طاقت کا اپنا گھمنڈ‘ بلکہ نشہ ہوتا ہے جو سوچ کے زاویے‘ فیصلہ سازی‘ اعتدال‘ نفسیات اور معروضی حالات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ہمارے ہاں تو جن کے پاس اصل قتدار رہا ہے‘ انہوں نے تاریخی اعتبار سے من مانی میں کچھ فیصلے تو کر ڈالے مگر ان کے نتائج مختلف صورتوں ہم سب اور ہماری قوم بھگت رہی ہے۔ یہاں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ان کے عروج کے زمانے میں ہم نے آنکھ کھولی تھی‘ ہر جگہ انہی کا سکہ چلتا تھا‘ حواریوں کی کمی نہ تھی‘ خوشامدی ٹکے ٹوکری‘ آج کی طرح میسر تھے‘اقتدار کے سب دروازے اُن کی طرف کھلتے اور ان کے اشاروں پر بند ہوتے تھے۔ جنہیں شاہوں کی مصاحبی کا لالچ تھا‘ اگر کام کے ہوتے تو اہلیت کے مطابق اقتدار کے دستر خوان پر جگہ مل جاتی۔
زمانہ بدلا ضرور ہے مگر ہمارے ماضی اور حال میں مطابقت بہت ہے۔ کسی کو اونچا بولنے کی اجازت نہ تھی۔ سچ‘ ملکی مفاداور یہ کہ قوم نے کس راستے پر چلنا ہے‘ یہ سب کچھ مقتدر لوگ ہی طے کرتے تھے۔ ہمارے طالب علمی کے زمانے سے لے کر ادھیڑعمری تک یکے بعد دیگرے اوربسا اوقات کچھ وقفوں کے بعد یہ حلقے ملک کو اپنے تئیں دوام بخشنے‘ اسے سلامت رکھنے‘ امن و امان قائم رکھنے اور اسے ترقی کی راہ پر ڈالنے کے لیے آتے رہے۔ رکاوٹ ان کے سامنے کوئی تھی نہیں۔ ان کی زبان میں اتنی مٹھاس تھی کہ لوگ گرویدہ ہوجاتے۔ جھنڈے اٹھا کر باہر نکل آتے‘ مٹھائیاں تقسیم کرتے‘ کچھ تو شکرانے کے نوافل بھی ادا کرتے کہ برے لوگ فارغ ہوگئے‘ا ور اب پاک دامن اور محب وطن لوگ ملک کو مسائل کے بھنور سے نکالیں گے۔
یہ ملک اب کوئی نوخیز ریاست نہیں۔ یہ پچھتر برس کا ہوچکا۔ ہماری نظریں بہت کچھ دیکھ چکیں۔ ایوب خان کا مارشل لا ء لگا تو یہ درویش سکول میںتھا۔ عوام کو کچھ معلوم نہ تھاکہ یہ کون سا ''لاء‘‘ ہے۔ بس فرمان جاری ہوتے‘ ضابطے سنائے جاتے اور پلک جھپکنے میں ان کا نفاذ ہوجاتا۔ اس دور سے لے کر بعد کے تین ادوار تک طاقت ایک ہاتھ میں اس طرح مرکوز تھی کہ الہ دین کا چراغ اور جن وہ کام نہ کرسکیں جو ان کے ایک اشارے سے ہوجاتے تھے۔ ''ظلِ سبحانی‘‘ کا حکم ہو ا اور کام ہوگیا۔ انکار تو کجا‘ تاخیر کی بھی مجال نہیں۔ قدیم دور ہو یا دورِ حاضر‘ ایسے طاقتور حکمران دو مفروضوں پر چلتے ہیں۔ پہلا یہ کہ عوام کو کچھ پتا نہیں‘ یہ بھولے بھالے لوگ رموزِ مملکت کی پیچیدگیاں کیا جانیں۔ ان کا مسئلہ روٹی ہے۔ اس سے آگے ان کی سوچ کی پرواز نہیں‘ اور اس کی انہیں ضرورت بھی نہیں۔ حکمران تو اعلیٰ اور ارفع‘ خداداد صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ عوام ان کی خاکِ پا کو بھی نہیں پہنچ سکتے بلکہ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ آدابِ غلامی سیکھیں اور حکمرانوں کے اطاعت گزار بن کر زندگی گزاریں۔ آج بھی حکمرانوں کی عوام کے بارے میں یہی سوچ ہے۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ ہم سب کچھ کرسکتے ہیں‘ کرکے دکھائیں گے‘ بلکہ للکارتے ہیں کہ دیکھیں گے کہ ہمارے سامنے کون کھڑا ہوتا ہے۔ کچھ سرپھرے ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کریں گے تو ہم ان سے نمٹنا جانتے ہیں۔
ہماری تاریخ کے سب کردار جن صفوں سے بھی اُٹھے‘ عوامی جمہوری اور مقتدرہ سے‘ وہ طاقت کے زعم میں مست دکھائی دیے۔ حالات کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کی نظر میں وہ اندھے اور بہرے ہوچکے ہیں۔ انہیں صرف اپنی زبان اور آواز سنائی دیتی ہے‘ یا پھر خوشامدیوں کی دادو تحسین۔ کس کس کے فیصلوں کی بات کروں‘ کہ کرنا کیا تھااور کر کیا رہے تھے۔ ان کے کارناموں کی بدولت چوالیس سال سے جو سیاسی خاندان اوران کے کارندے ہم پر مسلط ہیں‘ ان کے نتائج آپ کے سامنے ہیں۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ ہماری صورتِ حال سری لنکا سے مختلف نہیں۔ یہ موضوع کسی اور وقت کے لیے چھوڑتے ہیں۔ دو بڑے اور کئی چھوٹے موروثیوں کے خلاف‘ جو بڑوں کے ہر دور میں اتحادی رہے ہیں‘ کپتان نے اس سوئی ہوئی قوم کو بیس سال تک جگانے کی کوشش کی۔ غلامی سے آزادی تک کا سفر کبھی بھی آسان نہیں ہوتاکیونکہ غلامانہ ذہنیت کو آزادی کی راہ سجھائی نہیں دیتی۔ سوچ پر تالے لگے ہوتے ہیں۔ غلامانہ سوچ تبدیلی کے نام سے بدکتی ہے لیکن کپتان کہتا ہے کہ ہار نہیں مانوں گا۔ میرے نزدیک یہ مزاحمت کی قرار داد ہے کہ جب تک جان باقی ہے‘ جب تک جسم میں طاقت ہے‘ موروثیوں سے نجات کی کوشش جاری رہے گی اور ان سے نجات حاصل کرکے رہیں گے۔ کپتان کے بارے میں بہت کچھ سنا اور پڑھا ہے لیکن میں اس صورت حال کو کسی اور زاویے سے دیکھتا ہوں۔
عمران خان نے روایتی سیاسی دھڑوں کے خلاف تحریک شروع کی تھی۔ آج جس مقام پر ہے وہ امتیاز اور عوامی مقبولیت کسی اور سیاسی تحریک کو نصیب نہ ہوئی۔ یہ کپتان کی صرف سیاسی نہیں‘ سماجی تبدیلی کی تحریک ہے۔ یہ عوام کی سوچ بدلنے اور سوچ پر لگے تالے توڑنے کی تحریک ہے۔
عدم استحکام‘ معافی چاہتاہوں ''عدم اعتماد‘‘ کی سازش کے ذریعے جو ہمارے بڑے دماغوں نے چند ماہ پہلے کپتان کی ''فسطائیت‘‘ سے ہمیں نجات دلانے کے لیے تیار کی تھی‘ اس کے نتیجے میں تواب ملک میں ہر طرف صرف ایک ہی لیڈر دکھائی دیتا ہے۔ اور وہ غلطی کوئی معمولی لغزش نہیں‘ ہمالیہ جیسی غلطی تھی۔ معلوم نہیں کس کے ذہنِ رسا کا نتیجہ تھی؟ عوام تو عمران خان کے گرد ایسے جمع ہورہے ہیں جیسے روشنی کے گرد پروانے۔ کپتان خود بھی حیران ہے۔ اور شاید وہ بھی جنہوں نے عشروں سے آزمائے ہوئے ٹولے کو ملک پر مسلط کردیا۔ اگر کسی کا خیال تھا کہ عمران خان کے ساتھ صرف متوسط طبقے کے پڑھے لکھے شہروں کے باسی نوجوان ہیں تو وہ حالات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لے۔ بات اب بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ معاملات کہیں سے کہیں جانکلے ہیں۔ اب بھی وقت ہے۔ ایک قدم پیچھے ہٹا جائے‘ اپنی طاقت کا بھی تاریخ کی روشنی میں جائزہ لیا جائے جس کا تذکرہ شروع میں کر چکا ہوں۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات کو آزادانہ اور شفاف بنانے کی ذمہ داری سب حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کی ہے۔ زمینی حقائق ہوں یا عمران خان کا بیانیہ‘ ان کی آواز پر لوگ ایسے نکل رہے ہیں جس کی ملکی سیاسی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ کوئی مغالطہ نہ رہے‘ عوام کی ایسی یلغار اپنا جواز بھی ثابت کردیتی ہے اور سیاسی جائزیت بھی۔ اس وقت عوامی جذبات‘ عوامی طاقت ایک سیلِ رواں کی طرح موجزن ہو چکی۔ اس کے خلاف کوئی بند کارآمد ثابت نہ ہو گا۔سب کی نظریں17 جولائی پر مرکوز ہیں۔ یہ ایک ضمنی الیکشن نہیں‘ ہماری سیاسی تاریخ کا اہم موڑ ہوگا۔ ذہن میں اندیشے ہی اندیشے ہیں۔ ماضی کے کردار آنکھوں کے سامنے گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ ڈر ہے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے۔ وقت ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ یہ حق عوام کے پاس ہی رہنے دیا جائے کہ وہ کسے منتخب کرتے ہیں۔ یہ موقع پھر نہیں ملے گا۔ بات بڑھ گئی تو بہت پچھتائیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved