پانچ سال تک لوڈ شیڈنگ پر قابو پالیں گے: نوازشریف وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’ہم 5سال تک لوڈشیڈنگ پر قابو پالیں گے‘‘ تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے ختم کردیں گے، اس لیے زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ کسی چلتی ہوئی چیز کو ختم کرنا ویسے بھی مناسب نہیں ہے کہ ملک عزیز میں پہلے ہی کافی چیزیں رکی ہوئی ہیں جنہیں رواں رہنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’بلوچستان کو نظرانداز کرنے کے دن گزر گئے‘‘ اور اب اس کی راتیں شروع ہوگئی ہیں جو دنوں سے کہیں زیادہ لمبی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’مسائل کے حل کے لیے بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا‘‘ تاہم ان سروں کو علیحدہ کرنے کا بھی کوئی انتظام ہونا چاہیے جیسا کہ جڑواں سروں کو الگ الگ کرنے کے لیے نہایت ماہرانہ سرجری کی ضرورت ہوتی ہے جس کی سہولت فی الحال ہمارے ہاں دستیاب نہیں ہے‘ اس لیے یہ تردد بھی بھارت کو اپنے ذمہ لینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ’’تشدد کی راہ اختیار کرنے والوں کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں‘‘ اور چونکہ یہ بہت سارے گروپ ہیں اور کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کس کے ساتھ مذاکرات کرنا ہیں‘ اس لیے تمام دھڑوں سے درخواست ہے کہ سب سے پہلے ہمارے پاس اپنا اپنا اندراج کرا دیں تاکہ یہ کام شروع کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم امن چاہتے ہیں، خواہ مذاکرات سے، خواہ ہتھیار سے‘‘ اور اسی لیے اینٹی دہشت گردی حکمت عملی کا آغاز نہیں کیا گیا کیونکہ ہم ان معززین سے اپنے تعلقات بھی خراب نہیں کرنا چاہتے‘ تاکہ ان کی کرم فرمائیوں سے پنجاب‘ جو اب تک بچا ہوا ہے‘ بھی ان کی لپیٹ میں نہ آجائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کرپشن اور نااہلی نے ملک کی بنیادیں ہلا دیں‘‘ لیکن میں نے کرپشن کے حوالے سے اگر کچھ نہیں کہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسئلہ ہم نے اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’قوم نے بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے مینڈیٹ دیا‘‘ کیونکہ کم از کم ہم ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ تاہم بھارتی عوام نے اپنی حکومت کو ایسا مینڈیٹ نہیں دے رکھا‘ اس لیے وہ اپنی جگہ پر مجبور ہیں اور ہم اپنی جگہ پر۔ انہوں نے کہا کہ ’’مشکل وقت میں قوم بھی ایثار کا مظاہرہ کرے‘‘ کیونکہ ہم اپنے حصے کا ایثار کر چکے ہیں کہ حکومت کا جنجال اٹھا رکھا ہے اس لیے قوم کو بھی ہم سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’خارجہ پالیسی تبدیل کیے بغیر ایشیئن ٹائیگر نہیں بن سکتے‘‘ اگرچہ اس کا عزم ہم نے اپنے گزشتہ ادوارِ حکومت میں بھی ظاہر کیا تھا لیکن اس کے بجائے ہم نے شیر کو اپنے انتخابی نشان کی حد تک ہی محدود رہنے دیا کیونکہ ایشیئن ٹائیگر بننے سے پہلے پاکستانی ٹائیگر بننا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کشمیر، پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ جس پر روزانہ زیتون کے تیل کی مالش کرتے ہیں تاکہ یہ صحت مند اور رواں دواں رہے کیونکہ فی الحال ہم یہی کچھ کرسکتے ہیں، نیز کشمیر کی رٹ لگائے رکھنا اور بھارت سے تعلقات کی بہتری کی امید رکھنا بالکل متضاد چیزیں ہیں اور ہم تضادات کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’ڈرون حملے خود مختاری کے منافی ہیں‘‘ یعنی دہشت گردوں کی کارروائیوں سے جو تھوڑی بہت خودمختاری بچ رہی ہے‘ یہ اس کے بھی منافی ہیں‘ اسی لیے قوم کو یہ بات واضح طور پر بتا رہا ہوں اورامریکہ کے گوش گزار بھی کر چکا ہوں جس پر انہوں نے ہمدردانہ غور کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’حالات اندازوں سے زیادہ خراب ہیں‘‘ اور یہ پہلی بار ہوا ہے کہ میرے اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ان پر زیادہ غور و خوض ہی نہیں کیا اور ساری توجہ دیگر مسائل کے حل کے لیے بچا کر رکھ لی تھی جن کا مرکزی نقطہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا تھا جو اللہ کے فضل سے حاصل ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر مزید قرضہ نہ لیا تو ملک دیوالیہ ہوسکتا ہے‘‘ اور چونکہ قبل از انتخابات اعلانات پر عمل کرتے ہوئے کشکول توڑ دیا تھا اس لیے اسے دوبارہ جوڑ کر کام چلایا جارہا ہے کیونکہ ان اعلانات میں کشکول توڑنا شامل تھا جبکہ ٹوٹے ہوئے کشکول کو جوڑنے کی ممانعت نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے پاس کئی آپشن ہیں‘‘ اس لیے اب ٹاس کے ذریعے فیصلہ کرنا پڑے گا کہ کونسا آپشن استعمال کیا جائے کیونکہ ہم اپنی غور وفکر کی خداداد صلاحیتوں کو ہر معاملے پر خرچ نہیں کرنا چاہتے اور انہیں بچا کر بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’کراچی میں امن کے قیام کے سلسلے میں تعاون کریں گے‘‘ اب آپ ہی بتایئے کہ اس سے بڑی قربانی بھی اور کیا ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’انتظامیہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوں‘‘ اور محض اپنی کارکردگی سے ہی کام چلا رہا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ میاں انتظامیہ کو بھی نیک ہدایت دے کیونکہ ہم سختی نہیں کرنا چاہتے بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں اور امید ہے کہ بالآخر انتظامیہ بھی ہمارے ساتھ چلنے اور اپنی کارکردگی درست کرنے پر رضا مند ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’کراچی کو لاقانونیت کے حوالے نہیں کیا جاسکتا‘‘ اور اب تک جتنی لاقانونیت بروئے کار آچکی ہے اسی کو کافی سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بے ضمیر افسروں کی گنجائش نہیں‘‘ لیکن جس طرح جیلوں میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود قیدیوں کی بھرمار ہے‘ اسی طرح بے ضمیر افسر حضرات کو بھی اکاموڈیٹ کرنا ایک مجبوری ہے جبکہ ضمیر ان کا ذاتی معاملہ ہے اور ہم کسی کے ذاتی معاملے میں مداخلت پسند نہیں کرتے تاکہ کوئی ہمارے ذاتی معاملات میں بھی مداخلت نہ کرے کیونکہ جملہ حکومتی معاملات کو ہم ماشاء اللہ اپنے ذاتی معاملات ہی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں سخت فیصلے کرنا ہوں گے‘‘ لیکن اگر ایسا کیا تو کل کو ہمارے خلاف بھی سخت فیصلے شروع ہوجائیں گے جبکہ نرم خوئی ویسے بھی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہر شہری میری اولاد کی طرح ہے‘‘ اور چونکہ اولاد کو فتنہ قرار دیا گیا ہے اس لیے میں ان سے ذرا فاصلے پر ہی رہتا ہوں۔ انہوںنے کہا کہ ’’عدالتی افسر اور گواہ خوفزدہ ہیں‘‘ اور یہ بہت اچھی بات ہے کیونکہ یہ بھی خدا خوفی ہی کے سلسلے ہیں۔ آپ اگلے روز ریڈیو اور ٹیلیویژن پر قوم سے خطاب کررہے تھے۔ آج کا مقطع میں خوابِ سبز تھا دونوں کے درمیاں میں، ظفرؔ کہ آسماں تھا سنہرا، زمین بھوری تھی
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved