اب نومینز لینڈ سے ہم یوگنڈا کی حدود میں داخل ہو چکے تھے۔ اس علاقے کو پہلی بار دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔ ہم سب ''بھائی جان‘‘ عبدالحمید کی دلچسپ گفتگو سے محظوظ ہو رہے تھے کہ یوگنڈا کی کسٹم پوسٹ پر گاڑی رکی۔ عمر داؤد بھی اب ہماری گاڑی میں سوار تھے۔ ایک خاتون افسر نے ہم سے سوال جواب شروع کر دیے۔ عبدالحمید کو اب دوسرا لطیفہ سوجھا۔ محترمہ سے کہنے لگے ''یہ شیخ صاحب جو اگلی نشست پر بیٹھے ہیں‘ عالمی شہرت کے حامل سکالر ہیں اور اس کے ساتھ بڑی روحانی شخصیت ہیں۔ اسلامک یونیورسٹی مبالے کا معائنہ کرنے جارہے ہیں...‘‘ خاتون میری جانب متوجہ ہوئی۔ میری سفید ڈاڑھی‘ جناح کیپ اور پاکستانی لباس دیکھا۔ ادب سے جھک کر سلام کیا اور حال احوال پوچھا۔ میں نے بھی جواباً اس کا حال احوال پوچھا۔ کہنے لگی ''سر میرے دو بیٹے ہیں‘ باپ ان کا کافی سالوں سے لاپتہ ہے۔ ابھی سکول میں ہیں‘ یونیورسٹی لیول پر پہنچے تو اسلامک یونیورسٹی میں انہیں داخل کرانے کا اہتمام فرما دیجیے‘‘۔
مجھے اس خاتون کی سادہ لوحی اور عبدالحمید کی شرارت پر ہنسی آنے لگی مگر میں نے بمشکل اسے روکا اور کہا ''کیوں نہیں تمہارے بچوں کے لیے میں دعا بھی کرتا ہوں اور یونیورسٹی میں داخلے کے لیے بھی کوشش کروں گا۔ آپ ان صاحب سے (عمر داؤد کی جانب اشارہ کرکے) رابطہ رکھیں۔ ان کا پتہ نوٹ کر لیں۔ یہ مسلم مشنری ہیں۔ آپ کو اسلام کے بارے میں بھی بہت کچھ بتا سکیں گے...‘‘ اس خاتون نے شکریہ ادا کیا‘ اسلام کے بارے میں اچھے جذبات کا اظہار کیا، پتہ نہیں وہ عیسائی تھی یا روایت پرست مذہب سے تعلق رکھتی تھی۔ ہمیں سلیوٹ کیا اور گارڈ کو گیٹ کھول دینے کا اشارہ کیا۔ عمر داؤد جو ہمارا حال احوال پوچھ رہا تھا‘ زیادہ نہ سمجھ سکا کہ عبدالحمید صاحب اسے کیا ذمہ داری سونپ رہے ہیں۔ بہرحال ہم نے اسے اس خاتون کا مسئلہ بتایا اور کہا کہ وہ رابطہ کرے تو اس سے تعاون کریں۔ پھر ہم اپنے سفر پر آگے بڑھ گئے۔ اب عمرداؤد ہمارا گائیڈ تھا۔
افریقہ میں لوگوں کو تعلیم سے بے انتہا دلچسپی ہے۔ پسماندہ براعظم ہونے کے باوجود خواندگی کا تناسب اکثر ممالک میں ساٹھ فیصدی یا اس سے اوپر ہے۔ چند ممالک اس معاملے میں استثنا کا درجہ رکھتے ہیں۔ یوگنڈا‘ کینیا‘ تنزانیہ میں خواندگی کا تناسب ستر اور اسی فیصد کے درمیان ہے جب کہ اپنے پیارے پاکستان میں 63فیصد ہے۔ اس خاتون نے عمر داؤد کا پتہ لکھ لیا اور رابطہ رکھنے کا وعدہ کیا۔ میں نے عبدالحمید صاحب سے کہا ''بھائی جان! بڑے آپ ہیں اور بزرگی کا حوالہ دینا ہو تو میری طرف اشارہ کر دیتے ہیں‘‘۔ قہقہہ لگا کر کہنے لگے ''ہاں کچھ لوگ ظاہری بزرگ ہوتے ہیں اور کچھ باطنی۔ یہ دنیا حقیقی بزرگوں کو کہاں پہچانتی ہے۔ ایسے مواقع پر ظاہری بزرگوں ہی کا دنیا پر تسلط ہوتا ہے‘‘۔ گویا موصوف خود کو باطنی بزرگ قرار دے رہے تھے۔ بس ایسی ہی خوش گپیوں میں مصروف مبالے شہر کی طرف رواں دواں رہے۔ عمر داؤد پاکستان میں زیر تعلیم رہنے کی وجہ سے اردو سے کسی حد تک واقف ہے۔
عبدالحمید کے چٹکلوں سے وہ بھی محظوظ ہوتا رہا۔ یوگنڈا کی زمین بہت زرخیز ہے مگر کینیا اور تنزانیہ کے مقابلے میں رقبہ کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کے پاس چھوٹے چھوٹے فارم ہیں اور کسان عموماً کاہلی کا شکار رہتے ہیں۔ کیلے‘ آم اور انناس کے باغات سڑک کے دونوں جانب نظر آتے ہیں۔ جیک ٹری Jack Tree بھی بکثرت پائے جاتے ہیں جن کے ساتھ ان کے دیو ہیکل پھل لٹکے ہوئے عجیب لگتے ہیں۔
راستے میں آنے والی تمام آبادیوں کے بارے میں عمر داؤد مفید معلومات فراہم کرتے رہے۔ کہاں کتنے مسلمان رہتے ہیں‘ کون کون سے ادارے پائے جاتے ہیں‘ سابقہ صدارتی انتخاب میں مسلم نمائندے محمد میانجا کو کتنے ووٹ ملے تھے‘ کہاں قبولِ اسلام کی رفتار تیز ہے۔ یہ مفید معلومات میرے لیے انتہائی دلچسپی کا باعث بھی تھیں اور مسرت کا سبب بھی۔ اس مرتبہ اس سفر کا اصل مقصد نئی وجود میں آنے والی اسلامی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت سے تفصیلی تعارف تھا۔ دیگر مختلف سرگرمیاں اور پھر دارالحکومت کمپالا میں پرانے دوستوں سے ملاقاتوں کی تو ثانوی حیثیت تھی۔
ہم لوگ تقریباً پانچ بجے مبالے شہر میں آپہنچے۔ یہاں عمر داؤد نے سب سے پہلے ہمیں اپنا ذاتی تعلیمی ادارہ دکھایا‘ اپنے رفقائے کار اور چند طلبہ سے ملاقات کرائی۔ پھر اس ادارے سے متصل عظیم الشان جامع مسجد میں نماز عصر ادا کی۔ مسجد میں پانی کی قلت تھی۔ نیل کا منبع ہونے کا شرف بھی یوگنڈا کو حاصل ہے اور پانی کی قلت بھی اس کا مستقل مسئلہ ہے۔ عمر داؤد نے نماز کے فوراً بعد اعلان کیا کہ پاکستان اور کینیا سے آئے مہمانوں کے اعزاز میں ایک نشست ہنگامی طور پر منعقد کی جا رہی ہے اس میں شرکت فرمائیں اور مہمانوں کے خیالات سے مستفید ہوں۔ اچانک بغیر پیشگی پروگرام کے یوں اعلان کچھ عجیب سا لگا۔ خیر پندرہ منٹ کی گفتگو اور پھر پانچ منٹ سوال و جواب ہوئے۔ امام صاحب نے بہت شستہ انگریزی زبان میں ہمارا شکریہ ادا کیا۔
یہاں سے ہم اسلامک یونیورسٹی گئے جہاں وائس چانسلر پروفیسر مہدی آدم کو ہماری آمد کی اطلاع مل چکی تھی۔ پروفیسر صاحب کا تعلق نائجیریا سے ہے اور بہت قابل استاد‘ اچھے منتظم اور مخلص مسلمان ہیں۔ نائیجیریا میں ناموں کے آخر میں وکا اضافہ کر دیا جاتا ہے جس طرح ''احمد و بیلو‘‘ پروفیسر آدم کو بھی آدمو بولا اور لکھا جاتا ہے۔ یونیورسٹی حال ہی میں قائم ہوئی ہے اور اس کی عمارات مختصر ہیں مگر بہت اچھا تعلیمی ماحول ہے۔ افریقہ کے بیس پچیس ممالک کے طلبہ و طالبات یہاں زیر تعلیم ہیں۔ بیشتر تعداد مسلمان طلبہ و طالبات کی ہے۔ کل تعداد تقریباً آٹھ سو ہے اور کم و بیش تمام فیکلٹیز (Faculties) موجود ہیں۔
پروفیسر آدمو سے عبد الحمید کا پہلے سے تعارف تھا۔ جب ہم ان کے دفتر پہنچے تو وہ اساتذہ و طلبہ کے ساتھ مسجد میں نماز عصر ادا کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد تشریف لائے اور بڑے تپاک سے ملے۔ دفتر سے وہ ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ یہاں روایتی نائیجیرین مہمان نوازی کا بہترین منظر تھا۔ چائے‘ کافی‘ کیک‘ بسکٹ‘ نمک پارے‘ سموسے اور شہد۔ پروفیسر آدمو نے بتایا کہ ان کی دو بیویاں اور 17بچے ہیں۔ بعض بچیاں شادی شدہ اور صاحبِ اولاد بھی ہیں۔
پروفیسر صاحب نے بتایا کہ ہمارا قیام یونیورسٹی کے اندر ہی ہوگا اور نماز مغرب سے عشا تک جامعہ کی مسلم سٹوڈنٹس یونین کے ذمہ داران ہم سے ملاقات کریں گے۔ نماز عشا کے بعد مسجد میں طلبہ و طالبات کے سامنے خطابِ عام ہوگا پھر جامعہ کے مہمان خانے میں عشائیہ اور آرام۔ طلبہ تنظیم کے ذمہ داران ہمارے چائے پینے کے دوران ہی آگئے اور نماز مغرب کے بعد انہوں نے ہمیں مسلسل مصروف رکھا۔ ابھی ان کا کام ابتدائی نوعیت کا ہے اور تجربہ بہت کم ہے۔ بہرحال انہوں نے دفتر قائم کر رکھا ہے۔ تنظیم میں تقسیم کار بھی ہے۔ لائبریری کے علاوہ اجتماعات اور تربیتی لیکچرز منظم کرکے اسلامی معلومات میں اضافے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
عشا کی نماز کے بعد لیکچر تھا۔ وائس چانسلر صاحب اور اساتذہ کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔ موضوع تھا ''علم کی اہمیت اور حقیقی علم کی پہچان و ثمرات‘‘۔ اس موضوع پر چالیس منٹ کا خطاب ہوا۔ بیس منٹ سوال و جواب‘ اس مجلس کے برخاست ہونے کے بعد ہم دارالضیافہ جانے لگے تو مسجد ہی میں کینیا سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے گھیر لیا۔ ان کا شدید اصرار تھا کہ ان سے بھی خصوصی طور پر ایک نشست رکھی جائے چنانچہ یہی طے پایا کہ عشائیے کے بعد وہ دارالضیافہ میں ہم سے مل لیں۔ جامعہ کے سینئر سٹاف میں بھارت سے تعلق رکھنے والے تین مسلمان بھائیوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ مکمل نام یاد نہیں‘ دو ندوی صاحبان اور ایک انصاری صاحب تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ رات کی چائے اور صبح کا ناشتہ ان کے ہاں ہوگا۔ ہم نے پروفیسر مہدی آدمو صاحب سے اس کی اجازت لی جو انہوں نے بادل نخواستہ دے دی۔
عشائیے کے بعد کینیا کے طلبہ و طالبات نے اپنے مسائل جن میں سے بیشتر ذاتی اور معاشی تھے تفصیل سے بیان کیے‘ عبد الحمید نے ان کو تسلی بخش جوابات دیے۔ پھر ندوی صاحب کے ہاں چائے پی اور رات گئے آرام کے لیے اپنی قیام گاہ پر پہنچے۔ پانی کی یہاں بھی قلت تھی۔ بالٹیوں میں پانی بھر کر رکھ دیا گیا تھا۔ میں نے وقت دیکھا تو احساس ہوا کہ ہمارے پاس کل چار گھنٹے سونے کے لیے تھے۔ جیا اور رشید تو کھانا کھاتے ہی سو گئے تھے۔ اب میں اور عبدالحمید بھی اپنے اپنے کمروں میں بند ہو کر دن بھر کے طویل سفرسے تھکے ہارے جسموں کو تازہ دم کرنے کے لیے دراز ہو چکے تھے۔
خوب نیند آئی اور یوں لگا کہ صبح کی اذان وقت سے کچھ قبل ہی ہوگئی ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ اذان تہجد کی تھی‘ ان خوش قسمت لوگوں کے لیے جو اس کے لیے اٹھ سکتے ہیں۔ اس اذان سے معلوم ہوا کہ یہ یونیورسٹی اسلامی فکر کی آبیاری کا مرکز ہے۔ طلبہ و اساتذہ میں ایک تعداد نہ صرف پنج وقتہ نمازوں کی پابندی کرتی ہے بلکہ تہجد کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ اسی خوشگوار تاثر کے ساتھ زندگی کا ایک دن رات مزید بیت گیا۔ اسی طرح پوری زندگی گزر جاتی ہے۔ بھائی جان سے معذرت خواہ ہوں کہ سفر کے دوران بھی اور ان سطور میں بھی ان کا ادب ملحوظ نہیں رکھ سکا مگر بہرحال وہ میرے بھائی جان ہیں۔ ابھی ہمیں دو دن مزید یوگنڈا میں قیام کرنا ہے۔ کمپالا اور جنجا دو مشہور شہروں میں احباب شدت سے ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ اصل پروگرام اسلامک پارٹی اور اس کی قیادت کے ساتھ تفصیلی نشست ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved