اب کے بارش نے شہرِ قائد پر ایسی قیامت ڈھائی ہے کہ لوگ تین سال پہلے کے لمحاتِ ابتلا کو بھول گئے ہیں۔ شہر کا جو کچھ بھی حال ہوا ہے وہ ایک دنیا کے سامنے ہے۔ تمام برساتی نالے بھر جانے سے پانی سڑکوں پر یوں جمع ہوا کہ وہ تالاب بلکہ دریا کا منظر پیش کرنے لگیں۔ یہ کیفیت کئی علاقوں میں کسی حد تک تاحال برقرار ہے۔ تبدیلی کی راہ دیکھنے والی قوم کو ایک بڑی تبدیلی یہ دیکھنے کو ملی ہے کہ اب کے کراچی کے پوش علاقے بھی بارش کے ہاتھوں رونما ہونے والی تباہ کاری سے محفوظ نہ رہ سکے۔ ڈیفنس اور کلفٹن کے علاقے بھی زیرِ آب آئے ہوئے ہیں۔ یہ علاقے سمندر کی سطح سے خاصے نیچے ہیں اس لیے یہاں سے پانی کا سمندر میں اخراج زیادہ تیزی سے ممکن نہیں۔ اگر متعلقہ مشینری بروئے کار لائی جائے تب بھی بہت زیادہ فرق پڑنے کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اِن پوش علاقوں کے مکین بھی گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ تین سال قبل ایسی ہی کیفیت نیو کراچی کے علاقے میں دکھائی دی تھی۔ اب بھی اُس علاقے کے متعدد دیہات سے لوگ گھر کا سامان چھتوں پر چڑھاکر سڑکوں پر اور پُلوں، فلائی اوورز کے نیچے پناہ لیے ہوئے ہیں۔
تین کروڑ کی آبادی کا شہر اور یہ حال؟ دنیا دیکھے گی تو اس شہر کو رہنے کے لیے بدترین ہی قرار دے گی جیسے حالیہ ایک رپورٹ میں کراچی کو دنیا کا پانچواں بدترین شہر قرار دیا گیا ہے۔ بندر گاہ کی بدولت کراچی میں پورے ملک کے لیے مال آتا ہے۔ پورے ملک کا مال یہیں سے بیرونِ ملک جاتا ہے۔ یہ شہر صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مالیاتی تفاعل کا بھی مرکز ہے۔ شہر کے متعدد علاقے غیر معمولی کاروباری مراکز کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہاں کئی صنعتی علاقے ہیں جن میں برآمدی مال تیار کرنے والے یونٹ بھی لگے ہوئے ہیں۔ اگر اِس شہر میں سب کچھ رُک جائے تو باقی ملک بری طرح متاثر ہوتا ہے۔ ملک بھر میں کم و بیش پچاس لاکھ گھرانوں کی گزر بسر کراچی میں سکونت اختیار کرکے کام کرنے والوں کی بدولت ہو رہی ہے۔ جب یہ شہر بند ہوتا ہے تو پورے ملک میں کم و بیش چار کروڑ افراد متاثر ہوتے ہیں۔ ایسے میں اربابِ بست و کشاد کو شہرِ قائد کے معاملات درست کرنے پر فوری متوجہ ہونا چاہیے۔ مگر صاحب! یہ تو ہماری سوچ یا خواہش ہے۔ جنہیں جاگنا ہے اُنہوں نے طے کرلیا ہے کہ اب میٹھی نیند کے مزے لیتے ہوئے جینا ہے۔
شہرِ قائد کی آبادی میں تواتر سے اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اب بھی یومیہ بنیاد پر بیسیوں گھرانے یہاں آکر آباد ہو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک اعتبار سے تو مستحسن ہے کہ ملک بھر کے لوگوں کو یہاں معاش کے ذرائع دستیاب ہیں اور وہ اپنی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے ہاتھوں شہر کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اُس کے ازالے کی صورت کیا ہوگی۔ شہر کے لیے جو بھی منصوبہ سازی ہوئی تھی وہ تو کب کی غیر مؤثر ہوچکی۔ متعلقہ اداروں کی ٹاؤن پلاننگ اُس کراچی کے لیے تھی جس کی آبادی پچاس‘ ساٹھ لاکھ تھی۔ شہر پھیلتا گیا اور لوگ آباد ہوتے گئے مگر کسی بھی نوع کی منصوبہ سازی کے بغیر۔ یہ سب کچھ ہنگامی بنیاد پر ہوتا آیا۔ شہر بھر میں کچی آبادیاں قائم ہیں جن میں زندگی کا معیار انتہائی پست ہے اور بعض علاقوں میں تو لوگ ایسے انداز سے جی رہے ہیں کہ اُن کا حال دیکھ کر صرف ملال ہوتا ہے اور دولتِ احساس سے مالا مال ہر انسان کا دل بجھ کر رہ جاتا ہے۔ سب کچھ ''آٹو سسٹم‘‘ پر ہو رہا ہے یعنی متعلقہ انتظامی یا حکومتی مشینری کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ صفائی ستھرائی جیسا بنیادی کام بھی ڈھنگ سے نہیں کیا جارہا۔ سب حاضری لگاکر تنخواہیں بٹورنے میں مصروف ہیں۔ ڈیوٹی تو لگائی جاتی ہے مگر جب کسی کو ڈیوٹی پر تلاش کیجیے تو دور تک پتا نہیں چلتا۔ بارش ہر سال ہوتی ہے۔ بارش کے ہاتھوں تباہی بھی ہر سال کا معمول بن چکی ہے۔ بارش کا موسم آنے سے قبل انتظامیہ اور حکومتی مشینری کے اجلاس بھی ہر سال ہوتے ہیں۔ بہت سے وعدے کیے جاتے ہیں۔ دعووں اور یقین دہانیوں سے شہریوں کو بہلایا جاتا ہے۔ عندیہ دیا جاتا ہے کہ اب بارش ہو تو سہی‘ اُس سے اِس طور نمٹیں گے کہ یاد رکھے گی! پھر بارش ہوتی ہے اور اہالیانِ شہر دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کہ انتظامی مشینری بارش کی تباہ کاریوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتی ہے۔ جب معاملات درست کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی ہی نہ جائیں تو مطلوب نتائج کیونکر حاصل ہوں گے؟ اب سندھ کابینہ کے ارکان یہ کہتے پائے جارہے ہیں کہ بارش ہی اِتنی زیادہ ہوئی کہ اُس کے ہاتھوں رونما ہونے والی تباہ کاری پر قابو پانا ممکن نہ تھا۔ جو کرنے کا کام تھا وہ کیا نہیں اور سارا ملبہ موسم پر ڈالا جارہا ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ صاحب بھی یہ کہتے پائے گئے کہ جب تک بارش ہو رہی ہے تب تک ریلیف کا کام کیا نہیں جاسکتا۔ یہ سیدھا پیغام ہے کہ بارش کے دوران حکومتی یا انتظامی مشینری سے مدد کی زیادہ توقع وابستہ نہ کی جائے۔ حکومتی مشینری کی بہانہ جوئی افسوس ناک ہے۔ اپنے موسم اور وقت کے حساب سے بارش کو تو ہونا ہی تھا۔ اُس کی تباہ کاری سے نمٹنے کی تیاری کی گئی ہوتی تو وہ سب کچھ نہ دیکھنا پڑتا جو دیکھنا پڑا۔ کراچی ایک بار پھر بہت حد تک مفلوج پڑا ہے۔ کئی علاقوں کے مکین اب تک پریشان اور سہمے ہوئے ہیں۔ مزید بارش کی پیش گوئی بھی کی گئی ہے۔ محکمۂ موسمیات کا کہنا ہے کہ ایک بڑا، خطرناک سپیل اور آئے گا۔ گزشتہ چار دن میں اب تک کہیں 240 ملی میٹر اور کہیں 175 ملی میٹر تک بارش ہوئی ہے۔ اِس کے نتیجے میں سیلابی ریلے شہر بھر میں دکھائی دیے ہیں۔ اگر ایسا ہی ایک سپیل تین‘ چار دن میں اور آگیا تو سمجھ لیجیے رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی۔ اہلِ شہر سوچ سوچ کر پریشان ہیں کہ انتظامیہ سے تو کچھ ہوگا نہیں۔ ایسے میں اگر بارش سے مزید تباہ کاری ہوئی تو اُس سے کس طور نمٹا جاسکے گا؟
مون سون کے نئے سپیل کے دوران بھی شہرِ قائد کے مکین اپنی مدد آپ کے تحت ہی بارش کی تباہ کاری سے نمٹ سکیں گے۔ صوبائی حکومت کو بہانہ جُوئی سے فرصت نہیں۔ صوبائی کابینہ کے ایک رکن عید الاضحی کے تیسرے دن عوام کو یہ بتانے میدان میں اُترے کہ 80 سے 90 فیصد برسانی پانی اُتر چکا ہے۔ یہ بتانے کی بھی کیا ضرورت تھی؟ عوام جانتے ہیں کہ پانی بالآخر خود بخود اُتر ہی گیا۔ شہر کے جنوبی اور بالخصوص ساحل سے ملحق علاقوں کا بہت بُرا حال ہے۔ بلدیہ ٹاؤن، ماڑی پور، کیماڑی، آئی آئی چندریگر روڈ، ڈیفنس اور کلفٹن کے علاقوں میں رہنے والوں کی تو جان پر بن آئی۔ خیر‘ دوسرے بہت سے علاقوں کے مکین بھی کچھ خاص آسانی سے ہم کنار نہیں رہے۔ سب کو اپنے اپنے حصے کی مشکلات مل کر رہیں۔ بارش کی تباہ کاری سے محروم کوئی بھی نہ رہا۔ جن علاقوں میں کچھ زیادہ خرابیاں پیدا نہیں ہوئیں اُن کے مکین بھی گھروں میں محصور رہے کیونکہ ایسے حالات ہی نہیں رہے تھے کہ کہیں جانے کے لیے گھر سے نکلا جاتا۔ اگر اپنے علاقے سے نکل بھی لیے تو کہیں اور پھنسنے کے امکانات توانا تھے۔ عید الاضحی کے تینوں دن لوگ گھروں تک محدود رہے۔ عقل کا تقاضا یہی تھا۔ شہر کی حالت یہ تھی کہ ع
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
مون سون ابھی باقی ہے۔ اللہ کی رحمت مزید برسے گی۔ ہم اِس رحمت کو زحمت میں تبدیل ہونے سے روکنے میں ناکام رہیں تو یہ ہماری بدنصیبی ہو گی۔ آثار یہ ہیں کہ مزید بارش میں بھی وہی ہوگا جو اب تک ہوتا آیا ہے۔ جب کسی ممکنہ خطرناک اور تباہ کن صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کچھ کیا ہی نہیں جائے گا تو وہ صورتِ حال پورا قہر ڈھاکر ہی ٹلے گی۔ کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی اداروں کے لیے پولنگ ہونے والی ہے۔ عوام کو سوچنا چاہیے کہ اب تک جنہیں منتخب کرتے آئے ہیں اُنہوں نے جب کچھ نہیں کیا‘ کچھ نہیں دیا تو اُنہیں ایک بار پھر منتخب کرنے کی ضرورت کیا ہے۔ بہتر ہے کہ اُنہیں ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا جائے جو بلدیاتی اداروں کی گاڑی ڈھنگ سے چلانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved