امریکہ فی کس بندوق یا پستول رکھنے کی شرح کے حوالے سے دنیا میں سب سے آگے ہے۔ اس کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ امریکہ میں ہر 100افراد کے لیے 120 ہتھیار موجود ہیں۔ اس فہرست میں موجود دوسرے ملک کے نام اور وہاں موجود ہتھیاروں کی تعداد کے حوالے سے بہت زیادہ حیرانی ہوتی ہے‘ جی ہاں اس فہرست میں دوسرے نمبر پر جنگ زدہ ملک یمن آتا ہے جہاں 100 افراد کے لیے تقریباً 55ہتھیار موجود ہیںجو کہ امریکہ کے مقابلے میں آدھے بھی نہیں بنتے۔ اسی طرح امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ہر ایک لاکھ امریکیوں میں سے تقریباً بارہ لوگ اس قسم کے واقعات کا سامنا کر چکے ہیں۔ سامنا کرنے سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک لاکھ امریکیوں میں سے بارہ ایسے ہیں جن کی موجودگی میں یہ فائرنگ ہو چکی ہے۔ وہ زخمی ہوئے‘ ہلاک ہوئے یا وہاں سے بھاگ کراپنی جان بچائی۔ اب آپ اس بارہ کو امریکہ کی33 کروڑ سے زائد آبادی سے ضرب دیں تو یہ تعداد تقریباً چالیس ہزار بن جاتی ہے۔ اس طرح یہ تعدا د بہت خطرناک صورت حال کا پتہ دیتی ہے۔ واضح رہے کہ گلف نیوز کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کی تعداد اسی ہزار سے زائد ہے۔ یہ سب ایک بیرونی مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں ہونے والی شہادتیں تھیں۔ اس جنگ میں بھارت نے کھلے عام افغانستان کی سر زمین استعمال کرتے ہوئے‘ اسلحہ‘ بھاری رقوم اور دہشت گردوں کو تربیت دے کر اپنی خفیہ ایجنسی را کے کلبھوشن یادیو جیسے جاسوسوں کی مدد سے یہ سب کروایا تھا۔ یہاں اس بات کا مقصد یہ ہے کہ تاحال امریکہ میں کوئی ایک بھی غیرملکی نہیں ملا یا پکڑا گیا جو وہاں پر ہونے والے فائرنگ کے واقعات میں ملوث ہو‘ مطلب وہاں پر ہونے والے تمام واقعات میں ان کے اپنے شہری ذمہ دار ہیں۔
اب بات پھر Perceptionکی آجاتی ہے‘ آپ دنیا کی تمام مشہور ویب سائٹس پر جا کر دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دنیا کے غیرمحفوظ ممالک کی فہرست میں امریکہ کا نام کہیں آپ کو آخری نمبروں پر بھی نظر آ جائے۔ اسی بات کو آگے بڑھائیں تو بھارت میں آخری سماجی حیثیت کے شودر لوگوں کو لے کر مغربی سائٹس بھی کہیں نہ کہیں بھارت کو تنقید کا نشانہ بناتی نظر آجاتی ہیں لیکن دوسری طرف امریکہ میں موجود سیاہ فام لوگ جس امتیازی سلوک کا شکار ہلاکتوں کی شکل میں ہو رہے ہیں‘ کے متعلق کوئی اصطلاح تک استعمال ہوتی نظر نہیں آتی۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ امریکی سیاہ فام تقریباً دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت کا سامنا کر رہے ہیں مگر اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ وجہ صرف یہ ہے کہ دنیا کی معیشت اور سیاست کی طرح انفارمیشن اور میڈیا پر بھی ان کا تسلط قائم ہے۔ اسی لیے کوئی اسے انسانی حقوق کی خلاف فرضی تک نہیں کہتا۔ یہ وہی بات ہے کہ جب افغانی روس کے خلاف لڑ رہے تھے تو آزادی کے سپاہی (Freedom Fighters) کہلاتے تھے لیکن جب وہ روس کے تسلط سے آزاد ہوگئے اور امریکہ کا مقصد پورا ہوگیا تو وہ پہلے مشکوک اور پھر دہشت گرد کہلوائے تھے۔ اسی طرح کی ایک اور بڑی مثال؛ امریکہ کی افغانستان میں جنگی طرز پر موجودگی پر اگر کوئی بھی عام آدمی ان سے لڑتا تو دہشت گرد کہلواتا لیکن اب یوکرین میں عورتوں کو بھی اسلحہ اور تربیت دی جاتی ہے تو مغربی میڈیا ان وڈیو ز کو آزادی یا دفاع کی خاطر لڑنے والوں کے طور پر فخریہ انداز میں دکھاتا ہے۔ امریکہ کی افغانستان میں بیس سال تک موجودگی پر کبھی کسی نے تنقید نہیں کی تھی جبکہ اب پوٹن کو منفی القابات دیے جاتے ہیں‘ حالانکہ یوکرین میں روسی موجودگی اور جنگ نما آپریشن کا افغانستان میں امریکی جنگ سے کوئی بھی موازنہ نہیں۔
واپس چلتے ہیں امریکہ کے اندر جاری بڑی فائرنگ کے واقعات کی طرف تو آپ کو حیرانی ہوگی کہ امریکہ اس فائرنگ کی بڑی وجہ اپنے شہریوں کی ذہنی صحت کو قرار دے رہا ہے۔ اب اس بات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس حوالے سے بھی امریکہ ایک واضح خطرے سے دو چار ہے۔ امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی کل آبادی کا تقریباً 17 فیصد حصہ ذہنی‘ مشکلات (Mental disorder)کا شکار ہے۔ بات یہاں پر مکمل واضح نہیں ہوتی بلکہ اصل خطرہ اس وقت واضح ہوتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ اس حوالے سے امریکہ دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ گزشتہ کالم میں ذکر ہوا تھا کہ امریکہ کی کل سالانہ آمدنی دنیا کی کل آمدنی کا بیس فیصد ہے اور یہ بغیر کسی مقابلے کے دنیا کی سب سے زیادہ آمدنی ہے۔ لیکن آج ہم یہ بھی جان چکے ہیں کہ امریکی عوام ہتھیاروں کے تناسب سے بھی باقی دنیا میں کہیں زیادہ آگے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی معلوم ہوئی تھی کہ امریکہ میں اسلحہ سازی چونکہ وہاں کی سب سے بڑی صنعت ہے‘ اس لیے امریکہ کے اندر اسلحہ کی فروخت پر پابندی نہیں لگائی جاتی لیکن آج کل امریکہ میں بندوق کلچر ختم کرنے کے لیے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپنا اسلحہ دنیا میں بیچنے کے لیے امریکہ دنیا کے مختلف ممالک میں جنگیں کرواتا ہے یا خود جنگیں مسلط کرتا ہے۔ لیکن آج کی دنیا کو پچھلی دنیا سے زیادہ امن کی ضرورت ہے‘ کیونکہ اب وبائیں ہی اتنی ہو گئی ہیں کہ پوری دنیا مل کر اس سے نہیں لڑ پا رہی۔ نہیں تو خود امریکہ دنیا میں ذہنی امراض کے حوالے سے پانچواں بڑا ملک نہ ہوتا۔ اس لیے بندوق کلچر سے نجات ضروری نہیں لازم ہو چکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved