بات ایک وڈیو‘ ایک تصویر اور ایک پیغام ہی کی نہیں ایک ضرورت کی ہے‘ ایک ہنگامی ضرورت کی۔ ایک بیماری کی جو ہمارے معاشرے‘ ہمارے لوگوں کو سرطان کی طرح کھائے جارہی ہے۔ اور اس کی جڑیں روز بروز گہری اتر رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بڑے رہنما جناب احسن اقبال محتاجِ تعارف بھی نہیں اور اُن لوگوں کی طرح بھی نہیں جنہیں مشہور ہونے کے لیے ہر ہتھکنڈے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ان میں نہیں جو رات دن قلابازیاں لگاتے ہیں اور منہ سے آگ کے گولے نکالتے ہیں تاکہ اس ہجوم میں توجہ کسی طرح ان کی طرف ہوجائے۔ وہ خاندانی آدمی ہیں اور ایسے آدمی کی عزت اس کے گھرانے کے بزرگوں کی وجہ سے دوچند ہو جاتی ہے۔ عالی خاندان کا آدمی کوئی ادنیٰ حرکت کرنے سے پہلے اپنے منصب‘ اپنی شہرت‘ اپنے نام کے بارے میں ہی نہیں اپنے نسب کے بارے میں بھی ہزار بار سوچتا ہے کہ بات اس کے بزرگوں کی پگڑیوں تک پہنچتی ہے۔ نارووال کے احسن اقبال ایک ایسے ہی آدمی ہیں۔ (ن) لیگ سے ہزار اختلاف اور اس کے طریقۂ کار اور اندازِ سیاست سے بیزاری کے باوجود اس جماعت میں کچھ نام ایسے ہیں جن کا احترام دل میں کبھی کم نہیں ہوا۔ احسن اقبال ایسے ہی (ن) لیگی ہیں ۔ اسی لیے جب یہ خبر ملی۔ خبر کیا وڈیو کی عملی شہادت دیکھی کہ اسلام آباد سے لاہور آتے ہوئے بھیرہ کے ایک ریستوران میں ایک بظاہر اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے گھرانے نے‘ جس میں بڑی عمر کی خواتین اور بچیاں دونوں شامل تھے‘ ان پر آوازے کسے‘ برے نام سے پکارا اور اجتماعی توہین کے مرتکب ہوئے تو دل پر ایک زخم سے بن گیا۔ یہ گھرانہ دیکھنے میں مہذب‘ پڑھی لکھی‘ کھاتی پیتی اشرافیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ کسی جاہل‘ اجڈ‘ ناخواندہ طبقے سے نہیں۔ اس طبقے کا عام طور پر چلن اور تہذیب یہی دیکھنے میں آتی ہے کہ اگر غلطی سے آپ سے ان کا کندھا چھو جائے‘ ان کے گلاس سے آپ پر پانی چھلک جائے یا ایسا کچھ اور ہوجائے تو معذرت کی جاتی ہے اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ درگزر کیا جاتا ہے۔ یہ آپس میں دست و گریبان نہیں ہوتے اور آوازیں بلند نہیں کرتے۔ یہی مہذب معاشروں میں رواج ہے اور یہی پڑھے لکھوں کا شیوہ ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جو مال و دولت کے نشے میں بے قابو ہوں یا تعلیم ان کا کچھ بگاڑ نہ سکی ہو۔ یہ گھرانہ ایسا لگتا نہیں تھا۔ اسی لیے یہ زخم گہرا لگا کہ معاشرے میں یہ سرطان کس حد تک سرایت کر چکا ہے۔ اور پھر ایک محترم سیاست دان کے ساتھ یہ سلوک؟ جسے کسی عدالت نے مجرم قرار نہیں دیا اور کبھی کوئی الزام اس پر ثابت نہیں ہو سکا۔ ظاہر ہے ان لوگوں کا احسن اقبال صاحب سے کوئی جائیداد کا تنازع تو نہیں تھا‘ نہ یہ ان کے حلقے کے سیاسی حریف تھے۔ یہ عام لوگ اور عام ووٹر تھے جنہیں آوازیں بلند کرنے کے لیے یہ جواز کافی لگا کہ وہ خود پی ٹی آئی کے سپورٹرز تھے۔ احسن اقبال (ن) لیگ کے رہنما تھے اور (ن) لیگ پی ٹی آئی کی حریف سیاسی جماعت ہے۔ ان بظاہر مہذب لوگوں کو نعرے بلند کرنے اور آوازے کسنے کے لیے یہی جواز کافی لگا۔
بقر عید کی سرگرمیوں اور گہما گہمی میں بھی یہ زخم مندمل نہ ہو سکا‘ رہ رہ کر اپنی لو سے میرا سینہ جلاتا رہا۔ یہ ہم کس تحت الثریٰ میں پہنچ گئے ہیں۔ ایک مذہب‘ ایک ملک‘ ایک قوم کے لوگوں میں ایسی نفرتیں؟ ایسا بغض؟ ایسا کینہ؟ یہ کیسے پیدا ہوگیا؟ اور اس کا علاج کس کے پاس ہے؟ یہ الاؤ رہ رہ کر مجھے جلاتا رہا حتیٰ کہ وہ تصویر نظر سے گزری جس میں اس گھرانے کے لوگ احسن اقبال کے نارووال کے گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی خاطر مدارات کی جا رہی ہے اور وہ دلی معذرت کرنے کے بعد خوش دلی کے ساتھ تصویر بنوا رہے ہیں۔ اس تصویر نے آگ کچھ سرد کی اور خوشی ہوئی کہ اس گھرانے کے افراد نے اپنی غلطی مانی اور اس کی تلافی کی ضرورت بھی محسوس کی۔ یہ ایک قابلِ تحسین بات ہے‘ غلطی ہو جانا ایک بات ہے اور غلطی پر جم جانا ایک بالکل الگ اور اس سے بھی بڑی غلطی۔ اس سے پہلے احسن اقبال صاحب نے اس گھرانے کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا اعلان کیا تھا کہ اس میں خواتین اور بچیاں بھی شامل تھیں۔ اسی کے ساتھ انہوں نے اس زہر کی طرف توجہ بھی دلائی تھی جو دِلوں میں مسلسل گھولا جارہا ہے۔ یہ ایک اچھی اور قابلِ تقلید مثال تھی جس پر احسن اقبال صاحب کو داد دی جانی چاہیے۔
لیکن اس واقعے نے ایک بار پھر وہ سوال اٹھا دیے جو پہلے بھی بارہا اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ پہلا سوال تو اسی گھرانے سے اور ان کے ہم خیالوں سے یہ ہے کہ کس مذہب‘ مسلک‘ قانون‘ تعلیم‘ رسم و رواج یا روایت کے تحت انہیں یہ حق ہے کہ کسی بھی اپنے ناپسندیدہ شخص کو سڑکوں اور ریستورانوں میں دیکھ کر اسے برا بھلا کہیں یا اسے برے القابات سے باآوازِ بلند پکارنا شروع کردیں؟ انہیں یہ حق کیسے ملا؟ ان کی تعلیم یا تربیت نے انہیں اس ارادے سے روکا کیوں نہیں؟ یقینا انہیں اس بات پر اکسانے کی وجہ وہ بہت سی وڈیوز‘ تصاویر‘ واقعات اور خبریں ہیں جن میں کسی معروف سیاست دان یا مشہور مگر ناپسندیدہ شخصیت کی سر عام تذلیل کی گئی اور تذلیل کرنے کے شائقین اور ان کے ہم خیالوں نے داد و تحسین سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ ان سیاست دانوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی جن کے مخالفین کی توہین کی گئی تھی۔ یقینا یہی وجہ ہے جس نے کسی کی توہین کرنے کے عمل کو اتنا معمولی بنا کر رکھ دیا کہ وہ ہر مذہبی‘ تعلیمی‘ تربیتی‘ روایتی اور قانونی ہدایت سے ماورا ہوکر ذہنوں میں رچ بس گیا۔ لوگ یہ سمجھنے لگے کہ یہ کھانے پینے‘ سانس لینے اور ہنسنے بولنے کی طرح ہم سب کا حق ہے۔ یہ سوچ کس کی پیدا کردہ ہے؟
ایک سوال جناب احسن اقبال کے لیے بھی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ تین بار مرکز میں اور صوبے میں حکومت کے باوجود بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ راسخ ہے کہ اس جماعت نے کام نہیں لوٹ مار کی ہے؟ کیا یہ تاثر صرف ان کے مخالف سیاست دانوں کا پھیلایا ہوا ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ یہ واحد وجہ ہے۔ اور اگر یہ واحد سبب نہیں ہے تو اس کے سدِباب کے لیے (ن) لیگ کیا کر رہی ہے جبکہ اس وقت وہ حکومت میں ہے۔ کیا عوام کا دِل محض یہ کہہ کر جیتا جا سکتا ہے کہ ساڑھے تین سالہ عمرانی دورِ حکومت اس سب بگاڑ کا ذمہ دار ہے اور ہمارے ادوارِ حکومت کا اس بگاڑ میں کوئی حصہ نہیں؟ احسن صاحب! آپ کا احترام اپنی جگہ لیکن اس جواب کا دل میں ذرہ برابر احترام نہیں۔
ایک سوال عمران خان اور اُن کے ساتھیوں سے جو اِس واقعے میں کہیں موجود نہیں تھے لیکن دراصل ہر جگہ موجود تھے۔ مجھے یاد ہے کہ عمران خان نے مغربی میڈیا کے کسی انٹرویو میں بڑے دکھ سے یہ کہا تھا کہ پاکستان میں طبقاتی تقسیم بہت بری طرح موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب یہ نئی تقسیم اور نئے طبقات جو انہی کے پیدا کردہ ہیں اور جو کسی مذہب پر نہیں محض سیاسی مخالفت پر مبنی ہیں‘ ان کا یہ پھیلاؤ انہیں دکھ نہیں دیتا؟ کیا انہیں یہ بات تکلیف نہیں دیتی کہ وہ قوم جسے صوبائی تعصبات میں جکڑنے کی کوشش کی گئی اور وہ بچ نکلی‘ جسے مسلکی تعصبات میں گھیر کر ختم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اس جال میں نہیں آئی‘ وہی قوم سیاسی تعصبات میں بری طرح گھر چکی ہے اور اس کا سارا نقصان پورے معاشرے کو پہنچ رہا ہے؟ کیا انہیں اندازہ ہے کہ اس تعصب کی نمو میں ان کا کردار سب سے زیادہ ہے؟ کیا انہیں اندازہ ہے کہ یہ دو دھاری تلوار خود انہیں بری طرح زخمی کردے گی۔ کیا انہیں کچھ بھی اندازہ نہیں ہے؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved