تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     13-07-2022

گیم پلان: معاشی تباہی؟

منصوبہ کیا تھا؟ کیاچال غلط پڑ گئی یا اندازہ درست نہ لگ سکا ؟ غلطی فہمی ہوگئی یا پیغام صحیح نہیں پہنچا؟ کیا نشانہ چوک گیا یا گاڑی نکل گئی ؟ وٹس ایپ کے ہر پیغام اور وی لاگ کی ہروڈیومیں ایسی ہی قیاس آرائیاں دکھائی دیتی ہیں۔ گھروں میں ہونے والی ملاقاتیں، دفاتر میں دوپہر کے کھانے کا وقفہ ایسی ہی گفتگو میں گزرتا ہے کہ موجودہ سیاسی صورت حال کس قدر مایوس کن ہے۔ مایوسی، ناراضی اور شکوک و شبہات سے فضا بوجھل ہے۔ عام طور پر اس طرح کی بحث کا محور یہ نکتہ ہوتا ہے، ''ایسا کس نے کیا ہے؟‘‘لیکن اب ایسا نہیں ہے، سب جانتے ہیں کہ کس نے اور کیوں کیا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ایسا کس طرح ہوا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اس کا سکرپٹ کس طرح تیار ہوا؟ ہر کوئی ارادے، نیت، عمل اور نتائج سے آگاہ ہے۔ زیادہ تر یا تو حکومت اور ذمہ داران کو بددعائیں دے رہے ہیں یا اس صورتحال سے نکلنے کی دعا کر رہے ہیں۔ تو کیاعوام کے پاس اس وقت یہی دو آپشنز ہیں ؟
پاکستان مہنگائی کے پے در پے ڈرون حملوں کے زد میں ہے۔ تنخواہ دار طبقے اور صنعت کاروں پر ٹیکسوں کے میزائل برس رہے ہیں۔پٹرول بم کارکی سہولت استعمال کرنا ناممکن بنا رہے ہیں۔ ہر روز کوئی نہ کوئی حملہ ہوتا ہے، اور ہرکوئی اس کی زد میں آتا ہے۔ غریب افراد جسم وجان کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ کراہ رہا ہے۔ یہ حملے بے رحم اور سفاک ہیں۔ ان حملوں کو نہ روکا جاسکتا ہے، نہ برداشت کیا جاسکتا ہے۔ جس دوران ان حملوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، عوام کے غصیلے اور دھماکے دار ردعمل کا خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ یہ دھماکا سماجی بے چینی سے لے کر جرائم اور تشدد کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ یہ صورت حال واقعات کا منطقی نتیجہ ہے۔ یہ نمونہ پہلے سے طے شدہ ہے۔ یہی وہ سکرپٹ ہے جو پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے گا، جبکہ یہ پہلے ہی عالمی طاقتوں سے معاشی امداد طلب کر رہا ہے۔پی ڈی ایم اور اس کے سرپرستوں کا تمام بیانیہ سابق حکومت کی خراب گورننس اور نااہلی پر مبنی تھا۔ اسی وجہ سے اسے نکال باہر کیا گیا۔ دوماہ میں وہ ملک‘ دنیا جس کا مطالعہ کررہی تھی کہ اس نے کس طرح شرحِ نمو حاصل کی‘ اب اسے دنیا سری لنکا کے ساتھ بریکٹ کررہی ہے۔ ایسا کیونکر ہوا، اس کے کچھ راز کھل چکے ہیں:
1۔ جلدی بازی: حکومت جلدی بازی کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ اگر یہ جلدبازی عوام کے لیے کچھ بڑا وقتی ریلیف حاصل کرنے پر مرکوز ہوتی تو بات سمجھ میں آتی لیکن وہ اپنے لیے ریلیف حاصل کرنے کی جلدی میں ہے۔ گویا باقی تمام معاملات طے ہوچکے کہ وہ نیب قوانین کو تبدیل کرنے دوڑ پڑی۔یہ تبدیلیاں اور ان کی وجوہ صاف ظاہر ہیں۔ صاحبانِ اقتدار نے اپنے بدعنوانی کے مقدمات کو نئے قوانین کے تحت خارج کرنے پر توجہ دی۔ کچھ افراد کو فائدہ پہنچانے والی ان مخصوص تبدیلیوں کو عدالت میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ صدرِ مملکت کے اعتراضات کو رد کرنے کے لیے مشترکہ اجلاس نے یہ بات بالکل واضح کر دی کہ وہ 1100 ارب روپے کی بدعنوانی کے مقدمات سے بری ہونے کے لیے بے تاب ہیں۔اس پر مسلم لیگ (ن) کے وزیر توانائی خرم دستگیر نے ایک ٹاک شو میں کھلے الفاظ میں اعتراف کیا کہ بدعنوانی کے مقدمات میں سزا سے بچنے کے لیے عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تھی۔
2۔ اسراف کی خواہش: عوام کو کفایت شعاری کا سبق دیتے ہوئے شاہانہ زندگی کی عیش وعشرت سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل گیا۔ احسن اقبال صاحب فرماتے ہیں: چائے کم پیو۔قمر زمان کائرہ عوام سے کہتے ہیں کہ چینی کم استعمال کرو۔ ٹھیک اس وقت وزیر اعظم کے دفتر کے باتھ رومز کو اَپ گریڈ کرنے پر عوام کے 22 لاکھ روپے خرچ کیے جا رہے تھے۔ وزیر خزانہ خالی خزانوں کی خوفناک خبریں دیتے ہیں اور پھر ٹیکس دہندگان کے کروڑوں پیسے اپنے منسٹریل انکلیو کو اَپ گریڈ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ شاہانہ دعوتیں، شاندار بوفے، سرکاری خرچ پر اتحادیوں کے تمام کنبے سمیت غیر ملکی دورے۔ دوسری طرف ڈاکٹر مصدق ملک کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس زہر خریدنے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ جبکہ کہا یہ گیا تھا کہ عدم اعتمادکی وجہ سابق حکومت کی خراب گورننس تھی۔
3۔ تباہ کن گرانی: غالباً ان کے بیانیے کے لیے سب سے بڑا دھچکا ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے معیشت کی تباہی ہے۔ جس طرح معیشت کو پھسلنے، ٹھوکریں کھانے اور کریش ہونے دیا گیا اس نے دو سوالات کو جنم دیا۔ اگر سابقہ حکومت معاشی انتظام میں اتنی ہی خراب اورنالائق تھی تو اس مرحلے پر اتحادیوں نے اقتدار سنبھالنے کا خطرہ کیوں مول لیا؟ دوسرا سوال اس سے بھی زیادہ چشم کشا ہے۔ اگر انہوں نے جان بوجھ کر کریش ہونے کا فیصلہ نہیں کیا تو وہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے تھے؟ یہ سوالات اس وقت اور بھی گونج اٹھے جب مفتاح اسماعیل نے پاکستان اکنامک سروے پیش کیا جس میں واضح طور پر گزشتہ دو سالوں میں بڑھتی ہوئی معیشت کو نمایاں کیا گیا تھا جہاں زیادہ تر اہداف حاصل کیے گئے تھے۔ اس سے پی ڈی ایم کے بیانیے کو بڑا دھچکا لگا اور یہ اور بھی واضح ہو گیا کہ اصل ایجنڈا معیشت کو بچانا نہیں بلکہ خود کو جیل جانے سے بچانا تھا۔
اس کے نتیجے میں نیا بیانیہ تیار ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سپر پاور کا ایجنڈا تھا کہ ملک کی معیشت کو تباہ کر کے ملک کے ہاتھ میں کشکول تھما دیا جائے اور پھر اس کی خارجہ پالیسی کو کنٹرول کیا جائے ؟ یہ ایک کھیل ہے کہ کون پہلے پلک جھپکتا ہے۔ چیزیں اپنے اصل کی طرف لوٹ رہی ہیں۔ تین نکات بہت اہم ہیں:
1۔ حکومت میں پڑنے والی دراڑیں: درجن بھر سیاسی جماعتوں کے غیر فطری اتحاد میں اختلافات نمودار ہونا لازمی امر تھا۔ یہ اختلافات اب تک وزارتوں اور فنڈز کی تقسیم کے ارد گرد ہیں۔ ایم کیو ایم خوش نہیں کیونکہ سندھ میں ان کے گورنر کا انتخاب ابھی باقی ہے۔ زرداری صاحب خوش نہیں کیونکہ وہ پنجاب کابینہ میں مزید وزارتوں کا مطالبہ کررہے ہیں۔ آزاد امیدوار ناخوش ہیں کیونکہ ترقیاتی فنڈز اب بھی ان کی توقعات کے مطابق نہیں۔ جلد ہی یہ مایوسی کھلی کشمکش میں بدل جائے گی۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کو شکست ہوئی ہے۔ ان جماعتوں کے بڑھتے ہوئے عوامی رد عمل سے وہ حکومت پر تنقید کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ابھی تک خاموشی کا بھرم قائم ہے۔ جب یہ آواز بلند ہو گی تو حکومت خود کو گھیرے میں پائے گی۔
2۔ معیشت بچانا: اہم مسئلہ یہ ہے کہ معیشت تقریباً بے قابو ہو چکی ہے۔ بدترین گرمی اور بدترین لوڈ شیڈنگ، اور کوئی حل نظر نہیں آتا۔ پٹرول‘ ڈیزل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور مزید بڑھنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔ ایس پی آئی افراطِ زر کو28 فیصد ظاہر کر رہا ہے۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ اعداد وشمار کم کرکے دکھائے گئے ہیں۔ اب روس سے تیل کی خریداری کے بارے میں بات کرنے کی حکومت کی کمزور کوششیں تاخیر، نااہلی اورتجاہلانہ معاشی انتظام کے تصور کو مزید تقویت دے رہی ہیں۔ معاملات کو مزید خراب کرنے کے لیے مفتاح اسماعیل کی جگہ اب اسحاق ڈار کو لانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ پارٹی کا اندرونی چیلنج ہو سکتا ہے اور یہ دونوں لابیاں مسلم لیگ (ن) حکومت کے لیے مزید سیاسی اور معاشی خطرات پیدا کر سکتی ہیں۔
3۔ عوامی غم و غصے سے نمٹنا: شاید سب سے بڑا ٹپنگ پوائنٹ عوامی غصے کی حدود کو جانچنا ہے۔ کراچی میں پٹرول پمپوں کی لوٹ مار اور بجلی کے بل جلانے والے تاجروں کے کچھ مناظر محض آغاز ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں اس میں شامل ہو جائیں تو یہ سلسلہ مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔ درحقیقت مہنگائی نے عوام کو اس قدر شکنجے میں کس دیا ہے کہ اب محض ایک چنگاری پر وہ بے پروا ہو کر باہر نکل آئیں گے۔ یہ شاید سیاسی معیشت کا سب سے فیصلہ کن نکتہ ہے۔ ایک ذرا سا دھکا برفانی تودے کو متحرک کردے گا۔
سیاسی غیر یقینی صورتحال معاشی استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں، اس سے صورت حال وہ موڑ مڑ سکتی ہے جس کے بعد بحالی ناممکن ہو جائے گی۔ بہت سے دیگرمحسوس کرتے ہیں کہ اس طرزِ حکمرانی کے ساتھ استحکام خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ مختلف نظریات اور اہداف رکھنے والی درجن بھر جماعتوں کو ساتھ لے کر حکومت چلانے کا تجربہ یقینی طور پر ناکام ہوگا۔ حالیہ سروے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ تازہ انتخابات ہی اس گڑبڑ کا واحد حل ہیں۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ نئے اور آزادانہ انتخابات ممکن نہیں ہوں گے کیونکہ حکومت اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے بے چین ہے اور ادارے بھی حکومت کے ملبے تلے دبتے چلے جا رہے ہیں۔ عوام اپنے طور پر سڑکوں پر نکل کر عدم اعتماد کا ووٹ دے چکے ہیں۔ یہ نازک وقت ہے۔ کھڑے ہو کر کھڑے ہونے والوں کی گنتی میں شامل ہوجائیں، یا پھر بے عملی دکھاتے ہوئے بیٹھے رہیں اور کچلے جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved