مذہب‘ تاریخ‘ اقدار‘ قومی مفاد‘ وقار‘ ہم نے سب کچھ سیاست میں جھونک دیا۔ کیا اب ہم اپنے بچے بھی اس کی نذر کر دیں گے؟
سیاسی جلسوں میں لوگ اپنے بچوں کو اٹھا لاتے ہیں۔ معصوم‘ صاف دل اور ذہن والے۔ لوگ نہیں جانتے کہ اس صاف کاغذ پر وہ اُن نفرتوں کو رقم کر رہے ہیں جو اس سماج میں پھیل چکیں۔ دل کی پاک سرزمین پر وہ اُن عصبیتوں کا بیج بو رہے ہیں جو اُن بچوں کے ساتھ توانا ہوگا اور پھل دے گا۔ وہ یہ زہر‘ کل اس معاشرے کو لوٹا دیں گے جو اُن کی رگوں میں اُتارا جا رہا ہے۔ احسن اقبال صاحب کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اُن نتائج کی ایک جھلک ہے جو مستقبل کے پردے میں چھپے ہماری اقدار کے درپے ہیں۔ پہاڑ کا ایک سرا جو سمندر کی تہہ میں ڈوبا ہوا ہے۔
آپ یہ مناظر مختلف مسلکی اور فرقہ وارانہ اجتماعات میں بھی دیکھتے ہوں گے جب بچوں کو مخصوص لباس پہنا کر لایا جاتا اور بصد افتخار پیش کیا جاتا ہے۔ لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ اپنے تئیں اپنے مسلک اور فرقے کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ وہ اُس فرقہ واریت کو نئی نسل کو منتقل کر رہے ہیں جس نے ہمارے معاشرے کو بر باد کر دیا ہے‘ ہمیں اس سے نجات کی ضرورت ہے نہ کہ اس بات کی کہ اسے نئی نسل کو منتقل کیا جائے۔
احسن اقبال صاحب سے بدتمیزی کرنے والوں میں روایت اور اخلاق کی روشنی باقی تھی جس نے انہیں پشیمانی اور ندامت کا راستہ دکھایا۔ کسی انسان میں اس وصف کی موجودگی‘ اس کا اظہار ہے کہ اس کے اخلاقی وجود میں ابھی زندگی کے آثار باقی ہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ انہوں نے اس چراغ کو بجھنے نہیں دیا اور اس کی روشنی میں وہ راستہ ڈھونڈ لیا جو امکانات سے روشن ہے اور جو انسایت کا وصف ہے۔ انسان کو جو صفت اسے ابلیس کی ذریت سے الگ کرتی ہے‘ وہ یہی ہے کہ اسے اپنی غلطی پر ندامت ہوتی ہے اور وہ رجوع کرنے والا ہوتا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ آئندہ کسی کے جھانسے میں آ کر اپنے اخلاقی وجود کو قربان نہیں کریں گے۔
کارکن کی اخلاقی حس تو بیدار ہوئی لیکن لیڈر؟ افسوس صد افسوس کہ اُس کی یہ حس بیدار نہ ہو سکی۔ خان صاحب نے بھرے مجمع میں اس رویے کی تائید کی۔ گویا اپنے کارکنوں کو پیغام دیا کہ اقتدار کے کھیل میں ہر شے قربان کی جا سکتی ہے۔ مشاہدہ یہ ہے کہ عام آدمی تو لوٹ آتا ہے کہ اس کا مفاد نہیں ہوتا‘ لیڈر مگر کم ہی رجوع کر نے والے ہوتے ہیں۔ ان کے لیے تو دعا ہی کی سکتی ہے۔ اقبال کی طرح:
مریدِ سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب
خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق
جسے سیاسی شعور کہا جا رہا ہے‘ یہ دراصل جذبات کا استحصال ہے۔ معاشرے میں محرومیاں ہیں۔ ناانصافی ہے۔ بے اعتدلالی ہے۔ کرپشن ہے۔ لوگ صورتِ حال سے پریشان ہیں۔ ایسے میں ایک شخص اٹھتا اور ان جذبات کو دیا سلائی دکھا دیتا ہے۔ نفرت کو انگیخت کرتا ہے۔ سادہ لوح اُس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لوگوں کو سیاسی شعور دیا جا رہا ہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے کہ انسانی سماج پیچیدہ اکائی ہے۔ اس کے مسائل اس طرح کبھی حل نہیں ہوئے۔ سماج اور ریاست کی تبدیلی ایک سنجیدہ کام ہے۔ اس کے لیے سماجی سطح پر شعوری تبدیلی وقت طلب مشقت ہے۔
اس بحث کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ بچوں کی تعلیم کس نہج پر ہو نی چاہیے؟ کس عمر میں ان میں سیاسی شعور پیدا ہونا چاہیے۔ اس کا طریقہ کیا ہوگا؟ تعلیمی نفسیات کا یہ ایک اہم موضوع ہے۔ اس پر اجماع ہے کہ سب سے پہلے اخلاقی اقدار کی تعلیم دینی چاہیے۔ بچوں کو آدابِ زندگی سکھانے چاہئیں۔ اٹھنے بیٹھنے‘ بات کرنے کا ڈھنگ‘ بچوں کو وہ سب باتیں سمجھا دی جائیں جن کا تعلق اخلاقی اقدار سے ہے۔ اس کا ناگزیر حصہ یہ ہے کہ انہیں اخلاقی رذائل سے دور رکھا جائے۔ یہ رذائل کیا ہیں۔ جھوٹ‘ تعصب‘ نفرت‘ بدگمانی‘ بدتمیزی‘ بدکلامی۔
مذہبی تعلیم کے حوالے سے بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے مذہبی اخلاقیات سکھائی جائیں۔ وہ تعلیم جس کا تعلق آداب سے ہے۔ اسلامی تہذیب کا ایک اہم ستون حفظِ مراتب ہے۔ خدا کی عبادت‘ پیغمبر کی اطاعت و ان کے ساتھ عقیدت‘ والدین کی عزت‘ بڑوں کا احترام‘ استاد کی توقیر‘ بچوں سے شفقت۔ اس تعلیم کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ اس میں نفرت کا گزر نہیں ہوتا۔ پھر جب بچے جوان ہوتے ہیں تو ان میں سیاسی شعور پیدا کیا جا تا ہے۔ یہ شعور بھی اقدار کی بنیاد پر ہوتا ہے‘ فرد کی رعایت سے نہیں ہوتا۔ سیاسی شعور کا مطب ریاست‘ آئین‘ جمہوریت‘ سیاسی جماعت‘ ریاستی نظم وغیرہ کے باب میں ایک شعور کا پیدا ہونا ہے۔ آئین کی اہمیت سے بے بہرہ آدمی سیاسی طور پر باشعور نہیں ہو سکتا۔ یہ جاننا بھی سیاسی شعور کا حصہ ہے کہ ان میں خرابی کیسے آتی ہے اور ان میں اصلاح کا طریقہ کیا ہے۔ یہ اب فرد کا انتخاب ہے کہ وہ کس لیڈر یا جماعت کو ان اقدار کے حوالے سے بہتر سمجھتا ہے۔
اقتدار کی کشمکش‘ ہمیشہ مفاداتی ہوتی ہے۔ اس میں لوگ سچ جھوٹ کی کم ہی تمیز کرتے ہیں۔ بالخصوص ان معاشروں میں جہاں جمہوری اقدار کا احترام نہیں ہوتا۔ جہاں مصنوعی طور پر لیڈر تیار کیے جاتے اور سادہ لوح عوام کے ذہنوں کو آلودہ کیا جاتا ہے۔ جمہوری اقدار سے لاتعلقی کا ایک مظہر یہ ہے کہ سیاسی اختلاف کو حق و باطل کا معرکہ بنا دیا جائے۔ نفرت کو سیاسی ہتھیار بنا کر عوام کو تقسیم کر دیا جائے۔ لوگوں میں ہیجان پیدا کیا جائے تاکہ وہ اپنی لگام جذبات کے ہاتھ میں دے دیں اور سوچنے سمجھنے سے بیگانہ ہو جائیں۔ بچوں کو اس سیاست کا حصہ بنانا سیاسی شعور کی علامت ہے یا اُن کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑکی؟
عوام کو سیاسی یا مذہبی حوالے سے انتہا پسند بنانا ایک جرم ہے‘ چاہے اس کا ہدف قوم کے جوان ہوں یا بڑے۔ بچوں کو لیکن اس میں شامل کرنا ایک سنگین تر جرم ہے۔ لیڈر کو اپنے اقتدار سے غرض ہے۔ اس کی تو خواہش ہو گی کہ لوگ اپنی ہر شے‘ اس کی خاطر قربان کر دیں۔ وہ کہے تو لاٹھیاں کھانے سڑک پر نکل آئیں۔ وہ چاہے تو سردی گرمی سے بے نیاز ہو جائیں۔ حتیٰ کہ اپنے بچوں کی رگوں میںبھی نفرت کا زہر گھول دیں۔ لیکن کیا آپ کو بھی اپنے بچوں کی فکر نہیں؟ کیا آپ بھی چاہتے ہیں کہ وہ چھوٹے بڑے کی تمیز سے بے نیاز ہو جائیں؟
لازم ہے کہ اپنے بچوں کو مذہبی و سیاسی فرقہ واریت سے دور رکھیں۔ انہیں سیاسی نفرتوں کا شکار نہ ہونے دیں۔ آپ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں تو ضرور ہوں۔ کسی جلسے میں جانا چاہتے ہیں تو ضرور جائیں لیکن اپنے بچوں کو اس نفرت سے دور رکھیں جو مذہب اور سیاست کے عنوانات سے‘ ہمارے معاشرے میں پھیل چکی ہے۔ بچوں کو مذہب کی اخلاقی تعلیمات سکھائیں۔ ان میں سچ اور جھوٹ کا فرق پیدا کریں۔ ان کو بتائیں کہ سوچنا اور غور کرنا اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے اور اس سے کیسے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ہم میں سے کون ہے جو یہ چاہے گا کہ کل اس کے بچے گلی بازار میں اوباشوں کی طرح بڑی عمر کے لوگوں پر آوازے کستے پھریں؟ اس لیڈر کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو آپ کے بچوں کو اس کی تعلیم دیتا اور ان رویوں کی تائید کرتا ہے؟ ہم نے ہر شے کو سیاست کی آگ میں جھونک دیا۔ کیا اب ہم اپنے بچوں کو بھی اس کا ایندھن بنا دیں گے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved