میرے دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں اور میرے قدم خود بخود اُس عمارت کی طرف اٹھ رہے تھے جہاں میری زندگی کے چار برس گزرے تھے۔ میں نے دیکھا 35چارلس سٹریٹ کی عمارت کی Entrance بدل چکی تھی۔ شیشے کا بیرونی دروازہ اندر سے لاک تھا۔ عمارت میں انٹری کارڈکے بغیر کوئی شخص داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ میں اور شعیب دروازے کے سامنے رک گئے۔ شعیب نے کہا: دروازہ بند ہے‘ میرا خیال ہے ہمیں واپس چلنا چاہیے۔ مجھے یوں لگا کوئی پیاسا طویل سفر کے بعد پانی کے چشمے تک پہنچے لیکن وہاں پانی پینے پر پہرہ لگا ہو۔ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے‘ میں نے شعیب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ میں نے شیشے کے دروازے سے گارڈ کو اشارے سے بلایا۔ اس نے دروازہ کھول کر پوچھا: آپ نے کس سے ملنا ہے؟ میں نے کہا: مجھے کسی سے نہیں ملنا۔ گارڈ کی آنکھوں میں الجھن تھی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں اس عمارت میں چار سال رہا ہوں‘ تیس سال بعد یہاں آیا ہوں‘ صرف اپنے اپارٹمنٹ کے دروازے کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ وہ کوئی بھلا مانس شخص تھا۔ اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور کہا ٹھیک ہے لیکن آپ نے زیادہ دیر نہیں لگانی۔ میں نے Elevatorکا بٹن دبایا اور ہم انیسویںمنزل پر آگئے۔ پھر مجھے ایک دروازے پر 1915لکھا نظر آیا۔ میرا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا ہو‘ میں نے دروازے پر ہاتھ پھیر کر اس کا لمس محسوس کیا۔ مجھے یوں لگا بیتا ہوا وقت پھر سے لوٹ آیا ہے۔
یہی اپارٹمنٹ تھا جہاں ہم نے زندگی کے چار سال گزارے تھے۔ جہاں سے برف باری کے موسم میں ہم کھڑکی سے چارلس سٹریٹ پر برف باری کا منظر دیکھتے تھے‘ جب فٹ پاتھ اور مکانوں کی چھتیں برف سے سفید ہو جاتیں۔ ایسے میں اگر ایک جگہ سے دوسری جگہ پیدل جانا ہوتا تو سر اور منہ کو اچھی طرح لپیٹ لیا جاتا۔ 35چارلس سٹریٹ کی عمارت کی سکیورٹی کا اپنا نظام تھا‘ جہاں ہر آنے جانے والے کی تصویر مرکزی دروازے کی ٹی وی سکرین پر آتی‘ یہ سکرین اندر کی طرف دروازے کے اوپر دیوار پر لگی تھی۔ عمارت کے گراؤنڈ فلور پر ایک سپر سٹور Rabbaکے نام سے تھا جو 24گھنٹے کھلا رہتا تھا۔ شاید تیسرے فلور پر لانڈری تھی جہاں بہت سی لانڈری مشینیں تھیں۔ ہم ہفتے کے ہفتے وہاں لانڈری کرتے تھے۔ یہاں کے رہن سہن میں سب سے اچھی بات اپنے کام خود کرنے کی عادت ہے۔ شعیب نے کہا: آپ نے اپارٹمنٹ کا دروازہ دیکھ لیا اب واپس چلتے ہیں۔ ہمElevatorسے نیچے آ گئے۔ میں نے گارڈ کا شکریہ ادا کیا‘ اس نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔
ہم عمارت سے نکل کرCharles Streetپر آئے توRabba ڈیپارٹمنٹل سٹور کا بورڈ نظر آیا جو ہماری عمارت کے گراؤنڈ فلور پر تھا۔ میرے قدم خود بخود رکنے لگے۔ اس سٹور کے ساتھ بھی ہماری بہت سی یادیں وابستہ تھیں۔ یہ سٹور چوبیس گھنٹے کھلا رہتا تھا۔ یہیں سے ہم ضروری اشیا خریدتے تھے۔ تب اور اب میں تیس سال کا فاصلہ حائل تھا لیکن زندگی کا کاروبار اسی طرح چل رہا تھا۔ سب چیزیں ویسی ہی تھیں۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ میں یادوں کے ہمراہ سٹور میں کتنی ہی دیر ادھر ادھر گھومتا رہا۔ یہاں سے نکل کر ہم Bay Streetپر آ گئے۔ چلتے چلتے میری نگاہ دائیں ہاتھ ٹورونٹو کے سب سے بڑے بک سٹور Indigoپر پڑی۔ کتابیں میرا اور شعیب کا مشترکہ شوق ہیں۔ ہم بک سٹور میں چلے جاتے ہیں‘ یہ تین منزلہ عمارت کتابوں کی سحر انگیز دنیا ہے۔ کتنی ہی دیر ہم اس دلفریب دنیا میں کھوئے رہے۔ شعیب نے اپنے لیےThe Hidden Life of Trees خریدی جس کا مصنف Peter Wohlleben ہے۔ یہ کتاب مصنف کے ذاتی مشاہدات پر مبنی ہے کہ درخت کیسے محسوس اور Communicate کرتے ہیں۔ اور میرے لیے اس نے The Age of Surveillance Capitalism خریدی۔ میرے بس میں ہوتا تو میں کتابوں کی اس دلربا دنیا میں ابھی کچھ وقت اور گزارتا لیکن ہماری اگلی منزل Jesse Ketchum Public Schoolتھا جو Bay Streetپر واقع تھا۔ ہم پُررونق سڑک پر چلتے چلتے کچھ ہی دیر میں سکول پہنچ گئے۔ اس سکول میں میرے بڑے بیٹے صہیب اور بیٹی ہاجرہ نے اُس وقت گریڈ ٹو اور پلے گروپ سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا تھا جب میں یونیورسٹی آف ٹورونٹو سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ ٹورونٹو کے پبلک سکولز میں نہ صرف تعلیم مفت تھی بلکہ بچوں کو سٹیشنری بھی سکول سے ملتی تھی۔ ہاجرہ کی کلاس میں بچوں کو لنچ میں دودھ اور پھل بھی سکول سے ملتے تھے۔ اسی طرح پینٹنگ کی کلاس میں رنگ‘ برش اور ایپرن سکول سے ملتے۔ بچوں کو دلچسپ تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف رکھا جاتا اور دل کھول کر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔ اساتذہ نے ہمیں ہدایت کی تھی کہ گھر میں بچوں کو ہوم ورک کرانے کی ضرورت نہیں؛ البتہ ہر روز انہیں کہانیوں کی دلچسپ کتابیں ملتی تھیں اور ہمیں کہا گیا تھا کہ ابتدا میں ہم خود بچوں کو کتابیں پڑھ کر سنائیں۔ ہر بچے کو ایک لاگ بک دی گئی تھی جس میں کتاب اور مصنف کا نام اور کتاب کے بارے میں بچے کے تاثرات درج کرنے ہوتے۔ ایک دو ہفتے گزرنے پر ایک روز اسما نے مجھے کہا: یہ کیسا سکول ہے‘ کوئی ہوم ورک ہی نہیں دیا جاتا۔ ایسا سمجھنے میں اسما کا کوئی قصور نہیں تھا۔ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ بستے جتنے بھاری ہوں اور ہوم ورک جتنا زیادہ ہو‘ پڑھائی اتنی اچھی ہوتی ہے جبکہ یہاں کے سکولوں میں بچوں کو رٹے کے بجائے تخلیقی سوچ پر ابھارا جاتا ہے اور انہیں اندھی تقلید کے بجائےIndependent Learningکی تربیت دی جاتی ہے۔ یوں سکول کی تعلیم کی مضبوط بنیادوں پر اعلیٰ تعلیم کی مستحکم عمارت استوار ہوتی ہے۔ سال کے آخر میں جب بچے اگلی کلاسز میں گئے تو ہمیں بھی بلایا گیا۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہا ں چھوٹی کلاسوں میں پوزیشنز کا رواج نہیں تھا۔ اس کے برعکس تیسری دنیا کے ممالک میں والدین کی طرف سے بچوں پر پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے اور اس سلسلے میں والدین کی اساتذہ سے بھی تکرار ہوتی ہے۔ صہیب اور ہاجرہ کے اساتذہ نے میٹنگ کے دوران ہمیں ان کا پروفائل ریکارڈ دیا جس میں سال بھر کی ورک شیٹس شامل تھیں۔ ہم دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک سال کے دوران بچوں کو لگ بھگ سو کتابوں کا Exposure ملا تھا۔ ان میں وہ ساری کتابیں شامل تھیں جو اساتذہ اور والدین نے انہیں پڑھ کر سنائی تھیں۔ یہ ہے وہ مضبوط بنیاد جس پر تعلیم کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ میں نجانے کتنی ہی دیر سکول کی عمارت کے سامنے کھڑا رہا اور ان دنوں کو یاد کرتا رہا جب میں صہیب اور ہاجرہ کی انگلی پکڑ کرسکول آتا تھا۔ وقت کیسے پر لگا کر اُڑ جاتا ہے۔ اب صہیب اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر کے ٹورونٹو ہی میں ملازمت کر رہا ہے اور ہاجرہ انگریزی ادب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہی ہے۔ میر ے خیالوں کا سلسلہ اس وقت ٹوٹا جب اچانک آسمان سے بارش کی پھوار اُترنا شروع ہوگئی۔ ہم نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ قریب ہیTim Horton کافی شاپ تھی‘ شعیب نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم بھیگتے ہوئے کافی شاپ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے۔ کافی کی مانوس مہک نے ہمارا استقبال کیا۔ دھواں اُڑاتی کافی کے کپ لے کر ہم ایک میز پر بیٹھ گئے۔ تب میں نے گلاس وال سے باہر دیکھا جہاں آسمان سے اترنے والی پھوار اب طوفانی بارش میں بدل چکی تھی جس سے بچنے کے لیے لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved