تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     10-07-2022

حوصلے بیٹھ گئے‘ پانی کھڑا ہے!

ایک بار پھر اہلِ کراچی کی جان پر بن آئی ہے۔ اللہ نے بارش کو رحمت کی شکل میں خلق کیا ہے مگر ہم نے اپنی نالائقی اور نااہلی سے اُسے زحمت میں تبدیل کر لیا ہے۔ ہر سال یہی ہوتا ہے۔ اللہ نے ہمارے لیے رحمت برسانے کا سالانہ معمول برقرار رکھا ہے اور ہم نے بھی اِس رحمت کو بروئے کارلانے کا کوئی معقول نظام تیار کرنے سے گریز کی راہ پر گامزن رہنے کی ٹھان رکھی ہے۔ بارانِ رحمت کے معاملے میں ہمارا رویہ سر بہ سر کُفرانِ نعمت کے زُمرے میں آتا ہے۔ اللہ کی رحمت پھر جوش میں آئی ہے۔ کراچی پر بادل خوب برسے ہیں۔ پورا شہر بارش سے بہرہ مند ہوا ہے۔ ہاں‘ ساتھ ہی ساتھ جانے پہچانے متعلقہ مسائل بھی اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ خواجہ میر دردؔ نے کہا تھا ؎
دردؔ کا حال کچھ نہ پوچھو تم
وہی رونا ہے‘ نِت وہی غم ہے
یہی حال ہمارا ہے۔ پانی کی بوند بوند کو ترسے ہوئے اہلِ کراچی جب بارانِ رحمت سے سرفراز کیے جاتے ہیں تو کچھ ہی دیر میں اللہ کے حضور رحم و کرم کی استدعا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جس پانی کے لیے ترسے ہوئے پائے گئے ہوتے ہیں اُسی کے برسنے کا سلسلہ روک دیے جانے کا التماس کرتے ہوئے اہلِ کراچی کا یہ رویہ عجیب لگتا ہے۔ یہ بھی عجیب ہی تماشا ہے کہ ایک حقیقی بڑے شہر کو یوں بے سہارا و بے آسرا چھوڑ دیا جائے کہ کوئی شُنوائی بھی نہ ہو پائے۔ قومی معیشت کے لیے فی الواقع شہ رگ کا درجہ رکھنے والے ملک کے سب سے بڑے اور نسلی‘ مذہبی‘ مسلکی‘ طبقاتی تنوع سے مزیّن شہر کو یوں آزاد و بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے گویا اِس سے صاحبانِ اختیار کا کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ یہ روش صرف حقوق کے معاملے میں ہے۔ اہلِ کراچی کو جو کچھ درکار ہے اُس کے معاملے میں تو بے اعتنائی پر مبنی رویہ خوب پروان چڑھایا گیا ہے‘ جب وصولی کی بات آتی ہے تو ذرا بھی ڈھیل نہیں برتی جاتی‘ اِتنا وصول کیا جاتا ہے کہ شہرِ قائد کے مکینوں کے سارے کَس بَل نکل جاتے ہیں۔
ایک بار پھر شہرِ قائد میں جگہ جگہ پانی کھڑا ہے۔ یہ صورتِ حال اِتنی عذاب ناک ہے کہ دیکھ کر حوصلے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ حکومتی اور انتظامی مشینری اپنے معاملات درست کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔ لاکھ فریاد کیجیے‘ کوئی ٹَس سے مَس نہیں ہوتا۔ کسی کو اس بات کا خوف ہی نہیں رہا کہ جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے اُس کے لیے جواب دینا پڑے گا۔ اہلِ کراچی کا بھی وہی مقدر ہے جو دوسرے بڑے شہروں کے رہنے والوں کا ہے۔ بنیادی سہولتوں کا شدید فقدان معاملات کو روز بروز زیادہ سے زیادہ الجھارہا ہے۔ حکومتی اور انتظامی مشینری کے کسی بھی حلقے کی طرف سے مسائل کے حل کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ سب کچھ عام آدمی کی پریشانی کا گراف بلند کرتا جارہا ہے۔
اور ایک بارش کو کیا روئیے‘ یہاں تو ہر معاملے میں ایسا ہی ہے کہ حوصلے بیٹھ گئے ہیں۔ پانی کھڑا ہے۔ تعلیمِ عامہ کا جو حال ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ صحتِ عامہ کی سہولتیں برائے نام رہ گئی ہیں۔ لوگ معمولی وباؤں کے شکنجے میں پھنس کر بھی مر جاتے ہیں۔ بہت سوں کا یہ حال ہوا کہ کوئی بیماری لاحق ہوئی اور تشخیص سے پہلے ہی موت نے آلیا۔ سڑکوں کا جو حال ہے وہ بھی ڈھکا چُھپا نہیں۔ کام پر جانے اور واپس آنے ہی میں انسان اَدھ مُوا ہو جاتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ جو شخص کام پر جانے کے عمل ہی میں تھک جائے وہ اچھی طرح کام کیسے کرے گا۔ اِسی طور کام پر سے واپس آنے میں بھی اِتنی تھکن طاری ہو جاتی ہے کہ انسان سماجی معاملات نمٹانے کے قابل نہیں رہتا۔ ایسے میں انسان اہلِ خانہ کے درمیان رہتے ہوئے بھی اُن کے ساتھ نہیں ہوتا‘ ذہن کہیں نہ کہیں بھٹکتا ہی رہتا ہے۔ ایک بڑے شہر میں رہنے کی قیمت کتنی زیادہ ہو سکتی ہے یہ کوئی اہلِ کراچی سے پوچھے۔ ہر معاملے اور ہر بات کی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ کوئی ایک بھی بنیادی سہولت ایسی نہیں جس کے لیے لوگوں کو اپنی جیب ڈھیلی نہ کرنا پڑتی ہو۔ کم و بیش ہر معاملہ مافیا کی نذر ہو چکا ہے۔ ہر شعبے اور ہر معاملے کا مافیا میدان میں ہے۔ کسی شے یا خدمت کی فروخت بڑھانے کے لیے متعلقہ قلت پیدا کرنے والے میکانزم کام کر رہے ہیں۔ مافیا اپنی ضرورت کے مطابق کسی بھی چیز کی قلت پیدا کرکے تجوریاں بھرنے لگتا ہے۔
سوال صرف کراچی کا نہیں۔ ملک کے ہر بڑے شہر کا حُلیہ درست کرنے اور متعلقہ مافیا کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایسا کام ہے جیسے کوئی شیشے سے پتھر کو توڑے۔ ہر شعبے کا مافیا حکومتی اور انتظامی مشینری کے ساتھ مل کر ایسا ماحول پیدا کرچکا ہے جس میں کچھ بھی درست دکھائی نہیں دے رہا۔ عام آدمی کو ہر چیز خریدنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ زندگی کا بڑا حصہ اِنہی جلاپوں کی نذر ہو رہا ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے‘ انفرادی سطح پر تھوڑی سی بہتری تو پیدا کر سکتا ہے‘ سسٹم کو تبدیل کرنے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ سسٹم تو دور کا معاملہ رہا‘ چند افراد مل کر اپنے حلقے یعنی قریب ترین ماحول کو بھی درست نہیں کر پاتے۔ ذہن اِس بُری طرح الجھے ہوئے ہیں کہ کوئی ایک بات بھی ڈھنگ سے سمجھ میں نہیں آرہی۔ بالکل سامنے کی بات بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی جارہی۔ حد یہ ہے کہ لوگ اپنے مفاد کو بھی داؤ پر لگاکر خواہ مخواہ الجھنے لگتے ہیں۔
ہر سال بارشوں کے موسم میں پورے ملک کا حال بُرا ہو جاتا ہے۔ آسمان سے برسنے والی رحمت کو اپنے لیے زحمت ہم خود بناتے ہیں اور پھر تقدیر کو روتے ہیں۔ اِسی طور کسی بھی معاملے کو اپنے ہاتھوں سے بگاڑ کر ہم سازشیں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ یہ بھی خوب ہے کہ اپنے کیے کے لیے دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی جائے۔ مانا کہ چند ایک طاقتیں آپ کے معاملات کو بگاڑنا چاہتی ہیں اور اِس حوالے سے اُن کی کوششیں برقرار بھی رہتی ہیں مگر کیا ہم ہمت ہار کر بیٹھ جائیں؟ اگر کوئی ہمارے معاملات بگاڑنا چاہتا ہے تو ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم آپس میں الجھ کر اُن کے لیے آسانیاں ہی تو پیدا کرتے رہتے ہیں۔ معاملات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید الجھتے جارہے ہیں اور ہم ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں۔ آج پورے ملک کا معاملہ یہ ہے کہ ہر معاملے میں پانی کھڑا دکھائی دے رہا ہے اور حوصلے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہمت جواب دے گئی ہے۔ کچھ بامعنی کرنے کی لگن اِتنی کم رہ گئی ہے کہ ناپید ہی سمجھیے۔ لوگ معمول کی زندگی گزارنے سے ہٹ کر کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں۔ وقت کے تقاضوں کو یوں نظر انداز کیا جارہا ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ عمومی سطح پر پاکستانیوں کا حال یہ ہے کہ اپنے حقیقی اور بدیہی مفاد کو بھی ذہن نشین رکھنے کی عادت دم توڑتی جارہی ہے۔ لوگ جذباتیت کی رَو میں بہتے ہوئے کسی بھی طرف جا نکلتے ہیں اور پھر واپسی کی کوئی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔
زندگی اگر اِس طور گزرے گی تو اُس کے دامن میں خوشیاں کہاں سے سما سکیں گی؟ جب کسی بھی معاملے میں توازن کی گنجائش ہی نہ نکلتی ہو تو کوئی کیا جیے اور کیسے جیے؟ آج پاکستانی معاشرے میں کم و بیش ہر شعبہ اِتنی خرابیوں سے آلودہ ہے کہ اصلاحِ احوال کی کوئی حقیقی صورت بہت مشکل سے دکھائی دیتی ہے۔ رونا اِس بات کا ہے کہ لوگ انتہائی سادہ سی بات کو سمجھنے کی بھی کوشش نہیں کرتے۔ دن رات محض الجھنے سے کام ہے۔ معاملات کو درست کرنے کے بجائے اُنہیں مزید بگاڑنے والی حرکتیں تواتر سے سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ یہ صورتِ حال انتہائی حوصلہ شکن ہے۔ ایسے میں حوصلہ توانا کیسے رکھا جائے؟ یہ اہم سوال ہے۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے معاملے میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ زندگی سنجیدگی کی طالب ہے۔ کوئی بھی معاملہ اپنے طور پر درست نہیں ہوسکتا۔ شعوری کوشش ہی معاملات کو درست رکھنے میں کامیابی سے ہم کنار کرتی ہے۔ کسی بھی معاملے میں پانی کھڑا ہو تو ہو‘ حوصلہ نہیں بیٹھنا چاہیے یعنی شعوری کوشش کے ذریعے معاملات درست کرنے پر متوجہ رہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved