اس وقت جب یہ سطریں آپ کی نظر سے گزر رہی ہیں‘ میں امریکہ سے ہوتاہوا ٹورانٹو‘کینیڈا میں مزے سے سویا ہوا ہوں ۔ سویا ہوا اس لیے کہ جب اتوار کے دن آپ کے مطلع پر یہ کالم اخبار سمیت طلوع ہوگا‘ اس وقت یہاں رات ہوگی ۔امید ہے کہ خدا سب خیر رکھے تو ایسا ہی ہوگا۔
ایک بار ہم دوست کسی مشاعرے کے بعد کھانے کے انتظار میں تھے اور بھوک بھی بہت لگ رہی تھی ۔دیگر شرکا کی میز پر کھانا پہنچ چکا تھا اور ہم انہیں کھاتا دیکھ رہے تھے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ہماری میز تک کھانا نہیں آیا تھا۔میزبان کا ہماری میز کی طرف سے گزر ہوا تو اس نے پوچھا:آپ نے کھانا کھایا ؟ ہم ابھی جواب سوچ رہے تھے کہ میرے ایک دوست نے کہا کہ بس کھایا چاہتے ہیں ۔ذرا دیکھیے کہ اس کھایا چاہتے ہیں ‘ کے الفاظ میں حسنِ طلب‘ بھوک ‘عملے کی بے توجہی اور عزتِ نفس سب باتیں سموئی ہوئی ہیں ۔اوراپنے میزبان سے ان حالات میں اس سے بہترکیا کہا جاسکتا تھا۔تو اس تحریر کے وقت سفر شروع تو نہیں ہوا لیکن بس ہوا چاہتا ہے ۔سفر اچانک تو ہرگز نہیں ‘طے شدہ ہے۔دراصل نیو جرسی ‘امریکہ کے اٹلانٹک سٹی میں اس سال APPNAکی سالانہ تقریبات ہیں جس کا ایک حصہ مشاعرہ بھی ہے۔ APPNA ایسوسی ایشن آف پاکستانی فزیشنز آف نارتھ امریکہ کا مخفف ہے جو پاکستانی ڈاکٹرز کی بڑی تنظیم ہے ۔ مشاعرہ 14 جولائی کو ہے ‘ جس میں پاکستان‘ ہندوستان سے شعرا کے ساتھ امریکہ میں مقیم پاکستانی ‘بھارتی شعرا بھی شامل ہیں ۔ ٹرکش ائیر لائنز کی جس پرواز سے مجھے پہلے استنبول اور پھر نیویارک ائیر پورٹ ‘امریکہ پہنچنا ہے‘ اسی سے جناب امجد اسلام امجد اور شوکت فہمی بھی جارہے ہیں۔ تو ان شاء اللہ سفر بہت اچھا گزرنے کی بہت اچھی توقع ہے ۔ جناب امجد اسلام امجد بہترین سینئر دوست اور رفیقِ سفر ہیں ۔ ان کے ساتھ میرے بین الاقوامی اور ملکی سفر بھی کافی ہوئے ہیں ۔جن کی کچھ روداد میرے سفرنامے'' مسافر‘‘ میں موجود ہے ۔سچ یہ ہے کہ اپنے ساتھیوں کا خیال کرنے ‘پرلطف اور بے تکلف گفتگو میں امجد صاحب کا کوئی ثانی نہیں اور اسی لیے ان کے ساتھ سفر کا انتظار پہلے سے شروع ہوتا ہے ۔
امریکہ کا سفر میرے لیے نیا نہیں ہے ‘پہلے بھی کئی بار بہت اچھے سفر ہوچکے ہیں ۔تاہم نیوجرسی پہلی بار جانا ہوگا۔ اسی طرح کینیڈا بھی پہلی بار جاؤں گا۔وہاں بھی 16جولائی کو ٹورانٹو میں ایک مشاعرہ طے کیا گیا ہے ۔نامور شاعر اور ادیب ‘جناب اشفاق حسین کینیڈا کی معروف ادبی شخصیت ہیں‘ اور ایک عشرہ قبل ٹورانٹو منتقل ہونے والے اعلیٰ شاعر جناب عرفان ستار بھی کینیڈا کی مرکزی شخصیات میں ہیں ۔میرا یہ دورہ ‘ اس کا دعوت نامہ اور مشاعرہ سب انہی میزبانوں کی محبت کا نتیجہ ہے ۔ خاص طور پر جناب عرفان ستار جو کئی سال سے اس پروگرام کے لیے سرگرم تھے‘ خاص طور پر شکریے کے حقدار ہیں ۔ ٹورانٹو اور اس سے باہر میرے بہت سے ادبی دوست بھی موجود ہیں اور میرے رشتے دار بھی ۔ امید ہے کہ مختلف جگہ ان سے بھی ملاقاتیں ہوں گی ۔
لیکن میرے اس بار امریکہ کے اصل میزبان نامور باکمال شاعر‘ نثر نگار اور سفرنامہ نگار جناب سعید نقوی ہیں ۔ جو آج کل دیگر دوستوں کے ساتھ حلقۂ ارباب ذوق ‘نیویارک کے منتظم اعلیٰ ہیں ۔بہت عمدہ شاعرہ محترمہ حمیرا رحمان بھی اس انتظام میں شامل رہتی ہیں ۔ اور دیگر اہلِ قلم بھی ۔ حلقہ ٔ اربابِ ذوق کی طرف سے 23جولائی کو مشاعرہ طے کیا گیا ہے جس میں بہت سے نامور شعرا شریک ہورہے ہیں ۔میری دعا ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ سب تقریبات بہت اچھی اور کامیاب رہیںگی۔ نیویارک کے بعد دیگر کئی شہروں میں بھی جانا ‘ دوستوں سے ملاقاتیں اور مشاعرے طے ہیں ۔امریکہ کے کچھ نئے شہروں ‘نئی ریاستوں میں بھی جانا ہوگا‘جن کا ذکران شاء اللہ آئندہ تحریروں میں کرتا رہوں گا۔
سفر کا یہ ہے کہ اس دور میں پرانی طرح کے مسائل اور مشکلات باقی نہیں ہیں لیکن نئی طرح کے مسائل اور مشکلات نے ان کی جگہ لے لی ہے ۔ صرف کاغذات ہی پورے کرنے پڑیں تو تیاری میں مہینوں لگ جاتے ہیں ۔کووڈ۔19 نے اس پر مزید کئی گنا اضافے کردیے ‘ لیکن شکر ہے کہ اب سفر سے پہلے پی سی آر ٹیسٹ کی پابندی امریکہ ‘کینیڈا اور ترکی تینوں نے ختم کردی ہے ۔ صرف مکمل ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ مع بوسٹر ڈوز کافی ہے ۔اللہ تعالیٰ صحت ‘ توانائی اور سہولت عطا کرے تو سفر بہت کچھ سکھاتا ہے ۔بہت لوگوں سے ملواتا ہے اور بہت راستے کھولتا ہے ۔میں سوچ رہا تھا کہ بچپن اور کم عمری میں تو اکیلے سفر ممکن ہوتا ہی نہیں ۔ ایک خاص عمر کے بعد آپ خود مختار ہوکر سفر کے قابل ہوتے ہیں ۔ پھر جب تک ہاتھ پاؤں چلتے ہوں ‘ صحت‘ توانائی باقی رہے۔یہ خود مختاری کی سلطنت ملکیت میں رہتی ہے ۔ ذرا معاملات بگڑ جائیں ‘ ہاتھ پاؤں جواب دینے لگیں ‘ سفر کی مشکلات سہنے کی تاب نہ ہو ‘اور اپنے بستر اور تکیے سے فراق ممکن نہ رہے تو انسان پھر اسی بچپن کی سطح پر لوٹ آتا ہے ۔ اگر اللہ لمبی عمر عطا کرے تو یہ سب کچھ ہر انسان کو پیش آتا ہے ‘ اس سے مفر نہیں ۔تو بس دعا یہی ہے کہ جب تک اللہ سفر کی توفیق دیتا رہے ‘ اپنی توفیق کے مطابق بسر بھی کرواتا رہے ۔
مسافر کی زندگی عجیب ہوتی ہے ۔ اپنا گھر بھی نہیں بھولتا اور دنیا کی کشش بھی رہ رہ کر مہمیز کرتی رہتی ہے ۔بیک وقت دو زنجیریں ایک دوسرے سے مخالف سمتوں میں کھینچتی رہتی ہیں ۔کشش ثقل کی طرح‘ کشش وطن اور کشش سفر بھی تو سچی اور حقیقی ہیں۔اس نیلے سبز سیارے کے اندر بھی تو سیارے ہیں ‘ دنیائیں ہیں ‘ عالم ہیں ۔ذرا گوشِ ہوش سے سنیں تو صرف کوہ ِندا ہی اپنی طرف نہیں بلاتااسی دنیا میں شہرِ صدا بھی تو موجود ہیں ۔سچ یہ ہے کہ دنیا میں کسی ایک جگہ ‘ کسی ایک منظر کو بھی جی بھر کے نہیں دیکھاجاسکتا۔ اتنی مہلت ہی نہیں ملتی ۔ دریا ‘ جھیلیں‘ برف پوش پہاڑ‘سمندر‘جزیرے ‘صحرا ‘ دشت ‘ ویرانے‘ریگستان ۔کون سا منظر ہے جو قدم روکنے والا نہیں ۔ کون سی جگہ ہے جو مہبوت کرنے پر قادر نہیں ۔بات صرف ایک ملک سے دوسرے ملک کی ہی نہیں ۔ سفر کسی بھی شہر کا ہو‘اس کی اپنی رنگا رنگی ہوتی ہے ۔کبھی آپ نے سوچا کہ بالکل اجنبی جگہ بھی کتنی اپنی اپنی ہوتی ہے ۔ کتنی مانوس اور کتنی محبت بھری ۔یہ تو انسان ہیں جو ایک دوسرے پر پابندیاں لگاتے ہیں ۔ زمین نے کبھی کسی پر پابندی لگائی ہے ۔ کسی کے قدم جکڑے ہیں ؟ کسی کو رزق دینے سے انکار کیا ہے ؟اللہ نے جب کہا کہسیروافی الارض ،زمین پر گھومو‘ پھروتو مقصد خالق کو پہچاننا بھی تھا اور مخلوق کی دریافت بھی ۔ہم گھومتے پھرتے ہیں لیکن نابینا مسافروں کی طرح۔ نہ خالق کی نشانیاں دیکھتے ہیں ۔ نہ مخلوق کی پہچان کرتے ہیں ۔حالانکہ یہ نشانیاں قدم قدم پر نظر آتی ہیں ۔ اور لوگ ہیں کہ قدم قدم پر ان کا انکار کرتے ہیں ۔
وہ تتلیوں کے پروں پر بھی پھول کاڑھتا ہے
یہ لوگ کہتے ہیں اس کی کوئی نشانی نہیں
سچ یہی ہے کہ انسان نے ستاروں ‘ سیاروں کی دریافتیں نہ کی ہوتیں‘کائنات کو نہ جانا ہوتا اور ان کی وسعت اور ہیبت سے تھرایا نہ ہوتاتب بھی صرف زمین کو جاننا ‘ اسے دیکھنا ہی بہت تھا۔ یہ کوئی کم نشانی تھی ؟زمین سے بڑھ کر قریب ترین نشانی کوئی ہوسکتی ہے ؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved